تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     14-12-2018

نئے دوست کے نام

کبھی زندگی میں اچانک ایک ایسے شخص سے آدمی کی ملاقات ہوتی ہے کہ وہ کافی دیر حیرت سے نکل نہیں پاتا ۔ ایسے عالم میں بندہ سوچنے لگتا ہے کہ یہ شخص پہلے کہا ں تھا ۔اگر یہ پہلے مل گیا ہوتا تو ؟ ایسے ہی ایک شخص سے میری ملاقات ہوئی ۔ یہ ایک آئی ٹی ماہر ہے ۔ پھر یہ اپنے شوق سے مراقبات اور ایسے علوم حاصل کرنے کی طرف بڑھ گیا‘ جس سے وہ خدا کو پالے ( اس وقت وہ یہی سمجھتا تھا کہ یہ علوم خدا تک پہنچنے کے لیے اس کی رہنمائی کریں گے )۔ اس راستے میں ایک طویل عرصے تک وہ کانٹوں پہ گھسٹتا چلا جاتا ہے؛حتیٰ کہ زخم زخم ہو جاتا ہے ۔ پھر اس کی ملاقات پروفیسر احمد رفیق اختر سے ہوتی ہے ۔ 
یہ شخص پروفیسر احمد رفیق اختر کے پاس اس حال میں پیش ہوا کہ اس کے طویل بکھرے ہوئے بال کندھوں پہ پڑے تھے اور آنکھیں سرخ تھیں۔ اس سے پہلے بھی وہ نگری نگری گھوم چکا تھا ۔ توپروفیسر صاحب نے اسے دیکھا اور یہ کہا: مراقبات کرتے ہو؟ اس کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ بہت دیر تک وہ روتا رہا۔ میرا یہ دوست کہتا ہے کہ میں واحد شخص ہوں ‘ جس پہ دو دفعہ پروفیسر صاحب نے سخت غصے کا اظہار کیا۔ استاد کا کہنا یہ تھا کہ مراقبات چھوڑ دو ۔ پھر میرے اس دوست نے ایک کتاب لکھنے کا سوچا۔اس لیے کہ بہت سے لوگ اسی خارزار میں گھسٹ رہے ہوں گے‘ لیکن ہر ایک کو استاد میسر نہ آیا ہوگا ۔
شاید کوئی بندہ ٔخدا آئے
صحر ا میں اذان دے رہا ہوں 
مجھے اس نے کہا کہ تم واحد شخص ہو جو نفس کے بارے میں لکھتے ہو۔ میں نے اسے بتایا کہ میں اپنے والد کے ساتھ پروفیسر احمد رفیق اختر کے پاس جایا کرتا تھا ۔ 90فیصد میں ان کے ساتھ ہی گیا ہوں ۔وہاں جس levelکی گفتگو ہوتی تھی‘ اس نے میرے اندر ایک احساسِ کمتری پیدا کیا۔ آخر میں نے ان سے کہا کہ مجھے علم میں اضافے کی دعابتائیں۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے بہت سارا علم حاصل ہو گیا ‘لیکن اتنا ضرور ہوا کہ اپنی جہالت کا ادراک ہونے لگا۔ ویسے بھی انسان زیادہ سے زیادہ کتنا جان لے گا۔ انسان اپنے تمام تر علم کی مدد سے یہ جاننے میں کامیاب ہو چکا ہے کہ ہم کائنات میں جو کچھ بھی دیکھتے ہیں ‘ بشمول‘ سورج‘ ستارے‘ کہکشائیں ‘ وہ سب صرف پانچ فیصد ہے ۔ جب کہ پچانوے فیصد ایسا ہے کہ جو ہمیں نظر نہیں آرہا ۔ اب کیسے انسان اپنے علم کا دعویٰ کرے؟اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ انسان کو کیسے پتہ چلا کہ وہ پانچ فیصد دیکھ سکتاہے اور 95فیصد نہیں دیکھ سکتا۔اس طرح کہ اگر ایک کاغذ یاایک سوکھا ہوا پتہ چھت سے نیچے پھینک دیا جائے تو اسے اپنے ہلکے وزن کی وجہ سے بہت آہستہ آہستہ نیچے گرنا چاہیے۔ اگر وہ لوہے کی طرح نیچے جا کر ٹن کر کے ٹکرائے اور گڑھا پیدا کردے تو اتنی سمجھ تو انسان کو ہے کہ کوئی وزنی چیز اس کے ساتھ بندھی ہوئی تھی‘ جو نظر نہیں آرہی۔فرض کریں کہ آپ مٹھی بھر روئی اگر ترازوپہ رکھیں ۔ وزن پانچ کلو لکھا آئے ‘ جب کہ ترازو خراب نہیں ہے تو اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسی چیز ترازو پہ وزن ڈال رہی ہے ‘ جو کہ ہمیں نظر نہیں آرہی لیکن اس کا انکار کرنا بھی ممکن نہیں ۔
اسی طرح کہکشائیں جس رفتار سے حرکت میں ہیں ‘ اور اس تیز رفتار حرکت کے باوجود ستارے ایک دوسرے سے دور بکھر نہیں جاتے بلکہ پوری کہکشاں جڑی رہتی ہے تو صاف ظاہر ہے کہ کوئی ایسی چیز ہے ‘ جو ہمیں نظر نہیں آرہی ۔جس نے کہکشائوں کو یہ رفتار حاصل کرنے اور جڑے رہنے میں مدد دی ۔رہی نفس پہ لکھنے کی بات تو نفس پر کوئی چیز میں نے اپنے پاس سے نہیں لکھی ‘بلکہ جو پروفیسر صاحب سے سنا اور صحیح یا غلط جتنا بھی سمجھ سکا‘ وہی آگے بیان کیا۔ انہی میں سے ایک چیز آج آپ کی نذر کرتا ہوں ۔ 
نفس کیا ہے ۔ یہ ہمارے اندر حیوانی خواہشات کا ایک مجموعہ ہے ۔ اس کی ایک مکمل شخصیت ہوتی ہے ۔ آپ اس کا مشاہدہ بھی کر سکتے ہیں ۔ دو ہم عمر لڑکوں میں سے ایک کو گاڑی دے دیں اور دوسرے کو موٹر سائیکل اور پھر موٹر سائیکل والے کے تاثرات دیکھ لیں ۔ 99فیصد لڑکے ایسی صورتحال میں شدید حسد سے دوچار ہوجائیں گے ۔ بندروں پر بھی تجربات ہوتے ہیں ‘ جن میں ایک کو اگر آپ اچھی چیز کھانے کو دیں اور دوسرے کو کمتر تو وہ غصے کا اظہار کرتے ہیں ۔اسی طرح آپ کسی انسان کی ایک دفعہ تضحیک کر دیں ‘ وہ ساری عمر نہیں بھولے گا ۔ آخر انسان ایسا کیوں کرتا ہے ۔ اس لیے کہ یہ جو نفس ہے‘ اس میں اپنی شدید ترین محبت ہے ۔ اسی بے انتہا محبت کی وجہ سے وہ اپنے اندر کوئی خامی برداشت نہیں کر سکتا۔ اسے کالا‘ لنگڑا ‘ پستہ قامت اور دوسری خامیوں کا اپنے اندر ہونا قطعاً پسند نہیں ۔ اسی طرح خود سے شدید محبت کی وجہ سے وہ کبھی اپنی تذلیل بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ اسی طرح نفس کی جتنی بھی عادات ہیں ‘ ایسا لگتا ہے کہ خود سے انتہائی محبت ہی ان کی وجہ ہے ۔ 
اسی طرح نفس کی ایک اور عجیب و غریب عادت یہ ہے کہ یہ ہمیشہ انتہا کی طرف جاتا ہے ‘ کبھی بھی اعتدال میں رہنا پسند نہیں کرتا۔ اگر تو وہ دوسروں پہ غلبے کی خواہش پر عمل کرے گا تو اپنے گھر‘ اپنی جامعہ ‘ اپنے محلے‘ اپنے شہر‘ اپنے ملک ‘ ہمسایہ ملک اور حتیٰ کہ پوری دنیا پر غلبہ چاہے گا۔ اپنے مخالفین کو وہ پیس کے رکھ دے گا۔ یہ بات آپ سیاسی لیڈروں میں عام دیکھ سکتے ہیں ۔ اسی طرح اگر وہ دولت اکھٹی کرنے کے مشن پر نکلا ہے تو بل گیٹس کو ہرا کر بھی اسے اطمینان نصیب نہیں ہوگا۔ بندہ ذہنی طور پر بیمار ہو جاتا ہے ۔ جب ڈاکٹر عاصم کو گرفتار کیا گیا تو انہوں نے عدالت میں بتایا کہ مجھے میرے ماہرِ نفسیات تک رسائی دی جائے ۔ یہ اس شخص کی حالت تھی ‘ جو دولت کے پہاڑ جمع کر چکا تھا ۔ دوسری طرف زرداری صاحب کا حال بھی ہمارے سامنے تھا۔ انہوںنے اپنے دوست ‘ اپنے جنگجو ساتھی ذوالفقار مرزا سے شوگر مل چھیننے کی کوشش کی اور پھر جو تماشا ہوا‘ وہ پوری دنیا نے دیکھا ۔ 
یہی حال دوسری نفسانی خواہشات کا ہے ۔اپنے جیسے عام لوگوں کا ہم کیا ذکر کریں ‘ دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کے صدر بل کلنٹن نے جو رسوائی دیکھی اور سی آئی اے کے چیف جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ وہ آپ کے سامنے ہے ۔ ایک چیز تو یہ ہے کہ آپ پانی کا ایک گلاس پئیں‘ پیاس کم ہوجائے گی۔ لیکن دولت اور دوسرے معاملات میں آپ جیسے جیسے اپنا ذخیرہ بڑھاتے جائیں گے‘ ویسے ویسے آپ کی پیاس میں اضافہ ہو تا چلا جائے گا ۔ تو سوائے اس انسان کے کہ جو خدا کی دی ہوئی توفیق کی مدد سے اپنی اصلاح کرتے ہوئے قناعت اختیار کر سکے‘ کوئی بھی چیز ہمیں مطمئن نہیں کر سکتی۔ بہرحال‘ آج کا یہ کالم اپنے نئے دوست کے نام ۔ اب وہ اپنی کوششوں میں کتنا کامیاب ہے اور کتنا ناکام‘ یہ تو استاد ہی بتا سکتے ہیں‘ لیکن بہرحال وہ ان لوگوں میں سے ہے ‘ جن سے اتنی دیر سے ملاقات ہونے پر بھی افسوس ہوتاہے۔ ویسے یہ آپس کی بات ہے کہ ہر چیز اپنے مقررہ وقت پہ ہی وقوع پذیر ہوتی ہے !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved