ایک صدی قبل امریکی صدر وڈروولسن نے ''لیگ آف نیشن‘‘ عالمی تنظیم کے پلیٹ فارم پرمعاشی پابندیوں کے حوالے سے کہا تھا''جب ایک قوم دوسری قوم سے قطع تعلقی کرتی ہے۔گویا وہ دوسری قوم کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دینے کے مترادف ہے‘‘۔انہوں نے اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ''خامو شی اور امن پسندی سے معاشی پابندیاں ایسامہلک ہتھیار ہیں جس کے استعمال کے لیے کوئی طاقت صرف نہیں ہوتی‘‘۔ یہ ایک ایساعمل ہے جو صرف اس قوم کا بائیکاٹ ہی نہیں بلکہ اس قوم پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے یہاں تک کہ دور جدید میں بھی اس قوم کا جینا کٹھن ہو جاتا ہے۔امریکی صدر ولسن‘ جرمنی کو عالمی سطح پر تنہا کرنے اور جنگ اول میں شکست دینے کے لیے معاشی ہتھیار استعمال کرنے کے حامی تھے۔یہ اس وقت کی بات ہے جب امریکہ اپنے معاشی بحرانوں میں گھرا ہوا تھا اور اس پر قابو پانے کے لیے منصوبہ جات بنا رہا تھا۔وہ اس وقت عالمی تنظیم'' لیگ آف دی نیشن‘‘ کا ممبر بھی بننا گوارہ نہ کرتاتھااور اس کے لیے کوئی مرکزی کردار ادا کرنے کوراضی نہ تھامگر جنگ عظیم دوم کے بعد امریکہ نے عالمی سطح پر خود کو اجاگر کرنا شروع کیااور دیگر اہم ا قدامات کرنے شروع کیے‘ جیساکہ خود کو ایک سپر پاور منوانا‘معاشی پابندیاں عائد کرنا اور ہتھیاروں کی بڑے پیمانے پر فروخت تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ امریکہ اپنے پائوں پھیلاتا چلا گیا اور دنیا اسے تکتی رہ گئی۔ یہ ولسن کا صرف ایک خواب تھا جو شرمندہ تعبیر ہورہا تھا۔
معاشی پابندیاں امریکیوں کی ایجاد نہیں ۔اس سے قبل قدیم یونانیوں نے میگارین پر غیبت کے الزام میں یونانی مارکیٹ تک رسائی حاصل کرنے پر پابندیاں عائد کی تھیں۔عمومی طور پر سوال یہ پیدا ہوتا کہ کیا یونانی اتنا تیز دماغ اور منصوبہ جات بنانے کے ماہر تھے ؟جو دور جدید کا اہم ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔یہ وہ ہتھیار ہے جو جنگ سے پہلے استعمال کیا جاتا ہے ۔ واشنگٹن نے پہلی معاشی پابندیاں تاجروں پر لگائی تھی۔امریکہ نے فرانس اور برطانیہ کے تاجروں پر الزام عائد کرتے ہوئے پابندی لگائی تھی کہ وہ امریکی تاجروں کے جہازوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب'' نپولک جنگ‘‘ جاری تھی۔امریکی پابندیاں غیرمعمولی طوفان تو ثابت نہ ہوئیں‘ کیونکہ یورپ تجارتی رسدکے دیگر ذرائع اپنے پاس رکھتا تھا۔ ان کے جنوبی ممالک میں زراعتی درآمدات کی بہت بڑی مارکیٹ تھی اور اندازے کے مطابق لوکل مصنوعات کی بدولت قریباً 5فیصد ہی ان پابندیوں کا اثر پڑا ہوگا ۔
پابندیوں کے اختتام پر یہ بات سامنے آئی کہ معاشی پابندیاں صرف وہ واحد مضبوط ہتھیار ہے جسے طویل المیعاد منصوبہ جات اور جنگ کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔اس بات سے منہ نہیں موڑ سکتے کہ برطانیہ اورفرانس پر ان پابندیوں سے تھوڑا سہی‘ فرق ضرور پڑا تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ امریکی تاجروں میں بھی اس کا درد محسوس کرتے دیکھاگیا تھا۔امریکی اس تجربے کے بعد بخوبی سیکھ پائے کہ یہ ان کے لیے کس قدر کارگر ہتھیار کے طور پر اہم ہیں؟جنگ عظیم دوم کے بعد امریکہ نے عالمی سطح پر سکیورٹی پلان ترتیب دئیے اور اس کے کنٹرول کے لیے سکیورٹی کونسل کے جھنڈے تلے نئے فارمولے بنائے اور انہی کے تحت بڑے پیمانے پر کارروائیاں کرتا آرہا ہے ۔امریکہ کی یہ کامیابی بھی اپنے آپ میں ایک سوال ہی ہے ؟ 1990ء میں عراق کے خلاف معاشی پابندیاں لگانے کے بعد ‘عراق کی معیشت تو تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی تھی۔ صحت کے شعبے میں کئی مسائل پیدا ہوئے تھے مگر صدام اور مسلح افواج کے جرنیل اورذاتی اثاثہ جات میں خاطر خواہ اضافہ بھی دیکھنے کو ملا تھا۔امریکہ نے اس تجربے کے بعد معاشی پابندیوں کے علاوہ‘ ان رہنمائوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا‘ یہ جانے بغیر کہ ان کے پیچھے قوم ہے؟
9/11 کے بعد دہشت گردی کی جنگ میں اس نے اپنی پالیسی پرسوچ بچاردوبارہ شروع کردیا۔امریکہ نے بہت جلد اس بات کو سمجھ لیا کہ عالمی معاشی نظام پرگرفت مضبوط کی جائے اور ایک نئی عجیب و غریب پالیسی کہ دہشت گردی کو روکنے کے لیے بینکنگ سیکٹر کے گروپ بناکر ‘ان تنظیموں اور ممالک پر مالی پابندیاں عائد کرنے جیسے منصوبوں پرعملدرآمد شروع کیا جائے۔اس سے پہلے عالمی تجارت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے پیشوں جیسا کہ تیل کی تجارت اور ان ممالک کی تجارت کو ڈالر سے منسوب کرنے کے لیے نیا جال بنا گیا۔ عالمی بینک بھی تجارت کے عمل کو ڈالر میں ترجیح دینے لگے اور امریکی مالیاتی نظام کے تحت لین دین کرنے لگے جو وقت کے ساتھ ساتھ ڈالر کی اہمیت مزید بڑھاتا گیا۔ امریکہ نے عالمی سطح پر پورا نظام متعارف کروایا جس کو ایک آرڈر 13224کے ذریعے لاگو کیا گیا۔ تمام بینکوں کو اس نظام کے زیر اثر لایا گیا۔ امریکہ آزمائشی طور پر ان بینکوں پر دہشت گردگروپوں کے منی لانڈرنگ کے حوالے سے دبائو بھی ڈالتا رہا ہے مگرتکنیکی وجوہ کی بنا پر امریکی قوانین‘ بینکوں پر صرف سسٹم کے تحت ہی لاگو ہو سکتے ہیں‘ کیونکہ غیرملکی اکائونٹ ہولڈر کبھی امریکی بینکوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ جب چاہیںبلا وجہ بلیک لسٹ کردیں ۔اگر امریکہ نے ایسا کہ تو وہ امریکی بینکوں کا بائیکاٹ بھی کر سکتے ہیں‘ جس سے امریکی معیشت کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔ یقینا تمام فریقین مذاکرات کے عمل کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ تمام معاملات بخوبی سلجھ سکیں ۔
القاعدہ سمیت دوسرے دہشت گرد گروپس ‘ امریکہ اور اس کے مالیاتی نظام پر گہرے اثرات چھوڑ سکتے تھے ۔ امریکی پالیسی سازوں کو اس کی بھنک لگ گئی تھی۔ انہوں نے القاعدہ کے اثاثہ جات کو منجمد کرتے ہوئے ان کی نقل و حرکت پر بھی پابندیاں عائد کر دیں۔ 2000ء میں ایران اور شمالی کوریا‘ امریکیوں کے لیے اسی حوالے سے آزمائشی کیس بھی ثابت ہوا۔ اسے مدنظر رکھتے ہوئے امریکیوں نے پابندیوں کے بارے میں مزید غور کرنا شروع کردیا۔پیانگ یانگ کے کیس میں حالات اور معاملات ذرا مختلف اور کٹھن بھی تھے کیونکہ شمالی کوریا کے دیگر تمام ممالک اور دنیا سے روابط منقطع بھی تھے ۔ صدرکم جونگ کی پالیسی زیادہ تر بیرونی انحصار کے بجائے اندرونی وسائل پر تھی۔امریکہ کی کوشش تھی کہ شمالی کوریا کو انٹرنیشنل بینکنگ سسٹم کے تحت تجارت کرنے پر مجبور کیا جائے ‘کیونکہ وہ چین کے ساتھ اچھے مراسم بھی رکھتا ہے مگر تب ہی شمالی کوریا نے یہ بات باورکرا دی کہ وہ عالمی مالیاتی نظام پر بہت کم انحصار کرے گا۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو امریکی کی جانب سے اسے پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے ۔اپنی تجارت کے لیے شمالی کوریا شیل کمپنیوں کاا ستعمال کرتا رہا‘ جس پر نظر رکھنا کافی مشکل کام تھا خصوصاً چین میں ان کی آمدورفت کومانیٹر کرنے میںامریکہ کو دشواریاں پیش آئیں۔چین اقتصادی طور پر شمالی کوریا کو تبر کشیت کے طور پر اہمیت بھی دیتا رہا ہے اور اس کا بنیادی طور پرتجارتی شراکت دار ملک بھی ہے۔اس سے پنگا لینا گویا امریکہ کے لیے چینی بینکوں پر پابندیاں لگانے کے برابر ہوتا‘ جو کہ عالمی سطح پر امریکہ کے لیے کئی مسائل کھڑے کر سکتا تھا‘مگرشمالی کوریا کے نیوکلئیر طاقت بننے سے کئی شکوک و شبہات بھی پیدا کر رہے تھے۔ (جاری)