تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     14-12-2018

آئیں مثبت سوچتے ہیں!

آج کل جس طرح سیاستدانوں کی دنیا بھر میں چھپائی ہوئی بے پناہ دولت کی کہانیاں سامنے آرہی ہیں اس پر کبھی کبھار ڈپریشن ہوتا ہے۔ اگرچہ عرصہ ہوا اب ایسی خبروں پرحیرت نہیں ہوتی لیکن پھر بھی انسان ہوں‘ سوچتا ہوں ایسا کب تک چلے گا؟ 
مان لیتا ہوں ہم سب کو پیسے چاہئیں لیکن سوال وہی ہے کتنے چاہئیں؟ ہر بندے کی اپنی ضرورت اور اس ضرورت کی اپنی تعریف ہے۔ ہارون الرشید صاحب کا جملہ اکثر یاد آتا ہے: امیر بندے کو زیادہ دولت چاہیے ہوتی ہے۔ وہ درست کہتے ہیں کیونکہ غریب نے کبھی دولت کا مزہ چکھا اور نہ ہی اسے پتہ ہے کہ اس سے کیا کچھ خریدا جاسکتا ہے اور زندگی کو کس طرح آرام دہ بنایا جاسکتا ہے۔ جو دولت کے مزے لے چکا ہو اسے ہر وقت یہی خوف رہتا ہے اگر چھن گئی تو یہ سب ٹھاٹ باٹ یہیں رہ جائے گا۔ دولت کے انبار پر بھی اسے پریشانی سے نیند نہیں آتی کہ یہ دولت نہ رہی تو اس کا کیا بنے گا۔ 
اب اس بے یقینی کا حل یہ نکلا ہے ہر کوئی اتنی دولت کمانا چاہتا ہے جو اسے تو چھوڑیں‘ اس کی سات نسلوں کے لیے بھی کافی ہو۔ 
میں ان ارب پتی سیاستدانوں کو جانتا ہوں جو ڈاکٹر کے مشورے پر ساگ دال کے علاوہ کچھ نہیں کھا سکتے لیکن پھر بھی انہیں دولت کی حرص ہے۔ ایک دفعہ ملتان میں کسی سرکاری افسر سے پوچھا تھا: ان لوگوں کو کیا مرض ہے۔ اتنی دولت ہر قیمت پر کیوں کمانا چاہتے ہیں؟ جیلیں بھگتتے ہیں، ذلیل ہوتے ہیں، بدنام ہوتے ہیں لیکن پھر بھی باز نہیں آتے۔ سرکاری افسر نے اس کا ایسا جواب دیا تھا جو برسوں ہوئے ذہن سے نہیں اترتا۔ کہنے لگے: جیسے تم روزانہ خبر کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہوں۔ تمہیں روز ایک سکینڈل چاہیے۔ ایسے ہی ان لوگوں کو روزانہ کنٹریکٹ چاہیے جس میں سے یہ پیسے کما سکیں۔ اس کا تعلق بھوک اور ضرورت سے زیادہ نفسیات سے ہے۔ انہوں نے روز کچھ نہ کچھ کمانا ہے چاہے کچھ بھی کرنا پڑے، کسی کی لاش گرانی پڑے، کسی بینک کو لوٹنا پڑے، کسی کی جیب کاٹنی پڑے، عوام کے حقوق پر ڈاکہ مارنا پڑے‘ انہوں نے شام کو اپنے اکائونٹ میں کچھ لاکھ، کروڑ یا ارب جمع کرانے ہیں۔ یہ ایک دن کا نقصان بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ کیا تم افورڈ کرسکتے ہو کہ تمہیں روز کوئی خبر نہ ملے؟ میں چپ ہوگیا تھا۔
تو سوچتا ہوں کیا بنے گا؟ ملکی معیشت گرتی جارہی ہے۔ لگتا ہے کسی کو کوئی پروا نہیں۔ پھر سوچتا ہوں اتنی ٹینشن کاہے کو لیتا ہوں۔ یہ خطہ جو آج ہندوستان اور پاکستان کہلاتا ہے صدیوں سے ایسے ہی لٹتا آیا ہے۔ خدا نے اتنا کچھ اس خطے کو دے دیا ہے کہ کچھ بھی ہوجائے یہاں دولت ختم نہیں ہوتی۔ ہم زیادہ دور نہ بھی جائیں لیکن یہ تو سب جانتے ہیں تاریخ کی کتابوں میں ہندوستان پر پہلا بڑا حملہ سکندر نے کیا تھا۔ سکندر جب ایران کے بادشاہ دارا کا سر کاٹ کر پوٹھوہار کی دھرتی کی طرف بڑھا تھا تو پوٹھوہار کے سپوت راجہ پورس نے ایرانیوں کے برعکس سکندر کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی بجائے پوری جنگ لڑی تھی۔ سکندر اس راجہ کی بہادری سے متاثر ہوا تھا کیونکہ میدان جنگ میں ایرانیوں نے اسے مایوس کیا تھا۔ ایرانی تو اپنے بھگوڑے سردار دارا کا سر خود کاٹ کر سکندر کے پاس لائے تھے تاکہ وہ ان سب کو قتل نہ کرے۔ یہاںپوٹھوہاری راجہ خود میدان جنگ میں موجود تھا۔ مان لیا راجہ پورس کو شکست ہوئی لیکن پوٹھوہار کی دھرتی کا بیٹا کم از کم ایرانی سردار دارا کی طرح میدان چھوڑ کر بھاگا نہیں تھا اور شاید یہی ادا سکندر کو پسند آگئی تھی اور اسے عزت اور احترام سے اپنے ساتھ بٹھا لیا تھا۔
ہم سنتے اور پڑھتے ہیں کہ سکندر جب دنیا سے گیا تو خالی ہاتھ تھا‘ لیکن وہ ملتان اور پوٹھوہار کی دھرتی سے خالی ہاتھ نہیں گیا تھا۔ اپنے ساتھ بہت کچھ لے گیا تھا‘ اور اس کے ساتھ آئے ہوئے فوجی بھی یہاں ہندوستان میں یونانی دیوتائوں کی تبلیغ کرنے نہیں آئے تھے۔ وہ بھی مال و دولت کی تلاش میں نکلے تھے اور جو کچھ سمیٹ سکتے تھے‘ ساتھ لے گئے تھے۔ 
تو کیا اس کے بعد ہندوستان غریب ہوگیا تھا ؟ ہوسکتا ہے کچھ عرصے کیلئے بے چارے کسان بھوکے رہے ہوں‘ جن کا اناج اور جانور سکندر کی فوجیں لے گئی ہوں گی۔ لیکن اگلے سیزن تک پھر فصل اگ آئی ہوگی اور سات دریائوں کی سرزمین کے باسیوں نے نئے سرے سے دریا کے کنارے اپنی دنیا آباد کر لی ہو گی۔ 
سکندر کے بعد دنیا کا وہ کون سا حملہ آور تھا جو ہندوستان پر حملہ آور نہ ہوا اور اس نے اسے لوٹ کر اپنے وطن کر رخ نہ کیا ہو ۔ تیمور نے بھی دلی فتح کی‘ دل کھول کر مال بنایا اور چلتا بنا۔ تیمور کے بارے میں تو مشہور تھا کہ وہ لوٹ مار کے بعد اپنے شہر اور ملک کو خوبصورت بنانے کے لیے مقامی فنکار بھی ساتھ لے جاتا تھا۔ یوں ہندوستان کا پہلا برین ڈرین تیمور کے دور میں ہوا ہوگا ۔ اس کے بعد چل سو چل۔ افغانستان اور سینٹرل ایشیا سے حملہ آوروں کے دستے بار بار ہندوستان میں داخل ہوتے، لوٹ مار کرتے، مال بناتے ، مقامیوں سے پیسہ ، جانور اور غلہ اکٹھا کرکے ساتھ لے جاتے۔ اکیلے محمود غزنوی نے سترہ حملے ہندوستان پر کئے۔ جب بھی غوریوں کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے پیسے اور مال کی ضرورت پڑتی ‘وہ غزنی چھوڑ کر ہندوستان آتا اور یہاں سے دولت اکٹھی کرکے لے جاتا۔ ہندوستان کچھ عرصے بعد پھر امیر ہوجاتا اور امیر غزنی دوبارہ اپنا خراج وصول کرنے ہندوستان پہنچ جاتا۔ ہندوستان ان سترہ حملوں کے بعد بھی غریب نہ ہوا۔ 
دو سو سال تک سلطنت دلی پر قابض رہنے والے حکمرانوں کی کہانیاں پڑھیں یا پھر مغلوں کی آمد کا قصہ‘ جب بابر نے دلی سلطنت کے آخری بادشاہ ابراہیم شاہ لودھی کو پانی پت میں شکست دے کر قبضہ کر لیا تھا۔ تو کیا ہوا ہندوستان کو؟ جب نادر شاہ نے ایران سے پہنچ کر دلی میں بربادی مچائی، انسانوں کا قتل عام کیا‘ ہر گھر لوٹ لیا گیا‘ بہت سا مال وہ اپنے ساتھ ایران لے گیا جس میں کہا جاتا ہے کوہ نور ہیرا بھی شامل تھا‘ تو بھی کیا ہندوستان غریب ہوگیا تھا؟ اگر سلطنت دلی، مغلوں کے پانچ سو سالہ اقتدار کے بعد غریب ہوچکی ہوتی تو پھر انگریز ڈیڑھ سو برس سے زائد کیوں ہندوستان پر قابض رہتے۔ انہیں کچھ فائدہ نظر آرہا تھا تو وہ یہاںٹکے ہوئے تھے اور ان کے مانچسٹر میں کارخانے چل رہے تھے۔ برطانیہ میں صنعتی انقلاب میں ہندوستان کا سرمایہ اور وسائل کام آرہے تھے۔ 
ہندوستان پھر بھی غریب نہ ہوا۔ اگرچہ جنگ عظیم دوم میں جو گندم ہندوستانیوںنے اپنے لیے اگائی تھی وہ برطانوی وزیراعظم چرچل کے حکم پر ہندوستان سے لاد کر فوجیوں کے لیے بھجوا دی گئی اور بنگال میں قحط کے نتیجے میں لاکھوں ہندوستانی مر گئے۔ پھر کیا ہوا؟ کیا ہندوستان بالکل ختم ہوگیا؟ 
دونوں ملکوں کے سیاستدانوں نے کھل کر اپنے اپنے قومی وسائل کو لوٹا۔ اس وقت ہندوستان اور پاکستان کے اربوں ڈالرز سوئس بینکوں میں پڑے ہیں۔ ہندوستان میں راجیو گاندھی سے لے کر اب مودی سرکار تک سب کے بڑے بڑے سکینڈلز سامنے آئے جس میں پیسوں، کمیشن اور لوٹ مار کا الزام لگا۔ بھارت میں تو جانوروں کا چارہ تک سیاستدان کھا گئے۔ بھارت میںراجیو گاندھی، نرسمہا رائو تو پاکستان میں بھی بینظیر بھٹو، گیلانی، زرداری، راجہ پرویز اشرف، نواز شریف اور اب شاہد خاقان عباسی تک سب سکینڈلز میں ملوث ہیں۔ ہندوستان میں بھی بزنس مین لوٹتے ہیں پاکستان میں بھی لوٹ رہے ہیں ۔ پاکستانیوں نے دوبئی میں دس ارب ڈالرز سے زائد مالیت کی جائیدادیں خریدلیں ۔ لندن میں پاکستانی ان چند قوموں میں سے ایک ہیں جنہوں نے وہاں زیادہ جائیدادیں خریدی ہیں۔ سرکاری افسران تک نے وہ لٹ مار مچائی کہ بندہ حیران رہ جائے۔ پچھلے دنوں ایک سابق ڈی آئی جی آپریشن لاہور نے کینیڈا میں بیس لاکھ ڈالرز کا گھر خریدا اور اپنے بچوں سمیت وہیں سیٹل ہوگیا ۔ تو پاکستان کو کیا فرق پڑا؟ 
آج کل دل کو یہی تسلی دیتا رہتا ہوں کہ پاکستان کو کچھ نہیں ہوگا۔ پاکستان‘ ہندوستان اگر سینکڑوں حملوں اور لوٹ مار کے بعد بھی آج باقی ہیں تو آگے بھی چلتے رہیں گے۔ یہ خطہ ایسے رہے گا ۔ سات دریائوں کی سرزمین کچھ ایسی سخی اور زرخیز نکلی ہے کہ اپنے ہوں یا پرائے سب نے اس دھرتی کو لوٹا لیکن مجال ہے اس کے خزانے خالی ہوئے ہوں۔ اس لیے ٹینشن نہ لیں۔ ریلیکس رہیں۔ صدیوں سے ایسا ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے مجھے آج کیا ہوگیا ہے۔ تو جواب ہے: میں مثبت سوچنے کی کوشش کررہا ہوں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved