مجھے کرکٹ نہیں آتی‘ سیاست ضرور آتی ہے: آصف علی زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''مجھے کرکٹ نہیں آتی‘ سیاست ضرور آتی ہے‘‘ بلکہ میری اصل کوالیفکیشن تو یہ ہے کہ مجھے نصیحت کرنی خوب آتی ہے‘ کیونکہ اس سے سیاست اور اقتدار کا راستہ صاف ہوتا ہے اور جہاں تک راستے کا تعلق ہے‘ تو میں اپنی طرف سے تو سارے راستے صاف کر کے ہی چلتا ہوں‘ لیکن بعض اوقات راستے کی بجائے طبیعت صاف ہونے کا سامان ہو جاتا ہے‘ تاہم صفائی چونکہ نصف ایمان ہے‘ اس لیے میں صفائی کا اکثر دھیان رکھتا ہوں اور اس طرح سے میں کم از کم نصف ایمان کا مالک ضرور ہوں اور آدمی کو کسی نہ کسی چیز کا مالک ضرور ہونا چاہیے‘ اسی لیے میں کوشش کرتا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ چیزوں کا مالک بن جاؤں؛ حتیٰ کہ ماشاء اللہ میرے گھریلو ملازم بھی دبئی وغیرہ میں اربوں روپے کے پلازوں کے مالک ہیں‘ جس سے نیب کے پیٹ میں مروڑ اُٹھ رہے ہیں اور نا صرف حسد ہے جس سے بُری بلا اور کوئی نہیں ہوتی۔ آپ اگلے روز حیدر آباد میں جلسۂ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
المیہ ہے کہ میں ڈاکٹر ہوں اور مجھے انفارمیشن
ٹیکنالوجی کا وزیر بنا دیا گیا: خالد مقبول صدیقی
وفاقی وزیر برائے انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ ''المیہ ہے کہ میں ڈاکٹر ہوں اور مجھے انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی کا وزیر بنا دیا گیا‘‘ اور یہ روایت اوپر سے شروع ہوتی ہے‘ جیسا کہ عمران خان کرکٹر ہیں اور انہیں وزیر اعظم بنا دیا گیا ہے‘ اس لیے میں تو وزیراعظم سے پوچھ سکتا ہوں‘ عمران خان سے وہی پوچھ سکتے ہیں‘ جنہوں نے انہیں وزیراعظم بنایا ہے؛ چنانچہ ماشاء اللہ دیگر وزراء کا بھی یہی عالم ہے کہ جس کو جو چیز نہیں آتی‘ اسے اسی کا قلمدان سونپ دیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم سمیت ساری کابینہ کو ایک ایک ریفریشر کورس میں اُس اُس شعبے کیلئے پاس کرنا چاہیے‘ جس جس کے وہ وزیر بنا دیئے گئے ہیں ‘جبکہ کوئی وزیر بھی کام نہیں کر رہا اور سارے اپنے اپنے طور پر کام سیکھ رہے ہیں اور کام سیکھ بھی اُن سے رہے ہیں‘ جنہیں خود کچھ نہیں آتا ‘اس لئے بے غم کرر ہے ہیں آہ وفغاں‘ سب مزے میں ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں نجی یونیورسٹی کی ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
کرپشن کیخلاف زیرو ٹالرینس پالیسی اپنا رہے ہیں: چیئرمین نیب
چیئرمین نیب ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال نے کہا ہے کہ ''کرپشن کے خلاف زیرو ٹالرینس پالیسی اپنا رہے ہیں‘‘ اور سارے کام چونکہ ایک ہی وقت میں نہیں ہو سکتے‘ اس لیے اس کی ابتداء اللہ کا نام لے کر اپوزیشن سے کر دی ہے اور جب اس سے فارغ ہوں گے تو حکومت پر توجہ دیں گے‘ کیونکہ فی الحال تو حکومت کے خلاف ٹالرینس پالیسی ہی سے کام چلا رہے ہیں‘ کیونکہ وزیراعظم سمیت جن حکومتی زعماء کے خلاف انکوائریاں وغیرہ چل رہی ہیں‘ اُنہیںبھی خاطر جمع رکھنی چاہیے کہ ان کے خلاف بھی ایکشن شروع ہو جائے گا اور اُمید ہے کہ قیامت سے پہلے پہلے ہم اپوزیشن کے معاملات سے فارغ ہو جائیں گے ‘قیامت کا کسی کو پتا نہیں کس وقت آ جائے‘ تاہم حکومت کے خلاف کارروائیاں قیامت کے بعد بھی جاری رکھی جا سکتی ہیں‘ جبکہ قیامت پر ہمارا پختہ یقین ہے جس طرح ملک بھر کے عوام کو ہماری غیر جانبداری کا پختہ یقین ہے‘ بلکہ روز بروز مزید پختہ ہوتا جا رہا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔اور اب ملتان سے مجموعۂ کلام ''دیر سویر‘‘ کی خالق رفعت ناہید کا تازہ کلام:
پاؤں بستی میں دیکھ بھال کے رکھ
دیکھ‘ دل کو ذرا سنبھال کے رکھ
وار دے اُس پہ جان کی نقدی
اور کلیجہ وہیں نکال کے رکھ
روشنی بن کے جھلملا اُس میں
آئینہ ساتھ ہی جمال کے رکھ
اک کہانی محل سرا کی سنا
اس میں دھوکے بڑے کمال کے رکھ
سات رنگوں سے یہ حویلی سجا
رنگ سب آس اور وصال کے رکھ
آج کی شب چراغ کی شب ہے
عطر دانوں میں عطر ڈال کے رکھ
لے جا گلگشت سے جنوب کے پھول
گھر کے کونے میں اک شمال کے رکھ
ساتویں آسماں پہ آ کر مل
اور شکوے ہزار سال کے رکھ
تیرے دن رات کے تو تھے ہی نہیں
ہم ترے ساتھ کے تو تھے ہی نہیں
خیر ہو عزمِ باریابی کی
اِن زیارات کے تو تھے ہی نہیں
یہ جو ہم تیرے پاس آ بیٹھے
یوں ملاقات کے تو تھے ہی نہیں
جو بھی ہم کو جواب ملنے تھے
وہ سوالات کے تو تھے ہی نہیں
ایک ہی بات ہم کو کافی تھی
آخری بات کے تو تھے ہی نہیں
بے ادرادہ گزر گئے بادل
جیسے برسات کے تو تھے ہی نہیں
کتنی عجلت میں گر گئے پتے
بے نسب ذات کے تو تھے ہی نہیں
آج کامطلع
خدا کا حکم ہے اور یہ عبادت کر رہا ہوں
جو اس کے ایک بندے سے محبت کر رہا ہوں