بعض دفعہ کوئی تصویر ‘کوئی خبر تصور کے پٹ کھول کرہمیںگم کردہ دنیائوںمیں لے جاتی ہے۔آج بھی ایسا ہی ہوا۔ یہ سوشل میڈیا پر ایک خبر تھی ـ :''سابق چیئرمین نادرا طارق ملک کی حفاظتی ضمانت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ ‘‘۔ وہی طارق ملک‘ جس نے پاکستان کے نادرا کو دنیا کا ایک مثالی ادارہ بنا دیا تھا اور جسے ایمانداری کے صلے میں ملک بدر کردیا گیا تھا۔
اب پانچ سال بعد وہ وطن واپس آرہا تھا ‘جہاں ماضی کے حکمرانوں نے اس کا نام ایگزٹ لسٹ میں ڈال دیا تھا ۔طارق ملک کی خبر مجھے اپنی گم کردہ دنیامیں لے گئی۔ یہ1986ء کا سال تھاجب میں انگریزی میںماسٹرز کے لیے یونیورسٹی آف مانچسٹر گیا؛اگر آپ کبھی مانچسٹر گئے ہوں توآپ کوعلم ہوگا کہ یہ بارشوں کاشہرہے۔ جہاں اکثر آسمان پر بادل چھائے رہتے ہیں اور تقریباً ہرروز بارش ہوتی ہے۔ مجھے یونیورسٹی کے ہاسٹلMoberly Towerمیںجگہ ملی۔ اس کی قریباً پندرہ منزلیں تھیں۔ وہیں میری ملاقات ایک پاکستانی طالبعلم امیرعبداللہ چشتی سے ہوئی تھی۔ لمبا قد‘ چھریرابدن ‘ خوش مزاج اور محنتی۔ اس نے قائداعظم یونیورسٹی سے ایم ایس سی کی تھی اوریہاں نیوکلیئر فزکس میں پی ایچ ڈی کررہاتھا۔ اسی دوران کچھ اورپاکستانی طلبا سے بھی تعارف ہوا‘ جن میں جہانگیر ‘قیصر‘ شمس‘ طارق اورقیصرشامل تھے۔ ہم ہاسٹل کے کیفے ٹیریا میں جب لنچ اورڈنر میں فش اورچپس کھاکھاکرتنگ آجاتے تو چشتی کے فلور پر واقع کچن میں پاکستانی کھانا بنایاجاتا۔ چشتی کوجاگنگ کاکریزتھا‘ وہ روزانہ کئی کئی میل بھاگتا تھا ایک روزہمارے ہاسٹل کے دوست مائیکل نے کہا: جاگنگ دراصلSelf Torture کی ایک شکل ہے۔ چشتی نے یہ سن کر ایک قہقہہ لگایا‘ لیکن اگلے روز پھرجاگنگ کے لیے نکل گیا۔ ہم زیادہ تردوست ایک سال کا ماسٹرز کررہے تھے؛ البتہ چشتی پی ایچ ڈی کاسٹوڈنٹ تھا ۔وہ اکثرشام کوہاسٹل آتا اورپھر یونیورسٹی چلاجاتا‘ یونیورسٹی میں آفس کی چابیاں اس کے پاس ہوتیں۔مانچسٹر کے موسم کا شکوہ کرتے‘ شام تک کلاسز اٹنڈ کرتے‘ کیفے ٹیریا میں فش اورچپس کھاتے اورکامن روم میں ٹی وی پروگرامز پرجہانگیر کے پرلطف تبصرے سنتے ایک سال گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ مجھے یاد ہے ایک روزہم سب چشتی کے کمرے میں بیٹھے تھے کہ پاکستان کی بات شروع ہوگئی۔ چشتی نے حسب ِ عادت اپنے سرپرہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:یارتم سب نے ضرور پاکستان واپس جانا ہے۔ ہمارے ملک کو ہماری ضرورت ہے۔ اس روزچشتی کوسنجیدہ دیکھ کرمجھے حیرت ہوئی ‘کیونکہ اکثر اس کی گفتگو میںمزاح کی چاشنی ہوتی۔ ہم سے کسی نے چشتی کوچھیڑنے کیلئے کہا یار وہاں کیارکھا ہے؟اس پرچشتی کاردعمل حیران کن تھا اس کے چہرے پر شکستگی تھی اور اس کی آنکھیں نم ہوگئیں ۔ اس روز مجھے معلوم ہوا وہ پاکستان سے کتنا پیارکرتاہے‘ پھرہم سب دوست ماسٹرز کرنے کے بعد پاکستان واپس آگئے۔ چشتی پی ایچ ڈی کاسٹوڈنٹ تھا‘ اسے ابھی وہیں رہناتھا۔میں پاکستان آکر زندگی کے ہنگاموں میں کھوگیا ‘پھرایک روز چشتی کافون آگیا ۔اس نے بتایا کہ اس کی پی ایچ ڈی ختم ہوگئی ہے اوروہ پاکستان واپس آرہاہے۔ اس کی آواز جوش سے کپکپارہی تھی۔ معلوم نہیںیہ خوشی پی ایچ ڈی ختم ہونے کی تھی یا پاکستان واپس آنے کی۔پاکستان واپس آنے کے بعد اسلام آباد میں ایک سرکاری دفترمیں ملازمت مل گئی ۔ کئی ماہ گزر گئے ایک روز مجھے لاہور جاناپڑاوہاں شمس نے بتایا کہ چشتی اب لاہور میںہوتا ہے۔ ہم دونوں اسے ملنے گئے۔ وہ ایک فنانس کمپنی کا دفتر تھا‘ جہاں وہ منیجر کے عہدے پر کام کررہاتھا ۔کہنے لگا: کئی ماہ اسلام آباد میںملازمت کی‘ لیکن محکمے نے تنخواہ نہیں دی‘ جینے کیلئے کچھ کمانا تو ہے نا‘ اس لیے یہاں آگیاہوں۔ میں نے چشتی کے چہرے کودیکھا ۔نجانے کیوں مجھے سلیم کوثر کاشعریادآگیا۔
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں‘دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
ہم نے چشتی کے آفس میںچائے پی اورواپس آگئے۔ پھرایک روز اس کافون آیا کہ اسے Yale Universityمیں ایک عارضی پراجیکٹ مل گیاہے۔ اسے پراجیکٹ ملنے کی خوشی توتھی‘ لیکن پاکستان چھوڑنے کاملال بھی تھا۔ ماہ وسال گزرتے گئے‘ اس دوران چشتی کی کوئی خیرخبرنہیں ملی‘ پھرایک روز پتا چلا وہ آسٹریلیا میں ہے اورکسی کالج میں کام کررہاہے۔ میں سوچتا ہوں آسٹریلیا کی شاموںمیں اسے پاکستان کی یاد تو آتی ہوگی‘ جہاں کی سرزمین چومنے کیلئے وہ مانچسٹر میں ایک ایک دن گناکرناتھا۔ بالکل طارق ملک کی طرح‘ جس کی ذہانت‘ دیانت اوراپنے وطن سے محبت اس کاجرم بن گئی تھی۔ طارق ملک بھی چشتی کی طرح اپنے وطن کادیوانہ تھا‘ اپنے وطن سے محبت اس کے خون میں رچ بس گئی تھی۔ اس نے کالج کی تعلیم سرسید کالج راولپنڈی سے حاصل کی۔ قائداعظم یونیورسٹی سے کمپیوٹرسائنسز اورہائیڈل برگ یونیورسٹی سے انٹرنیشنل مینجمنٹ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ چاہتاتو بیرون ملک ملازمت کے مواقع میسرتھے‘ لیکن وہ اپنے ملک کیلئے کچھ کرنا چاہتاتھا۔2008ء میں وہ نادرا کا ڈی جی مقرر ہوا اور 2012ء میں چیئرمین نادرا۔ اس وقت نادرا کے خزانے میں صرف21لاکھ روپے تھے اور ملازمین کوتنخواہوں کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ دوسال کی مختصرمدت میں طارق ملک نے اپنی محنت اور جدتِ فکرسے اس ادارے کی کایاپلٹ دی۔ پاکستان کا نادرا اب دوسرے ملکوں کے لیے ایک روشن مثال بن گیا تھا۔نائیجریا‘ سوڈان‘ بنگلہ دیش‘ کینیا سمیت کئی ملکوں نے پاکستان نادرا کی خدمات حاصل کیں۔ طارق ملک نے پہلی بار سمارٹ کارڈ کاتصور پیش کیا۔ وزارت داخلہ آئی ڈی کارڈ کوصرف سکیورٹی کی دستاویز سمجھتاتھا ‘لیکن طارق ملک نے اسے سوشل سکیورٹی سے جوڑدیا‘ جس کے نتیجے میں بگ ڈیٹا بیس کو ٹیکس میں اضافے‘ سماجی ترقی ‘خواتین کوبااختیار بنانے کیلئے استعمال کیاجاسکتاتھا۔جب طارق ملک نے پاکستان میں3.5ملین ٹیکس نادہندگان کی نشاندہی کی تو CNNنے اسےMan on Missionکاخطاب دیا۔2009ء میں اٹلی میں منعقدہ آئی ٹی ورلڈ انٹرنیشنل کانفرنس میں اسے آئوٹ سٹینڈنگ اچیومنٹ ایوارڈ دیاگیا۔ 2013ء میں اسے ستارۂ امتیاز دیاگیا‘ پھریوں ہوا کہ طارق ملک کی ذہانت اس کا Tragic Flawبن گئی۔ اس نے ووٹوں کی ویری فیکیشن کیلئےThumb Impressionچیک کرنے کیلئے اپنی خدمات پیش کیں۔ یہ ویری فیکیشن اُس وقت کی سیاسی حکومت کے حق میں نہیں تھا۔طارق ملک کواہل ِاقتدار نے بلاکرمعاملے کی اونچ نیچ سمجھانے کی کوشش کی‘ لیکن اس نے ہر قسم کے دبائو کوقبول کرنے سے انکاردکردیا۔ اس انکار کاانجام اسے معلوم تھا ۔ اور پھر وہی ہوا۔رات کی تاریکی میں دفتر کھلواکراس کی برطرفی کے احکامات جاری کئے گئے۔ طارق ملک کووطن بدر ہونا پڑا۔ اس وقت کے وزیرداخلہ نے اس کانام ایگزٹ لسٹ میںشامل کرنے کے احکام دیئے۔ یوں بہت سی نوکریوں کوچھوڑکروطن کی محبت میں واپس آنے والے طارق ملک کووطن کی مٹی سے دورکردیاگیا‘ لیکن اسے اس بات کااطمینان تھاکہ ادارے کے خزانے میں اب وہ15ارب71کروڑ چھوڑکر جارہاہے۔ پاکستان سے باہر اس کی مہارت کواقوام متحدہ نے استعمال کیا اوراسے ٹیکنیکل ایڈوائزر کے عہدے پرفائز کردیا۔ اس نے افریقی ممالک میں اپنی مہارت سے اصلاحات میں بنیادی کردارادا کیا۔ا سے زندگی کی ساری سہولتیں میسرتھیں ‘لیکن اس کی آنکھوں میں ہرشام پاکستان کی شاموں کے رنگ اترنے لگتے۔ پردیس میں رہتے اور پاکستان کو یاد کرتے اسے پانچ سال بیت گئے ‘پھر ایک روز بیٹھے بیٹھے اسے یوں لگا کہ اب اس کے لیے پاکستان سے باہر رہناممکن نہیں۔ یہ نوکری‘ گھراور سہولتیں اب اس کے پائوں کی زنجیر نہیں بن چکی تھیں۔ اب طارق ملک وطن واپس آرہاہے ‘جہاں اس کے ناکردہ گناہوں کی سزا پراس کی گرفتاری بھی ہوسکتی ہے‘ لیکن اب وہ کسی بھی سزا کے لیے تیارہے۔ اپنے گھرسے پاکستان جانے کیلئے وہ ایئرپورٹ کی طرف نکلاتو اسے اپنے پسندیدہ شاعرفیض احمد فیضؔ کی نظم یادآگئی۔
جب گھُلی تیری راہوں میں شامِ ستم
ہم چلے آئے لائے جہاں تک قدم
لب پہ حرفِ غزل دل میں قندیلِ غم
اپنا غم تھا گواہی ترے حسن کی
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
یہ نظم اس نے پہلے بھی کئی بار پڑھی تھی‘ لیکن آج جہاز کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس پر نظم کے نئے معنی آشکار ہورہے تھے۔