قارئین آج بھی اہمیت اور صورتحال کے پیش نظر موضوعات زیادہ ہیں۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ حکومت وقت نے موضوعات کے حوالے سے میڈیا کو کافی خود کفیل کر دیا ہے۔ ایشوز اور موضوعات کی اتنی بہتات ہے کہ بعض اوقات تو موضوع کا انتخاب کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ ''حصہ بقدر جثہ‘‘ آپ کی نذر ہے...!
ادھر وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کے وزراء کو کارکردگی کے امتحان میں پاس کیا اُدھر اگلے ہی روز گیس اور توانائی کے سنگین بحران نے پورے سندھ کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ پبلک ٹرانسپورٹ سے لیکر صنعتوں تک پہیہ جام ہو چکا ہے۔ کاروباری زندگی معطل اور سکول، کالج، دفاتر اور کام کاج پر جانے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ کئی کئی گھنٹے سڑکوں پر انتظار کے بعد مایوس واپس لوٹ رہے ہیں۔ حکومت سندھ نے گیس کے بحران کو وفاقی حکومت کی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 71 فیصد گیس فراہم کرنے والے صوبے پر گیس کی بندش آرٹیکل 258 کی خلاف ورزی ہے۔
وزیر اعظم گیس کے اس بحران پر سخت ایکشن لے چکے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ اس بحران پر کب تک قابو پایا جاتا ہے اور ذمہ داران کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ اگر یہ بحران مزید چند روز جاری رہا تو یقینا ''ڈھول کا پول‘‘ کھل جائے گا۔
خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کی گرفتاری عمل میں آچکی ہے۔ نیب اپنی تحقیقات پر کام کر رہا ہے۔ خواجہ سعد رفیق اپنے ساتھ سلوک اور کارروائی سے غیر مطمئن اور سراپا احتجاج ہیں جبکہ سہولیات کے حوالے سے بھی نالاں ہیں... خواجہ سعد رفیق نالاں اور شاکی نیب سے ہیں لیکن جواب حکومتی وزراء دے رہے ہیں جبکہ حکومتی دعویٰ ہے کہ نیب ایک غیر جانبدار اور حکومتی دائرہ اختیار سے باہر ایک ادارہ ہے۔ اس میں کسی قسم کی مداخلت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس تناظر میں اٹھنے والے سوالوں کا جواب بھی نیب کے ترجمان کی ہی ذمہ داری بنتی ہے نہ کہ صوبائی وزراء کی... گزشتہ روز ایک صوبائی وزیر نیب کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ سعد رفیق کے سوالات پر بھڑک بھی رہے تھے... نا جانے کیوں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اَپوزیشن کے تحفظات اور خدشات پر نیب کے دفاع اور ترجمانی کا کام حکومتی وزراء نے سنبھال لیا ہے اور وہ ترجمان کا بیان آنے سے قبل ہی اپنا بیان جاری کر دیتے ہیں۔ ایک صوبائی وزیر نے اپنے جذبات کا اظہار اور نیب سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ برادران اپنی سالگرہ منانے نہیں آئے وہ نیب کی حراست میں ہیں اور اس کے قواعد و ضوابط کے مطابق سلوک کے مستحق ہیں۔ اس لیے انہیں گھر کے کھانے فراہم نہیں کیے جا سکتے۔ بظاہر یہ ایک منطقی اور اصولی بات ہے لیکن یہ بات نیب کے ترجمان کے منہ سے نکلتی تو کوئی اور بات ہوتی... صوبائی وزیر کے منہ سے یہ بات کچھ اور ہی رنگ پیش کر رہی ہے۔ اس حوالے سے حکومت اور نیب دونوں کو ہی خیال کرنا ہو گا۔
انہی وزراء کی بیان بازی اور نیب کی کارروائیوں کے حوالے سے پیش گوئیوں پر حکومت پہلے ہی متعدد مرتبہ دفاعی پوزیشن پر جا چکی ہے‘ لیکن لگتا ہے بعض وزرا کو عادت سی پڑ گئی ہے۔ نہ اپنے دائرہ اختیار کا خیال ہے اور نہ ہی اپنے منصب کا پاس... بس بیان چلنا چاہیے۔ ٹی وی کا مائک سامنے آتے ہی بے اختیار بولے چلے جاتے ہیں اور آنے والے دنوں میں نیب کی متوقع کارروائیوں اور اقدامات کے حوالے سے بھی پیشگی اطلاع دے کر انتہائی باخبر اور ''پہنچے ہوئے‘‘ ہونے کا ثبوت بھی دیتے ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے سلطانی گواہ کسی نعمت سے کم نہیں ورنہ ان اداروں کے لئے تفتیش‘ تحقیق اور اصل مجرموں تک پہنچنا نہ صرف محال ہوتا بلکہ زیر تفتیش کیسوں کی اکثریت ''بستۂ خاموش‘‘ کی زینت بن چکی ہوتی۔ وہ تو خیر ہو ''شریک جرم‘‘ کی جس نے تحقیقاتی اداروں کا کام آسان کر دیا۔ اب یہ ادارے اصل مجرم پر محنت کم اور شریک جرم پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ ڈرا دھمکا کر سماجی اور دیگر طریقوں سے دباؤ ڈال کر واردات کے مرکزی کردار تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح شریک جرم کی مخبری مرکزی مجرم تک بآسانی پہنچا دیتی ہے۔ بعض کیسوں میں تو بالواسطہ یا بلا واسطہ کیس سے متعلق افراد کو محض سلطانی گواہ بنانے کے لیے گرفتار کیا جاتا ہے اور پھر سلطانی گواہ بنا کر مرکزی مجرم پر شکنجہ فٹ کر دیا جاتا ہے۔
سلطانی گواہ کی صورت میں ایسی ''پراڈکٹ‘‘ انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ شہباز شریف کے خلاف بھی اسی ''پراڈکٹ‘‘ کو استعمال کرنے کی کافی کوششیں ہو چکی ہیں لیکن تاحال کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے۔ اسی طرح اپوزیشن کے دوسرے سیاست دانوں کے خلاف کیسز میں بھی اس پراڈکٹ پر محنت جاری ہے۔ تازہ ترین سلطانی گواہ قیصر امین بٹ کو جیل سے ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے جہاں وہ چند دن پڑاؤ کے بعد طے شدہ پروگرام کے مطابق گوشۂ عافیت میں چلے جائیں گے۔
اپنے ایک حالیہ کالم میں وزیر اعلیٰ پنجاب اور بالخصوص وزیر بلدیات عبدالعلیم خان سے گزارش کی تھی کہ بلدیاتی اداروں سے عناد کی روش ترک کی جائے اور سیاسی تعصبات سے بالا تر ہو کر ان فعال اداروں کو کام کرنے دیا جائے۔ ان اداروں کو منجمد اور غیر فعال کرنے سے پنجاب بھر میں شہری سہولیات کی فراہمی تقریباً نو ماہ سے تعطل کا شکار ہے۔ جس کی وجہ سے شہری شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ کم از کم سوک سروسز کی بحالی تو ہو ہی جانی چاہیے کیونکہ سڑکوں، گلیوں کی مرمت اور سٹریٹ لائٹس کی روشنی سے استفادہ کرنے والے کسی مخصوص پارٹی کے لوگ نہیں بلکہ اس ملک کے شہری ہیں۔
صوبائی دارالحکومت کو ہی لے لیجئے... وزیر اعظم عمران خان کی ذاتی رہائش گاہ سے چند سو گز کے فاصلے پر سٹریٹ لائٹس نام کی کوئی شے نہیں ہے اور سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں‘ اور آئے روز ٹریفک حادثات کا باعث بننے کے علاوہ شہریوں کی ٹرانسپورٹ اور جان کے لیے مسلسل خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ ان سڑکوں کی مرمت اور سٹریٹ لائٹس کی تنصیب میں کیا امر مانع ہے...؟ اور یہی منظر شہر کے دوسرے حصے بھی پیش کر رہے ہیں۔ گلیاں، گرین بیلٹس، فٹ پاتھ بھی ٹوٹ پھوٹ اور خستہ حالی کی طرف رواں دواں ہیں جبکہ شہر کی اہم شاہراہوں پر ٹریفک قوانین سے متعلق نشانات تقریباً مٹ چکے ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف اور کیسی سیاست ہے...؟ کہ عوام کو محض اس لیے ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے کہ اُن کے شہر کے بلدیاتی اداروں کے سربراہ اَپوزیشن جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔
بلدیاتی اداروں کے حوالے سے حکومت جو بھی اصلاحات لا رہی ہے اس کا قطعی یہ مقصد نہیں ہونا چاہیے کہ عوام کو شہری سہولیات سے محروم کر دیا جائے۔ حکومتی تحفظات، خدشات اور سیاسی تعصبات اپنی جگہ... لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ کوئی ایسا لائحہ عمل اور طریقۂ کار اپنایا جائے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آنے والے بلدیاتی نمائندے ان کاموں کو تو انجام تک پہنچا سکیں جن کا وعدہ کر کے انہوں نے ووٹ حاصل کیے ہیں۔ ریفارمز اور اصلاحات ضرور لائیں لیکن عوام کو سزا اور اذیت سے دوچار نہ کریں۔ اگر یہ صورتحال چند ماہ اور جاری رہی تو عین ممکن ہے کہ شہر کی سڑکیں، فٹ پاتھ اور گلیاں ٹوٹ پھوٹ کے بعد خستہ حالی کا منظر پیش کریں اور جا بجا مٹی اور کوڑے کے ڈھیر نظر آئیں۔ کراچی کے عوام ان حالات سے گزر چکے ہیں۔ سیاسی تعصب، حکمرانوں کی بد نیتی اور غیر سنجیدہ رویے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو پہلے ہی برباد کر چکے ہیں۔ خدارا یہ پالیسیاں اور تعصبات ترک کریں اور عوام سے کیے ہوئے وعدوں اور دعووں کا کچھ تو پاس کریں۔