16دسمبر1971ئ... 47 سال بیت گئے لیکن اہل درد کیلئے یہ کل کی بات ہے۔
سقوطِ ڈھاکہ، کہنے والوں نے جسے سقوطِ غرناطہ کے بعد مسلم تاریخ کا سب سے بڑا المیہ بھی کہا، پر بہت کچھ لکھا گیا، کئی کتابیں تصنیف ہوئیں۔ ان میں ایسی بھی تھیں، جو باقاعدہ ایجنڈے کے تحت لکھی گئیں، ایک یا دوسری طرف کا پراپیگنڈا... اپنے اپنے جرائم، اپنی اپنی غلطیوں اور حماقتوں پر پردہ ڈالنے (یا ان کا جواز پیش کرنے) کی کوشش۔ لیکن اس موضوع پر اصحابِ تحقیق کی قابلِ قدر سعی وکاوش بھی منظر عام پر آئی۔ اس حوالے سے کتابیات کی طویل فہرست، شاید پورے کالم میں بھی سما نہ سکے۔ انہی دنوں دو نئی کتابیں ہاتھ لگیں۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے ''بنگلہ دیش کی تخلیق، فسانے اور حقائق‘‘ ہدیہ کی۔ یہ محمود عالم صدیقی کے قلم سے ڈاکٹر جنید احمد کی تصنیف کا ترجمہ ہے۔
دوسری کتاب ''بچھڑ گئے‘‘ تھی، کرنل (ر) زید آئی فرخ جسے سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے اپنی تجزیاتی خود نوشت قرار دیتے ہیں۔ ''بچھڑ گئے‘‘ کسی رومانوی ناول یا افسانوں کے مجموعے کا نام لگتا ہے‘ لیکن کرنل فرخ نے یہ نام اس لیے رکھا کہ ''بچھڑنے‘‘ کا عمل کسی باقاعدہ ارادے یا منصوبے کا نتیجہ نہیں بلکہ ''حادثاتی‘‘ ہوتا ہے اور جدائی کے اس عمل میں دوبارہ ملاپ کا امکان بھی موجود رہتا ہے۔
نوجوان فرخ 30 ستمبر 1970ء کو ڈھاکا اترا، وطن عزیز کے پہلے عام انتخابات سے 9 ہفتے قبل، تب وہ کپتان تھا۔ اس نے مشرقی پاکستان میں انتخابی مہم کے طور اطوار اپنی آنکھوں سے دیکھے، پھر سات دسمبر کے انتخابات کے بعد پیدا ہونے والا سیاسی بحران، اس دوران جنم لینے والی پسِ پردہ کہانیاں، کُچھ کُھلے، کچھ چُھپے واقعات۔ انٹیلی جنس رپورٹوں کا مطالعہ بھی اس کی ڈیوٹی کا اہم حصہ تھا... بھارت کی عریاں جارحیت، 16 دسمبر کا سانحہ‘ اور اس کے بعد مارچ 1975ء تک دشمن کی قید میں بیتے ماہ وسال کی روداد۔
کرنل فرخ کے بقول: الیکشن جیتنے کے بعد بنگالیوں کو یقین تھا کہ اب حکمرانی انہی کی ہوگی مگر انہیں بہت بڑا خدشہ تھا کہ مغربی پاکستان کے سیاستدان اور فوج، اتنی آسانی سے حکمرانی ان کے حوالے نہیں کریں گے... اور پھر وہ واقعہ جب شاہ ایران کھٹمنڈو جاتے ہوئے ڈھاکا ایئرپورٹ پر رکے۔ جنرل یحییٰ بھی وہیں تھے۔ انہوں نے ایئرپورٹ پر مجیب الرحمن کا تعارف ''پاکستان کا مستقبل کا وزیر اعظم‘‘ کہہ کر کروایا۔ یہ بات بنگالیوں کیلئے امید اور اطمینان کا باعث تھی لیکن ڈھاکا سے واپسی پر جنرل یحییٰ، بھٹو کے پاس لاڑکانہ پہنچ گئے تو افواہوں کا ایک طوفان امڈ آیا کہ آرمی اور مغربی پاکستان کے سیاستدان اقتدار کبھی بنگالیوں کو نہیں دیں گے... اس دوران مجیب الرحمن اپنی طاقت مجتمع کرتے رہے ، سٹوڈنٹس جس کا ہراول دستہ تھے۔ ان کے نزدیک بھٹو ہی سازش کر رہا تھا۔ 30 جنوری کو دوکشمیری نوجوانوں‘ اشرف اور ہاشم قریشی کے ہاتھوں سری نگر سے پرواز کرنے والے ہندوستان کے فوکر طیارے کے اغوا، لاہور ایئرپورٹ پر بھٹو صاحب کی ہائی جیکروں سے ملاقات اور طیارے کو نذرِ آتش کر دینے کا واقعہ رونما ہوا جس کے بعد ہندوستان نے پاکستانی طیاروں کیلئے اپنی فضائی حدود بند کر دیں اور مشرقی و مغربی پاکستان کے درمیان دو گھنٹے کی پرواز اور ایک ہزار میل کا فاصلہ، سری لنکا کے راستے ساڑھے پانچ گھنٹے کی پرواز اور پانچ ہزار میل کے فاصلے میں تبدیل ہو گیا... کرنل فرخ کے بقول یہ انڈین سازش تھی جس کا بروقت کوئی اندازہ نہ کر سکا (بعد کی تحقیقات سے بھی انڈین سازش کی تصدیق ہوئی۔ ہمارے مجاہد اوّل سردار عبدالقیوم خان اور شیخ مجیب الرحمن نے بھی اسے سازش ہی قرار دیا تھا جس کا مقصد پاکستان میں انتخابات کے بعد آئین سازی اور انتقالِ اقتدار کے عمل سے توجہ ہٹانا تھا)
فروری1971 میں بقر عید کے بعد مجیب، بھٹو اور یحییٰ، تینوں کی طرف سے یہی خبر آ رہی تھی کہ وہ صورتِ حال کا سیاسی حل چاہتے ہیں۔ یحییٰ نے ''اپنے رفقاء کار‘‘ اور بھٹو سے مشورے کئے اور ''حالات بگڑنے کی صورت‘‘ میں آرمی ایکشن کا پلان بھی فائنل کر لیا۔ 13 فروری کو صدر یحییٰ کی طرف سے 3 مارچ کو ڈھاکا میں آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کے اعلان (مگراس کے ساتھ، اپنی جنگی فورس کی تیاری میں کوئی کمی نہ آنے دی) اوربھٹو کی طرف سے اجلاس کے بائیکاٹ اور ڈھاکا جانے والوں کی ٹانگیں توڑ دینے کے اعلان کے بعد دونوں بازوئوں کے درمیان کشیدگی بہت بڑھ گئی تھی۔ ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ جنرل یعقوب علی خاں نے جنرل یحییٰ کو ڈھاکا آنے کیلئے لکھا۔ وہ تو نہ آئے البتہ سول کپڑوں میں فوجیوں کے جہاز بھر بھر کے ڈھاکا آنا شروع ہو گئے۔ مجیب نے اس پر شدید احتجاج کے ساتھ ایئرپورٹ کے عملے کو حکم دیا کہ وہ ان جہازوں کو ''ان لوڈ‘‘ کرنے میں تعاون نہ کریں۔
صدر یحییٰ نے 22 فروری کو راولپنڈی میں صوبائی گورنروں اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹروں کی کانفرنس کی، جس پر شیخ مجیب نے بیان دیا کہ ایک طرف راولپنڈی میں ہماری قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے اجلاس ہو رہے ہیں اور دوسری طرف دھڑا دھڑ فوج ڈھاکا میں اتاری جا رہی ہے...27 فروری کی رات مجیب نے اپنے قریبی سیاستدانوں اور سٹوڈنٹس لیڈروں سے میٹنگ کی اور بتایا کہ یحییٰ نے بھٹو کے دبائو پر 3 مارچ کا اجلاس ملتوی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس پر سیاستدانوں کی رائے تھی کہ اگر اجلاس ہفتہ دس دن کے لیے ملتوی ہوتا ہے تو ہم ''پُرامن‘‘ احتجاج کریں گے اور اگر تاریخ لمبی دی جاتی ہے تو اس کا مطلب ہمیں ہمارے آئینی حق سے محروم کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوگا‘ جس پر ہم راست اقدام (ڈائریکٹ ایکشن) پر مجبور ہوں گے۔ اگلے روز گورنر مشرقی پاکستان ایڈمرل ایس ایم احسن سے ملاقات میں شیخ مجیب کا کہنا تھا کہ اجلاس ملتوی کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا گیا ہے، تو اس کے ساتھ نئی تاریخ کا اعلان بھی کردیا جائے، بصورت دیگر حالات اس (شیخ مجیب)کے قابو میں نہیں رہیں گے لیکن اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا۔ ''حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے‘‘ مغربی پاکستان سے دھڑا دھڑ فوجی دستے ڈھاکا پہنچ رہے تھے۔ سات مارچ کے یوم احتجاج پر چند سرکاری عمارتوں کے سوا، ہر جگہ بنگلہ دیش کا پرچم لہرارہاتھا۔ دس، پندرہ لاکھ پُرجوش انسانوں سے خطاب میں مجیب فوری طور پر مارشل لا اٹھانے، فوج کو واپس بیرکوں میں بھیجنے، اقتدار منتخب نمائندوں کو منتقل کرنے اور اس ہفتے کے دوران ہونے والے قتل و غارت کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کر رہا تھا (یہاں کرنل فرخ یہ لکھنا بھول گئے کہ سنگین ترین دبائو کے بدترین ماحول میں بھی شیخ مجیب نے اپنی تقریر کا اختتام جَے بنگلہ کے بعد ''جَے پاکستان‘‘ کے نعرے پر کیا تھا) اس سے ایک رات قبل گورنر مشرقی پاکستان ایڈمرل ایس ایم احسن کو معزول کرکے مغربی پاکستان بلا لیا گیا۔ اس پر جنرل یعقوب علی خاں، ایسٹرن کمانڈ سے احتجاجاً مستعفی ہوگئے (کہ یہ دونوں فوجی ایکشن کی بجائے مسئلے کے سیاسی حل پر زور دے رہے تھے) جنرل ٹکا خان نئے گورنر کے طور پر ڈھاکا اترے، لیکن ڈھاکا ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ان سے حلف لینے سے انکار کردیا۔ (گزشتہ دنوں شامی صاحب کے ''نقطہ نظر‘‘ میں، جیل میں شیخ مجیب کے گارڈ کے فرائض انجام دینے والے جمیل غوری بتا رہے تھے کہ ایک روز زیر حراست شیخ مجیب نے کہا، مجھے معلوم تھا کہ آپریشن کے لیے فوج ڈھاکا پہنچ رہی ہے، ہر آنے والے دن اس کی تعداد میں اضافہ اور ہمارے لیے مشکلات بڑھتی جائیں گی۔ اس کے باوجود میں نے سات مارچ کو آزادی کا اعلان نہیں کیا اور مسئلہ کے سیاسی حل پر اصرار کرتا رہا) 21 مارچ کو (بعد از خرابیٔ بسیار) بھٹو اپنے رفقا کے ہمراہ ڈھاکا پہنچے۔ بنگالیوں کے شدید نفرت انگیز جذبات کے باعث بھٹو (اور ان کے رفقا) کے تحفظ کی ذمہ داری فوج نے اپنے پاس رکھی اور اسے بھی بنگالیوں نے بھٹو، آرمی گٹھ جوڑ کے طور پر دیکھا۔ ''مذاکرات‘‘ ناکام رہے اور 25 مارچ کی شب آپریشن کا آغاز ہوگیا۔ زیر حراست مجیب کو مغربی پاکستان پہنچا دیا گیا۔ بھٹو خدا کا شکر ادا کر رہے تھے کہ ''پاکستان بچ گیا‘‘... اور پھر 16 دسمبر تک پیچ در پیچ اور تہہ درتہہ کہانی۔ کرنل فرح کی اس کتاب سے احساس ہوتا ہے کہ علیحدگی شیخ مجیب الرحمن کا پہلا آپشن نہیں تھا... اور خود بنگالیوں کی بڑی تعداد بھی اپنا حق حکمرانی تو چاہتی تھی لیکن ''16دسمبر‘‘ نہیں چاہتی تھی۔ ایک دلگداز واقعہ جو شیخ مجیب کے اپنے آبائی ضلع فرید پور کے ریلوے سٹیشن پر پیش آیا، ''جنگی قیدیوں‘‘ کو لے جانے والی گاڑی رکی تو ایک بنگالی بابا، انڈین سنتری کے روکنے کے باوجود قیدیوں کے قریب آ گیا... روتے ہوئے بنگالی زبان میں وہ کہہ رہا تھا: ''بھائیو! ہم ایسا تو کبھی نہیں چاہتے تھے، یہ کیا ہو گیا‘‘؟