تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     16-12-2018

پپو گاندھی، نریندر مودی اور پاکستانی کسان

ہندوستان میں جس طرح بھارتیہ جنتا پارٹی کو تین ریاستوں میں شکست ہوئی ہے اس پر سب حیران ہیں۔ اور تو اور کانگریس خود حیران ہے کہ وہ کیسے ان ریاستوں سے جیت گئی‘ کیونکہ ان تین ریاستوں راجستھان، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش کو ہندو ریاستیں سمجھا جاتا ہے‘ اور وہاں سے بی جے پی جیتتی رہی ہے۔ راجستھان میں پچھلے پندرہ برس سے بی جے پی جیت رہی ہے‘ اس لیے وہاں سے اس کا کانگریس کے ہاتھوں ہارنا بہت سوں کو ہضم نہیں ہو رہا۔ 
بھارتی تجزیہ نگار ان الیکشن نتائج پر اظہارِ خیال کر رہے ہیں کیونکہ اگلے سال بھارت میں عام انتخابات ہو رہے ہیں۔ یہ توقع کی جا رہی تھی کہ راہول گاندھی شاید وزیر اعظم مودی کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ راہول کا مذاق اڑانے کے لیے اسے بی جے پی نے پپو کا نِک نیم دیا ہوا ہے اور اس کا کھل کر مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اس کی اٹالین ماں‘ سونیا گاندھی تک کو بیوہ کا طعنہ دیا گیا۔ اب پتہ چلا ہے کہ جس پپو کو بھارتی حکمران پارٹی اور اس کے سپورٹرز سوشل میڈیا پر طعنے اور گالیاں دینے میں لگے ہوئے تھے‘ اسی پپو نے اب مودی کو ہرا دیا ہے۔ انگریزی کا محاورہ ہے کہ یہ نہ دیکھو کون ہنس رہا ہے، یہ دیکھو آخری قہقہہ کس کا ہے۔ وہی ہوا کہ پپو کا قہقہہ آخری نکلا ہے۔ اگرچہ ابھی کچھ ماہ پڑے ہیں لیکن اس ریاستی الیکشن نے بھارت میں ایک موڈ بنا دیا ہے کہ اگر بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے گڑھ سے ریاستی الیکشن ہار سکتی ہے تو پھر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بھارت میں اگلے سال شاید راجدہانی دلی میں بھی تبدیلی آ جائے۔
اب سوال یہ ہے کہ مودی‘ جو چار دفعہ گجرات کے وزیر اعلیٰ رہے‘ اور جنہیں بڑے چائو سے بھارت کا وزیر اعظم بنایا گیا تھا‘ کی مقبولیت اور کشش میں کمی کیوں ہو رہی ہے؟ وہ جو 'کچھ نیا ہو گا‘ کا نعرہ لے کر اقتدار میں آئے تھے، جنہوں نے روزگار کے دعوے کیے تھے وہ دنیا بھر کے دوروں کے بعد بھی بھارتی ووٹرز کو ساڑھے چار برسوں میں یہ یقین کیوں نہ دلا سکے کہ وہ کچھ نیا کر رہے ہیں؟ حالانکہ ان ساڑھے چار برسوں میں مودی نے مقبول رہنے کے لیے سب روایتی اور غیر روایتی کام کیے۔ سب سے بڑا کام یہ کیا کہ پاکستان سے بالکل ہاتھ نہیں ملایا تاکہ ان کا ہندو ووٹر ناراض نہ ہو۔ ہندوستان بہت بڑا ملک ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں مذاہب، زبانیں، کلچر، قومیں ہیں‘ لہٰذا ایسے معاشرے کو چلانا آسان نہیں ہوتا۔ نفرت کا لیول اتنا بڑھا کہ ان ساڑھے چار برسوں میں دیکھا گیا کہ پہلی دفعہ بھارت میں گائو ماتا کے نام پر لوگوں کو زندہ جلایا گیا یا پھر ہجوم نے قتل کر دیا۔ یہ گہری نفرت بھارتی معاشرے میں ایک ایسی چیز تھی جس کے خلاف بہت سارے بھارتی قلمکار‘ اداکار اور ادیب باہر نکلے۔ بہت ساروں نے تو سرکاری ایوارڈز تک احتجاجاً واپس کر دیے تھے۔ ان واقعات کی وزیر اعظم مودی نے رسماً بھی مذمت تک نہیں کی تھی۔ بھارت کا لبرل اور سیکولر امیج بی جے پی کی وجہ سے بہت ہرٹ ہوا ہے جس کا احساس وہاں ایک طبقے کو ہوا اور اس نے مزاحمت کی کوشش بھی کی‘ لیکن جہاں پورا معاشرہ عدم برداشت کی طرف چل پڑا ہو‘ وہاں چند آوازیں کیا کر سکتی تھیں؟ 
ریاستی الیکشن بھارت میں بہت سے طبقات کے لیے ایک امید کی کرن لے کر آئے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کون سے ایسے حالات تھے جن کی وجہ سے حکمران جماعت کو اپنے ہندو گڑھ میں شکست ہوئی۔ جہاں اس کی اور بہت ساری وجوہ بیان کی جا رہی ہیں‘ وہاں سب سے اہم ایک فیکٹر یہ بتایا جا رہا ہے کہ ان ریاستوں کے کسانوں نے رد عمل ظاہر کیا ہے۔ ان ریاستوں میں زراعت ایک کامن فیکٹر بتایا جا رہا ہے۔ بھارت میں بڑے عرصے سے کسانوں کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ قرضوں میں ڈوبے بھارتی کسانوں کے لیے خود کشی معمولی بات ہے۔ کسان فصل ناکام ہونے پر جب قرض واپس نہیں کر سکتے تو وہ زہریلی دوائی پی کر موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔ فصلوں کی تباہی نے بھارتی کسان کو بھی تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ پچھلے دنوں ہم نے دیکھا کہ بھارت کی کئی ریاستوں سے پہلی دفعہ کسانوں نے گھر چھوڑ کر دلی کی طرف مارچ کیا۔ کئی دن تک وہ وہاں دھرنا دے کر بیٹھے رہے اور اس وقت واپس گئے جب ان کے مطالبات پورے ہوئے۔ ابھی کچھ دن پہلے پھر بھارتی کسانوں نے ایک بڑی ریلی منعقد کی اور دلی پہنچ گئے۔ اس بار کسانوں کو اپنی فصل کی صحیح قیمت نہیں مل رہی تھی۔ ایک ویڈیو دیکھ کر انسان کا دل اداس ہو جاتا ہے‘ جس میں ایک بھارتی کسان اپنے پھل لے کر بیٹھا ہوا تھا اور ریٹ نہ ملنے پر پھل توڑ توڑ کر سڑک پر پھینک رہا تھا اور ساتھ میں روتا بھی جاتا تھا۔ شاید اسی لیے بھارتی اداکار امیتابھ بچن نے کسانوں کا دکھ محسوس کرکے پچھلے دنوں بڑی تعداد میں کسانوں کے قرض واپس کرنے کے لیے تگڑا عطیہ دان کیا اور قرض اتارنے کے حوالے سے باقاعدہ ایک تقریب بھی ہوئی‘ جس میں وہ خود بھی شریک ہوئے۔ یہی حال وہاں گندم کے کسانوں کا ہوا‘ جنہیں درست سپورٹ پرائس نہیں دی گئی۔ کسانوں نے اب ردعمل دیا‘ جس سے بی جے پی کو جھٹکا لگا ہے۔ 
پاکستان اور بھارت کے کسانوں کے حالات کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ ماضی میں سنتے تھے کہ بھارت میں کسانوں کو بہتر سہولتیں ملتی ہیں تاکہ وہاں فوڈ سکیورٹی کو کوئی تھریٹ نہ ہو۔ انسان ہر دکھ‘ غم اور جبر سہہ لیتا ہے لیکن اگر اسے خوراک نہ ملے تو وہ بغاوت پر اتر آتا ہے‘ لہٰذا بھارت‘ جو تقریباً ڈیڑھ ارب آبادی کا ملک ہے‘ کا فوکس زراعت پر رہا ہے تاکہ اتنی بڑی آبادی کو خوراک فراہم کی جاتی رہے۔ لیکن اب کسانوں میں احتجاج بڑھ رہا ہے۔ سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کے دور میں کسان اب اتنا جاہل نہیں رہا کہ دنیا کے حالات کو نہ جان سکے اور یہ نہ سمجھ سکے کہ اس کے ساتھ شہری بابوز کیا کر رہے ہیں اور کسانوں کا استحصال کون اور کیوں کر رہا ہے۔ اب کسان کو احساس ہو رہا ہے کہ اس کو اس کی محنت کی پوری قیمت نہیں مل رہی۔ اس لیے اب بھارتی کسان دلی کی طرف مارچ کرتے اور اپنے مطالبات کے لیے لڑتے ہیں۔ 
پاکستان میں بھی اسی طرح کے کچھ آثار نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ شہباز شریف دور میں کسانوں کو لاہور کی سڑکوں پر مارا گیا‘ پھر بھی وہ اپنے مطالبات کے لیے اکٹھے ہوتے رہے۔ کچھ اسلام آباد تک بھی پہنچ گئے تھے لیکن تشدد کرکے انہیں واپس بھیج دیا گیا۔ بہرحال یہ طے ہے کہ پاکستان کا کسان اتنا آرگنائزڈ نہیں‘ جتنا بھارتی کسان ہو چکا ہے۔ اب بھی دیکھ لیں پاکستانی کسان کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے۔ تین ماہ میں کھاد کی بوری کی قیمت ڈیڑھ سے دو سو روپے بڑھ گئی ہے۔ حال یہ ہو چکا ہے کہ پچھلے دنوں عمران خان صاحب کی کابینہ میں ایک سمری بھیجی گئی‘ جس میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستانی کسان گندم اگانے پر فی من بارہ سو چوراسی روپے خرچ کرتا ہے اور تیرہ سو روپے من بیچتا ہے اور اسے ایک من پر صرف سولہ روپے منافع ہوتا ہے۔ اب اندازہ کریں کہ چھ ماہ کی محنت کے بعد صرف سولہ روپے منافع۔ داد دیں اس کابینہ کو کہ اس کے باوجود اس نے گندم کی سپورٹ پرائس بڑھانے سے انکار کر دیا۔ پھر جو حشر گنے کے کسانوں کا ہو رہا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ پہلے شوگر کرشنگ سیزن اکتوبر سے شروع ہوتا تھا۔ پھر کسی سیانے نے شوگر مل مالکان کو مشورہ دیا کہ حکومتوں کو ذرا دبائو میں لائو‘ ان سے سبسڈی لو اور اگر وہ اربوں کی سبسڈی نہ دیں تو پھر گنے کا سیزن مت شروع کرو‘ یوں کسان سڑکوں پر آئے گا اور حکومت مجبور ہو جائے گی۔ انہیں پوری قیمت بھی مت دو۔ شوگر ملوں کو سبسڈی دینے کا نیک کام نواز شریف نے اپنے دوسرے دورِ حکومت میں شروع کیا تھا‘ جب بھارت کو چینی بھیجنے کے لیے یہ بہانہ کیا گیا کہ حکومت رعایت دے تاکہ ہم سستی چینی بیچ کر ڈالرز کما سکیں۔ یوں اس کے بعد ہر سال شوگر لابی نے ایک یا دوسرے بہانے سے سبسڈی لینا شروع کر دی۔ اب ہر سال یہ ہوتا ہے کہ کرشنگ تاخیر سے شروع کی جاتی ہے اور کسان سڑکوں پر رل جاتا ہے اور منتیں ترلے کرکے کوڑیوں کے مول اپنا سودا بیچتا ہے۔ پھر اسے پیسے لینے کے لیے سارا سال انتظار کرنا پڑتا ہے۔
پاکستانی کسان سارا سال ذلیل ہوتا رہتا ہے لیکن ابھی تک چند باتیں اس کی سمجھ نہیں آ سکیں کہ اس نے اس کارپوریٹ ورلڈ کا مقابلہ کیسے کرنا ہے۔ پاکستانی کسانوںکو بھی اب بھارتی کسانوں سے سیکھنا ہو گا۔ حکومتوں کو جھٹکے دینا ہوں گے۔ بھارتی کسانوں نے ثابت کر دیا ہے کہ کتنی ہی طاقتور حکومت کیوں نہ ہو اسے پھر بھی سبق سکھایا جا سکتا ہے۔ یقین نہیں آتا تو مودی سے پوچھ لیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved