کشمیر میں بھارت اپنی جارحیت کے ذریعے مسلسل مظلوم کشمیریوں کا لہو بہا رہا ہے۔ لیکن جوں جوں اس جارحیت میں اضافہ ہو رہا ہے‘ توں توں اس کے خلاف بغاوت کی شدت بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایک ایسے عہد میں جہاں بھارت میں ہر طرف مایوسی کے اندھیرے چھائے ہوئے ہیں‘ کشمیری نوجوانوں کی بھارتی سرکار کے خلاف بغاوت کی چنگاریاں سب سے زیادہ روشن ہیں۔ اس تحریک میں حصہ لینے والوں کے حوصلے اور عزم نے جہاں دنیا بھر کے نوجوانوں کو حیران کر دیا ہے‘ وہاں اس سے ان کو ہمت بھی ملتی ہے۔ بھارتی سامراجیوں اور خطے کے حکمرانوں کے لئے اس تحریک میں جو مزید تشویش پیدا کرنے والا عنصر ابھرا‘ وہ مسلح اور غیر مسلح جدوجہد میں قربت اور باہمی حمایت ہے۔ سات لاکھ بھارتی فوج نوجوانوں‘ خواتین‘ بچوں اور کشمیر کے عام انسانوں کی مظلوم پرتوں کو کچلنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ ظلم اور بربریت کی آگ میں مزاحمت اور جدوجہد کی جو داستان رقم ہو رہی ہے‘ وہ نہ صرف آج بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی طبقاتی جبر سے آزادی اور نجات کا درخشاں پیغام ہے۔ ساحر لدھیانوی نے کچھ اس انداز میں اس پیام کو اپنی شاعری میں سمو دیا تھا:
رات جتنی بھی سنگین ہو گی
صبح اتنی ہی رنگین ہو گی
غم نہ کر گر ہے بادل گھنیرا
کس کے روکے رُکا ہے سویرا
رات بھر کا مہمان ہے اندھیرا
لیکن کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کی نسلوں سے چلنے والی تحریک کو جہاں عالمی اور برصغیر کی سامراجی عزائم رکھنے والی حاکمیتیوں نے کچلا ہے‘ اور اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے‘ وہاں کشمیر کے بالا دست طبقات نے بھی سامراجیوں کے طفیلی کا کردار ادا کیا ہے۔ مودی کی حاکمیت میں یہ ظلم و بربریت مزید بڑھی ہے۔ یہاں تک کہ ایک روشن خیال سابق چیف جسٹس 'مارکانڈے کاٹجو‘ نے کشمیر میں بھارتی جارحیت کو جلیانوالہ باغ میں ہونے والی برطانوی سامراج کی درندگی سے تشبیہہ دی تھی۔ لیکن یہ تحریک اتنی شدت اور ایک ذہنی و نظریاتی وسعت کے ساتھ بھڑک اٹھی ہے کہ اب بغاوت کی اس آگ کے شعلے بجھنے کا نام نہیں لے رہے۔ اس تحریک نے جہاں تنگ نظری کی محدودیت کو توڑ کر ایک طبقاتی کردار کے ساتھ اس جدوجہد کو عملی تجربات کے اسباق کے ذریعے جوڑا ہے‘ اس سے ہندوستان میں ترقی پسند سوچ رکھنے والوں میں اس کی حمایت بہت بڑھی ہے۔ اس بنیاد پر بھارتی حکمرانوں اور وحشی ریاست کا دہشت گردی کا پراپیگنڈا بھی زائل ہوا ہے اور دنیا بھر میں بھارتی ریاست کی دہشت گردی کھل کر عیاں ہوئی ہے اور اس کے خلاف مہمات اور تحریکیں بھی زور پکڑنے لگی ہیں۔
دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے ابھرنے والی طلبہ تحریک، جو ہندوستان بھر کے تعلیمی اداروں میں پھیل گئی تھی، کا آغاز کشمیر میں دہشت گردی کے بہانے مظلوم کشمیری نوجوانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کے خلاف ایک کھلی مزاحمت ہی تھی۔ حالیہ بھارتی جارحیت کے دوران بڑے پیمانے پر ہونے والی قتل و غارت گری پر پاکستانی حکمرانوں نے پھر مذمتوں کے بیانات ہی دیئے ہیں۔ اب تو نسل در نسل کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کے خلاف پاکستانی حکمرانوں کے مذمتی بیانات بہت پھیکے اور بے معنی معلوم ہوتے ہیں۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کو اس مسئلہ پر مداخلت کی اپیل کی ہے۔ اس کے رکن مختلف ممالک کی حاکمیتوں کے اپنے باہمی تضادات اور تنائو اتنے شدید ہیں کہ یہ ''دوسروں‘‘ کے خلاف کم اور باہمی طور پر کہیں زیادہ شدت سے برسر پیکار ہیں۔ اب تو درحقیقت یہ کاغذی یکجہتی سے بھی محروم ہو چکی ہے۔ اسرائیل اور امریکی، یورپی، چینی اور روسی حکمرانوں کی اجارہ دارانہ لڑائی‘ دھڑے بندیوں سے زیادہ قربتیں اختیار کیے ہوئے ہے۔ عرب ممالک میں تو نریندر مودی کو ان کے سب سے بڑے ''قومی‘‘ اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ اس کے تاریخی استقبال کیے گئے اور مودی کو خوش کرنے کے لئے مندروں کے افتتاح کروائے گئے۔
اسی طرح 71 سال کی تمام تر قراردادوں کے باوجود کشمیر کے مسئلہ پر اقوام متحدہ کا کردار بھی کم شرمناک نہیں رہا۔ سامراجی کھل کر بھارت کی حمایت کر رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ ریاستوں اور حکمرانوں کی غرض زیادہ سے زیادہ منافعوں کے لئے بھارتی منڈی اور سستی ہنرمند لیبر کا استحصال ہے۔ منافع خوری کے مقاصد ہی ان کی پالیسیاں طے کرتے ہیں۔ ضمیر اور انسانیت کا درد ان کے لئے بے معنی ہے۔ کشمیر میں ڈھائے جانے والے ظلم و ستم پر ان کے رویے سے ان کی اور ان کے نظام کی سفاکیت عیاں ہوتی ہے۔ ویسے موجودہ حکومت کی کشمیریوں کے لئے ہمدردی کا اندازہ ان کے پاکستانی کنٹرول میں کشمیر پر لاگو پالیسیوں سے ہوتا ہے۔
مودی سرکار نے کشمیر میں جہاں پیلٹ گنز کے چھروں سے بچوں کو نابینا کرنے کا ستم شروع کر رکھا ہے‘ وہاں سیدھی گولیاں چلا کر قتل عام بھی تیز کر دیا ہے‘ لیکن ہمالیہ اور ہندوکش کی گود میں اس سرسبز اور دلکش وادیٔ کشمیر سے لے کر بحر ہند کی نکڑ کے قصبے کنیا کماری تک اس ریاستی تشدد کے ساتھ ساتھ معاشی و سماجی دہشت گردی کا بازار بھی گرم ہے۔ ہمالیہ کی گود کے ایک سرے سے بحر ہند تک اس ظلم اور محرومی کے خلاف عوام میں اکتاہٹ اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ اس کی شدت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ گھائل ہندوستان کا معاشرہ‘ ہندو بنیاد پرستی کی وحشت سے تباہ حال ہے۔ یہ ہندو مذہبی جنون ان زخموں پر نمک کی طرح گر کر عام انسانوں کی اذیت میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔ بھارت کی جمہوریت میں بھی آمریت کہیں زیادہ حاوی نظر آتی ہے۔ بھارتی میڈیا اور بیشتر ذرائع ابلاغ مودی سرکار کی دلالی کے سوا چل ہی نہیں سکتے۔ یہاں مودی سرکار نے مہم تو وِکاس (ترقی) کے نام کے ساتھ چلائی تھی لیکن اس نے عملی طور پر عوام کو اس ہندوتوا کی وحشت اور درندگی کی اذیت گاہ میں غرق کرنے کا عمل شروع کر رکھا ہے۔ برصغیر کے کچھ ممالک میں جس خفیہ لیکن اذیت ناک جبر سے عوام کو معاشی اور سیاسی طور پر دبایا جا رہا ہے‘ اس میں بھارت شاید سب سے آگے ہے۔ دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریہ میں طرح طرح کی مذہبی اور جنونیت پر مبنی وارداتیں جاری ہیں۔ بٹوارے کروانے کے سرخیل ہندو بنیاد پرست ولبھ بھائی پٹیل کا حال ہی میں گجرات میں مجسمہ تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ دنیا کا سب سے اونچا مجسمہ ہے۔ اس کی اونچائی 597 فٹ ہے۔ 2,989 کروڑ بھارتی روپے سے بننے والے اس مجسمے کے لئے رقم بھارت کی سب سے بڑی‘ خصوصاً تیل کی اجارہ داریوں نے فراہم کی ہے۔ اس کا ٹھیکہ ایک سامراجی کمپنی ''لارسن اینڈ ٹریو‘‘ کو ملا اور اس کی تعمیر میں چین کے انجینئروں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ مجسمے نے عوام پر بوجھ ڈال کر تیل کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا اور ان اجارہ داریوں کی یہ ''قومی خدمت‘‘ ان کے لئے انتہائی منافع بخش ثابت ہوئی کہ اس سے انہوں نے کئی ارب لوٹے‘ جو ظاہر ہے عوام کی جیبوں سے ہی نکلے ہوں گے۔
بھارت میں حالیہ صوبائی انتخابات میں 5 ریاستوں میں مودی اور امیت شاہ کی بی جے پی کی شکست عوامی اکتاہٹ کا ایک اظہار ہے۔ لیکن یہ مودی کی ہار ہے‘ کانگریس کی فتح قطعاً نہیں‘ کیونکہ راہول کی انتخابی مہم بھی زیادہ تر گائو ماتا کے پیشاب کی پوّترتا اور مندروں میں پوجا پر ہی مبنی تھی۔ لیکن مودی سرکار کے خلاف ہونے والی 18 کروڑ مزدوروں کی ہڑتال انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتال تھی۔ اسی طرح حالیہ دیوہیکل کسان مارچ ایک نئی بیداری کی غمازی کرتا ہے‘ اور یہ ایک نئی طبقاتی جدوجہد کے آغاز کے پہلے قدم ہیں۔ کشمیر کی تحریک نے اس جدوجہد کو اہم حوصلہ بخشا ہے۔ اسی لیے اس نظام کا خاتمہ کرنے والی اور ایک حقیقی آزادی کی تازہ تحریک کہیں زیادہ وسیع اور پورے خطے پر محیط ہو گی۔ برصغیر میں مودی کی مذہبی بنیاد پرستی اور دوسرے ماضی کے تعصبات کا ابھار بیماری کی علامات ہیں‘ اصل بیماری نہیں۔ اصل ناسور تو وہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس کے سنگین بحران کی یہ غمازی کرتے ہیں۔