تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     15-12-2018

مرغی اور انڈے کی سیاست

جب سے وزیر اعظم نے‘ انتہائے سادگی کے عالم میں‘ مرغی اور انڈے کی بات کہی ہے تب سے قوم کے ہاتھ میں ڈگڈگی آگئی ہے۔ سوشل میڈیا پر صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر بظاہر کوئی کنٹرول تو ہے نہیں اور سنسر کا بھی کوئی نظام کام نہیں کر رہا اس لیے جس کے جی میں جو کچھ بھی آرہا ہے وہ سامنے بھی آرہا ہے۔ میڈیا کی تو چاندی ہوگئی ہے۔ اب ایسا کچھ زیادہ رہا نہیں جسے اُچھال اُچھال کر بات کا بتنگڑ بنایا جائے‘ رائی کے پربت کھڑے کیے جائیں۔ ایسے میں کہیں سے کوئی ایک بات بھی مل جائے تو بہت ہے۔ ڈور کا سِرا ہاتھ آنا چاہیے۔ پھر میڈیا پر وہ دھماچوکڑی مچتی ہے کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ مرزا تنقید بیگ اِس صورتحال سے بہت دل برداشتہ ہیں۔ مرغی اور انڈے والی بات پر وزیر اعظم کو ہدفِ تنقید بنائے جانے پر مرزا سیخ پا ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ قوم کے مسائل اِس قدر ہیں کہ اگر کوئی حل تجویز کیا جائے تو خیر مقدم ہی کیا جانا چاہیے۔ ''ہم بھی عجیب قوم ہیں۔ جب مسائل بڑھ جاتے ہیں تو روتے ہیں کہ اُن کے حل کی راہ نہیں نکالی جارہی‘ اور جب راہ نکالی جاتی ہے تو لوگ رونے بیٹھ جاتے ہیں کہ یہ بھی کوئی حل ہے۔ اور پھر تجویز کردہ حل کا تمسخر اڑایا جانے لگتا ہے۔ اب مرغی اور انڈے کا معاملہ ہی دیکھ لو۔ وزیر اعظم نے خاصے خلوص سے ایک بات کہی ہے کہ انسان مویشی پالے‘ گھر میں دودھ دہی کا اہتمام کرے۔ اور مرغیاں پالنے سے گھر میں انڈوں کی ریل پیل ہوسکتی ہے۔ یعنی کم از کم خوراک کا مسئلہ تو حل ہو ہی سکتا ہے‘‘۔ ہم نے عرض کیا کہ جناب! یہ تو بظاہر قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کی مشق ہے۔ بھلا گھر میں چار مرغیاں پالنے سے خوراک کا مسئلہ کیسے حل ہوسکتا ہے؟ قوم کو اپنے سنگین مسائل کا بھرپور اور ٹھوس حل چاہیے۔ 
یہ سننا تھا کہ مرزا بدک گئے۔ ہمیں لتاڑنے کی روایت پر عمل پیرا ہوکر اُنہوں نے وزیر اعظم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا :بات یہ ہے کہ تم جیسے لوگ ہر معاملے کے منفی پہلو ہی دیکھتے ہو۔ اگر کسی بھی مسئلے کا کوئی حل تجویز کیا جارہا ہو تو پہلے اُس کے تمام پہلوؤں پر غور کیا جانا چاہیے۔ غور کرنے ہی پر معلوم ہو پاتا ہے کہ جو حل تجویز کیا جارہا ہے وہ کتنا پائیدار اور موثر ہے۔ ہم نے دست بستہ عرض کیا کہ یہی تو ہم بھی کہہ رہے ہیں۔ بھلا مویشی اور مرغیاں پالنے سے قوم کس طور فلاح پاسکتی ہے؟ ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں اور قوم کے مسائل بھی اکیسویں صدی کے ہیں۔ اِن مسائل کا حل بھی‘ ظاہر ہے‘ اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ اب تو مرزا کے لیے اپنے آپ پر قابو پانا تقریباً ناممکن ہوگیا۔ ہم پر لپکنے کا سا انداز اختیار کرتے ہوئے بولے :میاں! تم کیا جانو کہ بڑوں کی ہر بات بڑی ہوا کرتی ہے۔ اور یہ جو تم ہر وقت اکیسویں صدی کا راگ الاپتے رہتے ہو تو ذرا یہ بتاؤ کہ مرغیاں اور انڈے کیا اٹھارہویں صدی کی حقیقت ہیں! کیا فی زمانہ مرغیاں اور انڈے 'از کار رفتہ‘ یا متروک ہوگئے ہیں؟ وزیر اعظم کا ذہن گائے‘ بکری اور انڈے مرغی تک کیوں نہ پہنچے؟ اور یوں بھی انڈے اور مرغی کا ہماری سیاست سے بہت گہرا تعلق ہے۔ 
ہم نے ایک بار پھر دست بستہ استفسار کیا کہ ہماری سیاست میں مرغیاں اور انڈے کہاں سے آگئے۔ مرزا نے چند ناقابلِ بیان الفاظ کی مدد سے ہماری ''عزت افزائی‘‘ کرتے ہوئے کہا :آج تک ہم اِس بحث کو طے نہیں کرسکے کہ انڈا پہلے آیا تھا یا مرغی۔ ہماری حکومتیں تمام خرابیوں اور پیچیدگیوں کے لیے اب تک ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتی رہی ہیں۔ جب بھی کرپشن کی تحقیقات کی جاتی ہیں‘ تب یہی سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ مرغی پہلے آئی یا انڈا۔ اور یوں تمام معاملات سرد خانے کی نذر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ہم نے ''نکتہ سنج‘‘ ہونے کی اداکاری کرتے ہوئے عرض کیا کہ ملک کو ٹھوس اور کارگر سوچ کی ضرورت ہے۔ مسائل کی نوعیت ایسی ہے کہ بات مرغیوں اور انڈوں سے نہیں بن سکتی۔ اور سچ تو یہ ہے کہ گائے بھینس سے بھی یہ مسائل حل ہونے والے نہیں۔ یہ کہاں کی دانش ہے کہ انسانوں کے مسائل چرند پرند اور مویشیوں کی مدد سے حل کرنے کی کوشش کی جائے؟ کل کو یہ مشورہ دیا جائے گا کہ لوگ آسٹریلین طوطے پال کر اضافی آمدن کی راہ ہموار کریں تاکہ گھر کا بجٹ متوازن ہو! لوگ روزگار چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم اور اُن کے رفقا سیلف ایمپلائمنٹ کا مشورہ دے رہے ہیں۔ 
تو اور کاہے کا مشورہ دیں؟ مرزا نے گرجتے ہوئے استفسار کیا۔ ''ایک زمانے سے ہمارے ہاں یہی ماحول چل رہا ہے۔ گائے‘ بھینس کے نام پر گدھے کا اور بکرے کے نام پر کتے کا گوشت کھلایا جاتا رہا ہے۔ لوگ لینے جاتے ہیں مرغی کے انڈے اور اُنہیں تھما دیئے جاتے ہیں کبوتری کے انڈے! وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ لوگ گھر میں مرغیاں پالیں تاکہ دھوکانہ کھائیں‘ کبوتری کے بجائے مرغی ہی کے انڈے کھائیں۔ اِس طور کم از کم ایک معاملے میں تو وہ یقینِ کامل کی منزل تک پہنچ پائیں گے۔‘‘ مرزا کا استدلال یہ ہے کہ تبدیلی یقینی بنانے کے دعوے کے ساتھ قائم ہونے والی حکومت قوم کو خوراک کے حوالے سے تشکیک کے مرحلے سے نکالنا چاہتی ہے۔ اور معاملہ کچھ یوں بھی ہے گھر گھر گائے‘ بھینس اور دیگر مویشی ہوں گے تو دودھ کی وہ نہریں بھی آسانی سے بہائیں جاسکیں گی جو آج تک صرف انتخابی منشور میں پائی جاتی رہی ہیں! 
کوئی مانے یا نہ مانے‘ حقیقت یہ ہے کہ جب سے وزیر اعظم نے انڈوں اور مرغیوں والی بات کہی ہے‘ تب سے لوگوں نے انہیں سنجیدگی سے لینا مزید چھوڑ دیا ہے! زمانہ سیلف ایمپلائمنٹ کا ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ اپنی مرضی سے کام کریں یعنی کسی کے پابند نہ ہوں۔ ٹھیک ہے مگر معاملات کو مرغی اور انڈوں تک لانا بھی تو قرینِ دانش نہیں۔ یہ تو ہوئی ہماری دانش۔ مرزا یہ نکتہ منوانے پر بضد ہیں‘ حکومت جو کچھ کر رہی ہے وہ قومی توقعات اور امنگوں کے مطابق ہے۔ مرزا کو آج کل رجائیت پسند رہنا پسند ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ غیر معمولی توقعات جب پوری نہیں ہو پاتیں تو تکلیف بھی غیر معمولی پہنچتی ہے۔ اچھا ہے کہ حکومت بڑے بڑے خواب اور سبز باغ نہ دکھائے۔ بڑی بڑی باتوں سے کسی کا پیٹ نہیں بھرتا۔ ایسے میں اچھا یہی ہے کہ معاملہ مرغیوں اور انڈوں تک محدود رہے۔ یا تھوڑا آگے بڑھے تو مویشیوں تک پہنچ کر رک جائے! 
مرزا کی ہر بات غلط ہو ایسا بھی کچھ لازم نہیں۔ ہم نے بہت سے مواقع پر اُنہیں درست پایا ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ اِس وقت بھی وہ کچھ زیادہ غلط نہیں۔ ایمان کی تو یہ ہے کہ قوم کا دل دکھا ہوا ہے۔ اچھا ہے کہ بڑی بڑی باتیں اور وعدے کرکے قوم کا دل مزید نہ دکھایا جائے۔ عمران خان اور اُن کی ٹیم کو جس طرح کے اندرونی و بیرونی حالات کا سامنا ہے اُن کا تقاضا ہے کہ قوم کو سبز باغ دکھانے کے بجائے ڈربوں اور باڑوں تک محدود رکھا جائے۔ یہ سودا بھی گھاٹے کا نہیں۔ سبز باغ خواب و خیال میں پائے جاتے ہیں۔ ڈربے اور باڑے کم از کم زمینی حقیقت تو ہیں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved