تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     18-12-2018

ایک عظیم کتاب

قارئین آج کل میں حیرت کے سمندر میں غوطے کھا رہا ہوں ۔ میرے نئے دوست ناصر افتخار کی کتاب میرے ہاتھ میں ہیں ۔ ابھی یہ کتاب مارکیٹ میں نہیں آئی ۔ میں نے اس پر تبصرہ لکھنا ہے ۔ اسے پڑھتے ہوئے ‘مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ناصر کے مقابل میں ایک طفلِ مکتب ہوں ۔ نفس کے اوپر جو کچھ اس نے لکھا ہے ‘ وہ انتہائی حد تک حیران کر دینے والا ہے ۔ کچھ اقتباسات آپ کی نذر!
1۔ '' ہر جاندار کا وجود اس کے جسم کے ساتھ ہے ۔ جسم ایک رونمائی ہے ۔ body is appearance۔ جسم کا عقل سے براہِ راست کوئی زیادہ تعلق نہیں ہے ۔ جسم حیوانی ہے اور اس میں دو جبلتیں ہیں ۔ بچائو (survival)اور افزائشِ نسل‘ یعنی reproduction۔ جسم صرف بھوک مٹانے اور اپنی پیداوار بڑھانے (sex)میں دلچسپی رکھتا ہے ۔ باقی اسے کسی شے سے غرض نہیں ۔ گو کہ انسانی جسم اپنی بناوٹ اور نفاست کے اعتبار سے تمام حیوانی اجسام میں اعلیٰ حیثیت رکھتا ہے ‘ پھر بھی یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ حیاتیاتی اعتبار سے انسان اور حیوانات کے جسم میں کوئی فرق نہیں ۔‘‘ 
2۔'' اصل راز یہ ہے کہ انسانی ذہن کی فطرت ہے کہ جب یہ کسی شے کو جان لیتا ہے‘ تو اس شے کی اہمیت ‘ طاقت اور ہیبت اس کی نظر میں ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتی ہے ۔ نفس کا علم حاصل کر لینے کے بعد ذہن آہستہ آہستہ نفس کی قید سے آزاد ہو جانے کو ممکن سمجھنے لگتا ہے ۔‘‘ (یعنی نفس کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے جان لینا انتہائی ضروری ہے )۔ 
3۔''ہم اپنی زندگی کے تمام اہم واقعات کو گناہ اور ثواب کی شکل میں اٹھائے پھرر ہے ہیں (ہمارے ذہنوں پہ بوجھ ہے ان واقعات کا اور اہم انہیں بھول نہیں سکتے )۔ آخر کس لیے ؟ یقینا روزِ قیامت کے لیے !‘‘
4۔ '' نفس کی بہت خطرناک جبلت magnificationہے ۔ یہ ہر شے ‘ واقعے اور سوچ کو بڑا کر کے دکھاتا ہے ۔ جس سے غیر ضروری ہیجان جسم میں پیدا ہوتا ہے اور انسان درست فیصلہ کرنے کی اہلیت کھو بیٹھتا ہے ‘‘ (یہی وجہ ہے کہ دس روپے کے جھگڑے کا انجام قتل کی صورت میں نکلتا ہے )۔
5۔'' اگر تکلیف کا وجود جانداروں میں نہ رکھا جاتا تو کوئی ذی روح اس سیارے پر جینے کے فن سے آشنا نہ ہو پاتا۔ دوسرے جانوروں کی قسمت کی ستم ظریفی کہہ لیجیے کہ ان کی یاداشت شارٹ ٹرم ہے ۔ وہ تکلیف سے ملنے والا بیشتر ڈیٹا زیادہ دیر تک محفوظ رکھنے کے قابل نہیں ‘ ورنہ دنیا پہ حکومت کرنا تو دور کی بات‘ انسان کے لیے گدھے پر سوار ہو جانا ہی بہت بڑی کرامت کہلاتی ۔ تکلیف کا علم ایک مخصوص تنائو پیدا کرتاہے ‘ جس کی و جہ سے انسان اپنی زندگی کی حفاظت کرنے پر قائل ہو جاتا ہے ۔ ‘‘
6۔'' تکلیف اور انسان کا ایک اور رشتہ بھی ہے ۔ تکلیف کے بغیر کوئی انسان کچھ بھی نہیں سیکھ سکتا ۔ اللہ انسان کو جو بھی دیتا ہے ‘ اسے حاصل کرنے کے لیے انسان کو تکلیف کے دبائو سے گزرنا پڑتا ہے ۔ بچے کی پیدائش ایک دن میں ناممکن ہے ۔ بطنِ مادر میں اتنی گنجائش ہی نہیں ۔ اس لیے اس ناممکن کو ممکن بنانے کے لیے ماں کو تکلیف سے گزارا جاتاہے ۔ آہستہ آہستہ اس کے جسم اور نفس میں آنے والے بچے کے لیے وسعت پیدا ہونے لگتی ہے ۔ یہاں تک کہ وہ اس انتہائی تکلیف کے باوجود اپنے بچے کو جنم دینے کو تیار ہو جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جو محبت اپنے بچے سے ہوتی ہے ‘ وہ دوسرے کے بچے کے لیے ممکن نہیں ۔ اس محبت اور ممتا کے پسِ پردہ شدید تکلیف اور دبائو ہے ۔‘‘
7۔ ''اللہ جب کسی انسان کو کچھ دینے کا ارادہ کر لیتاہے ‘تو پہلے اس کے نفس میں گنجائش پیدا کرتاہے ۔ نفس کیونکہ بخل اور تنگی میں مبتلا ہوتاہے ‘ اس لیے اس پر دبائو ڈالا جاتا ہے‘ تاکہ اس میں وسعت اور کشائش پیدا ہو سکے ۔ جب ہم پر دبائو پڑتا ہے تو اس کاصاف مطلب یہی ہوتاہے کہ کوئی نئی عطا ظہور پذیر ہونے والی ہے ۔ ہر تکلیف کے پسِ پردہ ربِ کائنات کی رحمت چھپی ہوتی ہے ۔ 
8۔ ''نفس کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ کبھی غیر جانبدار ہو ہی نہیں سکتا‘ کیونکہ اسے خود سے ‘ اپنی ذات سے انتہائی ہمدردی ہوتی ہے ۔‘‘ 
9۔''کیا ہم اس بات کو مان چکے ہیں کہ کبھی بھی کسی بھی وقت ہم مر سکتے ہیں ؟ نہیں ‘ کبھی نہیں ‘ انسان کبھی تیار نہیں ہوتا ۔۔۔ہاں مگر وہ ‘ جس کو اللہ جان کے بخل سے نجات دے ‘ وہ خواہش کا طلسم توڑ سکتاہے۔ ‘‘
10 ۔''ہر خواہش جب پوری ہوتی ہے تو پتا چلتاہے کہ یہ تو ادھوری ہے ۔ چھوٹی کار تک پہنچنے کے بعد احساس ہوتاہے کہ اصل خواہش تو بڑی کار کی ہے ۔ یہ لامتناہی چکر ساری زندگی انسان کو ایک ایسا گدھا بنا چھوڑتا ہے ‘ جس پر بیٹھنے والے نے ایک چھڑی کے سرے پر سبز گھاس کا گٹھا باندھ کر اسے گدھے کی رسائی سے ذرا دور تھام رکھا ہو ۔ 
نفس اگر اللہ کی مہربانی سے علم حاصل کر لے تو اس میں خدا کو پانے کی خواہش بیدار ہو جاتی ہے ۔ یہ خواہش سب سے بڑی ہے ‘ اس سے بڑی اور کوئی خواہش نہیں ہے ۔(یہ واحد خواہش ہے ‘ جو پوری ہو سکتی ہے )۔‘‘
11۔ انسانوں کے اس سیلِ رواں میں ‘ اس بے پناہ ہجوم میں ہم سب اکیلے ہیں ۔ انسان کو تنہا پیدا کیا گیا ہے۔ اسے مرنا بھی تنہا ہے ۔ تنہائی نفس کی ایسی جبلت ہے ‘ جس سے یہ بے پناہ خوف کھاتا ہے ۔ نفس خوب جانتاہے کہ وہ اکیلا ہے ۔ اس احساس کو دبانے کے لیے وہ محرک (stimulus)میں رشتوں ‘ ناطوں میں پناہ لیتاہے ۔ ہنسی مذاق کرتا ہے ۔زندگی کو مصروف رکھنا اس کا واحد مشن ہے ۔ یہ کسی صورت اکیلا نہیں ہونا چاہتا ۔ رات کو سوتے وقت جب ہم آنکھیں بند کر لیں تو اصولی طور پر دنیاکو ختم ہوجانا چاہیے‘ مگر نفس اس قدر چالاک ہے کہ آنکھ بند ہوتے ہی دماغ میں ایک نئی دنیا پیدا ہو جاتی ہے اور ہم اس میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔ 
میرا ہاتھ میری مرضی سے حرکت کرے تو بات سمجھ میں آتی ہے‘ لیکن اگر بیٹھے بیٹھے میرا ہاتھ اپنی مرضی سے ادھر ادھر ہلنا شروع کر دے تو پھر یہ نارمل نہیں ہے ‘ یہ بیمار ی ہے ۔ سوچنا تو عین عقل ہے ‘مگر یہ کیا کہ ہر وقت سوچ چل رہی ہو۔ سوچ کو اس کی جگہ پر ہونا چاہیے ۔ جب ضرورت پیش آئے ‘ تب کام کرے ۔ یہ کیا کہ ہر وقت دماغ میں ایک طوفانِ بدتمیزی برپا ہے ۔ یہ تو پاگل پن ہے ۔ ‘‘
12۔ '' یہ سوچنے کا نہیں ‘ عبرت کا مقابل ہے ۔ اس کی دید کرنے کی ضرورت ہے‘ نفسِ انسان کی سوچ جب اعتدال لانے پر لانے کی کوشش کی جاتی ہے ( جو کہ خواہشات کی کمی سے ہوتی ہے ) تو سوچوں کے تانے بانے ٹوٹتے دیکھ کر نفس سخت اداس اور خوفزدہ ہوتاہے ۔ یہ وہ مقامِ تنہائی ہے ‘ جس سے نفس کو وحشت آتی ہے ‘‘۔
ناصر کا ایک تعارف یہ بھی ہے کہ دور دراز کے ایک شہر میں زندگی گزارنے والا یہ آدمی پروفیسر احمد رفیق اختر کا شاگرد ہے ۔جس عظیم بحران سے وہ خود گزرا ہے ‘ اس کالم میں انہیں بیان نہیں کیاجا سکتا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved