تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     19-12-2018

نئے عالمی ا من کے لیے نئی عالمی جنگ

تاریخ میں شمالی چینی سمندر‘ میڈیا میں موضوع بحث نہیں رہا‘مگر اس کا شمار نہ حل طلب مسائل میں ہوتاہے۔ایسا اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ دونوں ممالک تائیوان اور چین کی جانب سے ہمیشہ متباین نقطہ نظردیکھنے میں آیا‘دونوں ممالک نے اپنی افواج سمندر میں اتاررکھی ہیں۔ٹرمپ اور چینی صدر کی ملاقات سے قبل جولائی 2018ء سے امریکی نیوی تائیوان اور چین کے اس متنازعہ سمندری علاقے میں مورچہ زن ہے۔امریکی سمندری افواج کے ترجمان کمانڈنٹ ٹم گورمان نے اپنے سرکاری بیان میں کہا تھا ''امریکہ نے بحرہند کے سمندری راستے کھولنے اور ان میں سفر کے عالمی معاہدے کررکھے ہیں ـ‘‘۔ اس حوالے سے ان کامزید کہنا تھا ''امریکی نیوی ‘اپنی گشت اور فضائی سرگرمیاں دنیا میں کہیں بھی عالمی قوانین کے مطابق جاری رکھے گی‘‘ جس کے جواب میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان چنگ ژانگ نے امریکہ کو مخاطب کر تے ہوئے کہا کہ ''ایسے معاملات میں ہمیشہ احتیاط برتنی چاہیے ۔ اسے مناسب طریقے سے حل کر لیں گے۔امریکہ کو چاہیے کہ وہ تائیوان اور چین کے درمیان امن کو سبوتاژ نہ کرے‘‘۔عالمی سطح پر چینی وزارت خارجہ کے اس بیان کو امریکہ کو تنبیہ کے طور پر دیکھا جانے لگا۔
اس بیان کے بعد چینی افواج پیپلز لبریشن آرمی (نیوی) نے اس علاقے میں مزید فوج بھیج کر گشت بڑھا دیا۔اس دوران چینی اعلیٰ عسکری عہدہ دار کرنل کمانڈنٹ ڈائی ژو نے اپنی اعلی سیاسی و عسکری قیادت سے اجازت بھی طلب کی تھی کہ وہ انہیں امریکی سمندری جہازوں کو نشانہ بنانے اور ختم کرنے کی اجازت دیں؛اگر وہ ان کے سمندری حدود کی خلاف ورزی کریں ‘ چینی کمانڈنٹ نے موقف اپنایا کہ''امریکی دوبارہ ان کی سمندری حدود کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں ‘ہمیں دو مزید جنگی بحری جہاز اس سمندر میں اتارنے چاہیں ‘یہ ہمارا حق ہے اور ہمارا علاقہ بھی ہے۔‘ہم کبھی امریکہ کو حق نہیں دیں گے کہ وہ ہمارے علاقے میں آکر ہمارے معاملات میں خلل ڈالے‘‘۔ان بیانات اور رد عمل کے بعد دونوں جانب پریشانیاں بڑھ گئی‘فارموسہ (تائیوان) اور چین نے اپنی سمندری حدود کے تعین پر دوبارہ غور شروع کردیا۔نومبرکے آخری ایام میں امریکی بحری جہاز اسی علاقے میں اپنی طاقت کے جوہر دکھاتے نظر آئے‘ جن میں 2 امریکی بحری بیڑے ‘یو ایس ایس رونالڈ اور یو ایس ایس جوہن سی‘ کی نقل وحرکت کو واضح طور پردیکھا گیا۔اس کے بعد پینٹاگان نے 2بمبار جہاز B-52شمال چینی سمندر کے قریبی علاقوں میں بھیجے‘ جسے عمومی طور پر پانی اور اس کے اردگرد زمینی اور فضائی چینی مصنوعی جزیرے کے دعوی کو چیلنج کرنے کے مترادف سمجھا جانے لگا۔یہ فضائی جزیرے فی الحال امریکہ کے اختیار میں نہیں ہیں ‘وہ کوشش کر رہا ہے کہ اپنے جزیرے بھی تیار کرلے۔
امریکی نیوی کے سرکاری بیان میں اسے معمول کی مشقیں قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ ''حالیہ مشن اور مشقیں عالمی قوانین کے مطابق تھیں اور یہ سب عالمی سمندری معاہدوں سے منسلک ہیں‘‘۔امریکہ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا :ہمارا اس علاقے میں ہونا ایشیائی سٹیٹس کو کے خلاف بھی ہے ‘جو ہم نہیں چاہتے ۔17نومبر کو ہیلی فکس انٹرنیشنل سکیورٹی فورم کے عالمی سطح کے اجلاس میں‘امریکی نیوی کے ایڈمرل کمانڈر برائے بحرہند نے‘ خطرے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا '' چین شمالی سمندر میں میزائل کی ایک خفیہ دیوار بنانے میںمصروف ہے اور ایسا کرنا ان پانچ کھرب ڈالر کی 
تجارت کو نقصان پہنچاناہے ‘جو اس علاقے میں آمدوروفت سے منسوب ہے ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ چین ان تمام عالمی قوانین کو متنازعہ بنانا چاہتا ہے‘ جو کسی بھی قوم کی آزاد تجارت کے مقاصد میں شامل ہیں‘جیسا کہ اڑان بھرنا‘فضائی سفرکرنا اورسمندری راستے تجارت کے مقاصد کے لئے استعمال کرنا شامل ہے۔ پہلے واشنگٹن چین کو براہ راست عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر آڑے ہاتھوں لیتا رہا‘ مگر بعد میں چینی ردعمل آنے کے بعد اسے ملکی سلامتی کے طور پر میڈیا میں اچھالنے لگا۔چین امریکہ کی نسبت بھاری بحری طاقت رکھتا ہے۔یہ بات امریکی ریسرچ یونیورسٹیاںکئی بار کہہ چکی ہیں۔ انہوں نے واشنگٹن کو مشورہ بھی دیا کہ وہ اس علاقے میں چین سے پنگا لینے سے باز رہے‘ ورنہ اس کے خطرناک نتائج بھی بھگتنا پڑ یں گے۔اس بات میں کوئی شک نہیں چین اس علاقے میں امریکہ سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے تیار 
ہے اور چین کی قابل زکر تعداد میں بھاری افواج اس علاقے میں متعین کررکھی ہیں‘جس کے پیش نظر تائیوان نے بھی اپنی فوج اس سمندری حدود میں اتاری ہوئی ہیں‘ تاکہ ملکی سلامتی کو مقدم رکھا جا سکے۔تائیوانی میڈیا نے دعوی بھی کیا ہے کہ وہ مزید کشیدگی کی جانب نہیں بڑھنا چاہتا ‘مگر امریکی جنگی جہازوں کو ان علاقوں میں خاموش پیش قدمی دونوں ممالک کے لیے خطرناک ثابت ہو گی۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved