چار سال قبل پشاور میں پھول کچلے گئے اور کلیاں مسلی گئیں۔ ظالموں کو اس روز پناہ نہ ملے گی‘ جب یہ خونِ ناحق درباری ربی میں اپنا دعوی پیش کرے گا۔ یہ واقعہ اسی تاریخ کو رونما ہوا‘ جس تاریخ کو آج سے 47سال قبل سقوطِ ڈھاکہ کا سیاہ واقعہ رونما ہوا۔ ہماری تاریخ شاندار اور قابل فخر فتوحات سے بھی مالامال ہے اور بدقسمتی سے اس کے اندر انتہائی ذلت ورسوائی کے واقعات بھی درج ہیں۔ ہماری کامیابی اللہ کی مدد‘ جذبۂ شہادت اور ملّی وحدت ویکجہتی کی مرہونِ منت رہی ہے ‘جبکہ ہماری شکست ایمان کی کمزوری‘ باہمی اختلاف اور اندرونی منافقین کی خباثتوں کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوتی رہی۔ سقوطِ بغدادہو یا سقوطِ غرناطہ‘ سرنگاپٹم کا سانحہ ہو یا سقوطِ ڈھاکہ کا زخم سبھی میں یہ عوامل شامل رہے ہیں۔ باہر کے دشمن سے ہم نے کبھی مات نہیں کھائی۔ ہمیں مارہائے آستین ہی نے ہمیشہ زک پہنچائی ہے۔ جو لوگ تکبر کا شکار ہوتے ہیں وہ برا وقت آنے پر بزدل ثابت ہوتے ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کے تناظر میں بریگیڈیئر صدیق سالک مرحوم کی کتاب ''میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ ایک چشم کشا دستاویز ہے۔ 16دسمبر آتا ہے ‘تو زخم ہرے ہوجاتے ہیں۔
16دسمبر1971ء وہ سیاہ ترین دن تھا‘ جب اپنوں کے غیرذمہ دارانہ رویوں اور غیروں کی عداوت وسازش کے نتیجے میں وطن عزیز دولخت ہوگیا۔ مشرقی پاکستان کے محب وطن شہریوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ وہ تمام عناصر جو اس وقت بھارتی فوج کی یلغار کے خلاف اپنے وطن کی حفاظت کے لیے قربانیاں دے رہے تھے‘ پھانسیوں کے حق دار قرار پائے ۔ نہ کوئی انصاف ہے‘ نہ عدالت! یہ سب ایک طویل داستان کا حصہ ہے ‘جسے ہر سال سنا اور سنایا جاتا ہے۔ یہ دن گزر جاتا ہے تو ہمارے لوگ بھول جاتے ہیں‘ مگر بنگلہ دیش میں بے گناہ لوگ آج بھی ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ہم فریاد بھی اللہ ہی سے کرتے ہیں اور اپنا دکھڑا بھی اسی ذات کبریا کو سناتے ہیں۔ ظالم بنگلہ دیشی وزیراعظم اور اس کی ٹیم کو اپنے باپ اور بنگوبندھو شیخ مجیب الرحمن کا دردناک انجام یاد رکھنا چاہیے۔ فطرت کی تعزیریں بڑی سخت ہیں۔ اللہ کے ہاں دیر ہے‘ اندھیر نہیں ہے۔ اس کی لاٹھی بے آواز ہے۔
بنگلہ دیش میں عوامی لیگ تیسری مرتبہ حکومت کے مزے لوٹ رہی ہے۔ اب انتخابات سر پر ہیں‘ مگر یہ سب ڈھونگ ہوگا۔ خالدہ ضیاء کو نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔ حکمران پارٹی کے تحت کیا انتخابات ہوں گے؟ عوامی لیگ جب بھی برسر اقتدار آتی ہے بھارت‘ امریکا اور دیگر اسلام دشمن قوتوں کی باچھیں کھل جاتی ہیں۔ عوامی لیگ بنگلہ دیش کے قیام سے قبل مکتی باہنی کے لبادے میں بھارتی فوج کی ایک بٹالین کے طور پر کام کر رہی تھی۔ سقوط ڈھاکہ کے وقت عوامی لیگ کی قیادت بھارتی ٹینکوں پر سوار ہو کر ایوان اقتدار میں داخل ہوئی۔ اس المناک واقعہ کے بارے میں اب تک درجنوں کتب سامنے آچکی ہیں‘ مگر ڈھاکہ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین کی کتاب ''شکست آرزو‘‘ اور سابق فوجی افسر وسفیر بنگلہ دیش لیفٹیننٹ کرنل شریف الحق دالیم کی کتاب ''پاکستان سے بنگلہ دیش‘ ان کہی جدوجہد‘‘ میں اتنے حقائق جمع کردئیے گئے ہیں کہ تصویر کا صحیح رخ سامنے آجاتا ہے۔ اس کے مطابق یہ پارٹی پاکستان اور اسلام کے مقابلے میں بھارت اور لادینیت دوست ہے۔
بنگلہ دیش بن جانے کے بعد شیخ مجیب الرحمن کو پاکستانی جیل سے رہائی ملی اور وہ نوزائیدہ ملک میں سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے ۔ سقوط ڈھاکہ کے موقع پر بھارتی وزیراعظم‘ اندرا گاندھی نے ایک جانب یہ زہر آلود اور اسلام دشمن فقرہ کہا کہ نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا گیا ہے۔ دوسری جانب اس نے یہ فلسفہ بھی بگھارا کہ اب بنگلہ دیش میں پاکستان کے متعلق نرم گوشہ رکھنے والے غدار کبھی ایوان اقتدار کا منہ نہ دیکھ سکیں گے۔ یوں شیخ مجیب الرحمن اور اندرا گاندھی پاکستان دشمنی میںیک جان دو قالب ہوگئے۔ اپنی ایک ملاقات میں انہوں نے لمبے چوڑے منصوبے سوچے‘ مگر مخلوق کے سوچنے سے کیا ہوتا ہے۔ فیصلے تو خالق ہی کے صادر ہو کر رہتے ہیں۔ دونوں پاکستان دشمن رہنما یکے بعد دیگر اپنے دردناک انجام کو پہنچے۔
شیخ مجیب نے تاحیات صدارت حاصل کر لی تھی‘ اپنی ہی فوج کے چند جونیر افسران کے ہاتھوں 15اگست 1975ء کو اپنی بیوی‘ تین بیٹوں اور دیگر پندرہ افراد کے ساتھ اپنے گھر‘ دھان منڈی ڈھاکہ میں موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے۔ شیخ مجیب کی دو بیٹیاں جو اس وقت جرمنی میں تھیں‘ بچ گئیں۔ ان میں سے حسینہ واجد دھاندلی کے ذریعے بنگلہ دیش کی وزارت عظمیٰ پر فائز ہوئی اور اب تک اپنے مظالم کے ذریعے خود کو خون کی دیوی ثابت کرچکی ہے۔ اندرا گاندھی کو اس کے اپنے باڈی گارڈز نے 31 اکتوبر 1984ء کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ عوامی لیگ ہمیشہ اسلام دشمن اور پاکستان مخالف پالیسیاں اپناتی ہے۔ آج کل جماعت اسلامی ہی نہیں خود لفظِ اسلام بھی عوامی لیگ حکومت کی کارروائیوں کا ہدف بنا ہوا ہے۔ ملک میں یہ بحث جاری ہے کہ کوئی پارٹی اپنے نام کے ساتھ اسلامی کا سابقہ یا لاحقہ لگا سکتی ہے یا نہیں۔ جماعت اسلامی اپنے نام اور نشان سے انتخاب نہیں لڑ سکتی۔ اسی طرح اسلامی لٹریچر پر ناروا پابندیاں عائد کردی گئی ہیں۔ بالخصوص سرکاری اداروں اور لائبریریوں میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی کتب کے تراجم کو ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔
جماعت اسلامی اور اس کی تمام برادر تنظیمات کی قیادت عقوبت خانوں میں بد ترین انتقام کا نشانہ بنائی جارہی ہے‘ جن لوگوں نے 1971ء میں پاکستان کی حمایت کی تھی ‘انہیںنام نہاد عدالتوں کے ذریعے جنگی مجرم قرار دیا گیا۔ انہیں پھانسی کی سزا دلوانے کیلئے حکمران پارٹی اور سرکاری وکلا پوری طرح سرگرم عمل رہے اور جعلی کورٹس کے ذریعے انہیں سزائے موت سناد ی گئی۔ اس کے نتیجے میں عبدالقادر ملا‘ قمرالزمان‘ علی احسن محمد مجاہد‘ صلاح الدین قادر چودھری‘ مولانا مطیع الرحمن نظامی اور میرقاسم علی جیسے عظیم فرزندانِ ملت اسلامیہ تختۂ دار پہ لٹکادیے گئے۔ مولانا اے کے ایم یوسف اور پروفیسر غلام اعظم جیل ہی میں موت سے ہم کنار ہوکر شہادت پا گئے۔ باقی کئی رہنماؤں کو بھی سزائے موت سنا دی گئی ہے۔ قائدین ِ جماعت کی شہادتوں کے بعد جو نیا نظم وجود میں آیا‘ اس کے تمام ذمہ داران بشمول امیر جماعت مقبول احمد صاحب بھی زیر عتاب ہیں اور طرح طرح کی اذیتوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہزاروں مرد اور سیکڑوں خواتین جیلوں میں جھوٹے الزامات کے تحت مقید ومحبوس ہیں۔
ہرایک بات زباں پر نہ آ سکی باقی
کہیں کہیں سے سنائے ہیں ہم نے افسانے
بنگلہ دیش کے عوام جانتے ہیں کہ ڈھاکہ میں بھارتی سفارت خانہ براہِ راست شیخ حسینہ واجد کو ہدایات دیتا ہے جو سرکاری پالیسی کا حصہ بن جاتی ہیں۔اسلام کی نمائندگی کرنیوالی جماعت کی پکڑ دھکڑ اور اسلامی لٹریچر پر پابندی لگوانے کے ''کامیاب تجربے‘‘ کے بعد اب ان عناصر کی یہ بھی کوشش ہے کہ بنگلہ دیش میں خواتین کے برقع پر پابندی لگا دی جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عمومی طور پر بنگلہ دیشی مسلمانوں کے دلوں میں اسلام اور مذہب کے ساتھ محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ہندو تہذیب کی یلغار اور میڈیا پر فحش پروگراموں کی بھرمار کے باوجود بنگلہ دیشی مسلمانوں کی اکثریت آج بھی اسلام اور دینی شعائر کا بڑا احترام کرتی ہے۔
تشویش ناک بات یہ ہے کہ ملک کا پورا انتظامی وعدالتی ڈھانچہ مودی سرکار کی مرضی کے مطابق فیصلے کرنے پر مجبور ہے۔ دو سال قبل کا واقعہ ہے ایک خاتون جو نام کی تو مسلمان ہے‘ مگر کلچر کے لحاظ سے ہندو تہذیب کی نمائندگی کرتی ہے‘ ایک سکول کی ہیڈ مسٹریس ہے‘ موصوفہ کا نام شبانہ ارجمند بانو ہے۔ اسے انتہائی قابل اعتراض لباس میں دیکھ کر ایک مسلمان سینئر سرکاری افسر نے شرم دلائی کہ اس کے اس لباس سے سکول کی بچیوں اور استانیوں پر کیا اثر پڑتا ہوگا۔ اس پر موصوفہ نے سینئر افسر کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کر دیا۔ عدالت عالیہ نے متعلقہ افسر کو حکم دیا کہ وہ معزز خاتون سے غیر مشروط معافی مانگے۔ ساتھ ہی یہ رولنگ دی کہ عورت کی مرضی ہے چاہے ‘تو برقع پہنے‘ چاہے نہ پہنے‘ چاہے تو پورا جسم ڈھانپے اور چاہے تو اس کے خلاف عمل اختیار کرلے‘ کسی کو اس پر اعتراض کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔بنگلہ دیش کے عوام اس ظلم وستم سے نا صرف تنگ ہیں ‘بلکہ وہ اس شب وروز کو بدلنے کے لیے پرعزم بھی ہیں۔ ملکی انتخابات سر پر ہیں۔ اپوزیشن اس مرتبہ بائیکاٹ نہیں کر رہی۔ بے پناہ مظالم کے باوجود حسینہ واجد اندر سے خوف زدہ ہے کہ اگر ملک میں کوئی تبدیلی آگئی تو اس کا کیا بنے گا؟ ظاہر ہے کہ اس کے جرائم اس کی آنکھوں کے سامنے ہیں۔ شہدا کا خون رائیگاں تو نہیں جائے گا۔ قرآن میںایک انسان کو ناحق قتل کرنا پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ جس قاتلہ نے ایک نہیں ہزاروں انسانوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا اور کبھی اس پر شرم محسوس نہیں کی اس کا انجام کیا ہوگا؟ یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ مودی سرکار سے تمغے حاصل کرنے والی وزیراعظم کو خالقِ کائنات کے سامنے ایک دن حاضر ہونا ہے۔
قریب ہے یارو روزِ محشر چھُپے کا کُشتوں کا خوں کیوں کر
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر ‘ لہو پکارے گا آستیں کا