جس حکومت میں فیصل واؤڈا، شہریار آفریدی، علی زیدی اور مراد سعید جیسے وزیر ہوں‘ میرے خیال میں اس سے مثبت توقع باندھنے کے لیے ناقابل علاج قسم کا رجائیت پسند ہونا ضروری ہے۔ خاکسار چونکہ اسی قماش کا امید پرست ہے اس لیے زندگی بھر حکومتوں سے کچھ اچھا کرنے کی توقع باندھے رکھی۔ مشیت ایزدی ہے کہ آج تک یہ توقع پوری نہیں ہوئی اور موجودہ حکومت کی گزشتہ چار ماہ کی کارکردگی دیکھ کر ہی معلوم ہو گیا ہے کہ ''یہ کمپنی چلنے والی نہیں‘‘۔ اگر اس حکومت کو کچھ پتا ہوتا تو روپیہ منہ کے بل نہ جا گرتا، احتساب کے نام پر ملک کا کاروبار نہ رکتا، منڈیوں میں کساد بازاری کا راج نہ ہوتا، بازار ٹھنڈے نہ پڑ چکے ہوتے، ریاست کے کارندے احتساب کے خوف سے کام کرنا نہ چھوڑتے، سرکاری افسروں کے لیے کچھ کرنے کی بجائے کچھ بھی نہ کرنے میں عافیت نہ ہوتی اور پورا ملک چیخ چیخ کر نہ کہہ رہا ہوتا کہ ''یہ اناڑی ہیں‘‘۔ اس حکومت کی نا فہمی پر اجماع ہو جانے کے باوجود منکہ مسمّی اچھی امید رکھنے سے باز نہیں آ سکتا۔ اس لیے صرف یہ عرض ہے کہ معیشت، اے کپتانِ تحریک انصاف...معیشت،اے صاحبان اقتدار ... معیشت، اے معشرِ نوجوانان... معیشت، اے مجمعِ وزرائے بے تدبیر... معیشت۔
تحریک انصاف والوںکی بد قسمتی کے سوا اسے اور کیا کہیں کہ ایک تو انہیں حکومت کے بارے میں کچھ پتا ہی نہیں تھا اور اس پر اقتدار سنبھالتے ہی افتاد بھی معیشت کی آن پڑی۔ دوستوں کی مدد سے یہ اس فوری مصیبت سے تو باہر آ گئے لیکن ان کے اعصاب اتنے شل ہو گئے کہ حالات پر اپنی گرفت ہی کھو بیٹھے۔ کہاں یہ بلندی کہ ملک کو معاشی ٹائیگر بنانے کے دعوے اور کہاں یہ پستی کہ سو دن بعد اپنی پالیسی کا اعلان کیا تو مرغیاں اور بچھڑے پالنے سے آگے کی سوچ ہی نہ سکے۔ غریب آدمی کا چولہا بجھنے کو ہے اور یہ اس بات پر نعرے لگا رہے ہیں کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے دو حصے کر دیے۔ ان بندگانِ سادہ لوح کو یہ بھی علم نہیں کہ کس وقت کیا کہنا ہے۔ مخلوق خدا روٹی کے لقمے کو ترس رہی ہے اور یہ بتا رہے ہیں اب ٹیکس کی پالیسی بنانے والے اور ٹیکس اکٹھا کرنے والے الگ الگ ہو جائیں گے۔ انہیں اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ حکومت بیک وقت کئی کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ حکومت تو ایک باپ کی طرح ہے جو بچوں کی تعلیم کے بارے میں فکر مند رہتا ہے لیکن ان کے شام کے کھانے سے غافل نہیں ہوتا۔ جو باپ تعلیم پر تو زور دیتا رہے اور بچوں کی بھوک کی پروا نہ کرے اسے دنیا میں کون عقل مندکہے گا؟
بہرحال ، جو ہونا تھا ، ہو گیا اگر خود سنبھلنے اور ملک کو سنبھالنے کا ارادہ ہو تو اس مشکل سے نکلنے کا راستہ حکومت کے پاس آج بھی موجود ہے اور وہ ہے ترجیحات کا ازسرِ نو تعین۔ ظاہر ہے کہ اولّین ترجیح معیشت نہیں ہو گی تو پھر کچھ بھی نہیں ہو پائے گا۔ معیشت پر کام یوں نہیں کہ آؤ معیشت معیشت کھیلیں بلکہ خوب سوچ بچار کے بعد چند نکاتی پالیسی اور اس کے ہر نکتے کی یک ورقی تفصیلات کہ کیا کرنا ہے، کب کرنا ہے اور کون کرے گا۔ اگر ہمارے پیارے اسد عمر پر اور عبدالرزاق داؤد پہ گراں نہ گزرے تو یہ کہنے کی جسارت کر لی جائے کہ جناب کی مہارت سر آنکھوں پر لیکن آپ ہمیں معاشیات پڑھانے کی بجائے وہ کریں جو دنیا نے کیا ہے اور کامیاب ہوئی ہے۔ کامیابی کی یہ شاہ کلید ہے چھوٹی صنعتوں کی بحالی۔ جی ہاں وہی چھوٹی صنعتیں جنہیں یہ منہ سکوڑ کر نفرت سے ''کاٹیج انڈسٹری ‘‘ کہتے ہیں کیونکہ ان دونوں کو سرے سے علم ہی نہیں کہ پاکستان کی چھوٹی صنعتیں کیا ہیں اور کہاں ہیں۔ سرگودھا میں بجلی کے سوئچ بنانے والے کارخانے‘ جنہیں چین سے اندھا دھند درآمد نے تباہ کر دیا ہے۔ لاہور میں جوتوں کی چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں جن کے قتل میں پرویز مشرف سے لے کر نواز شریف تک ہر ایک نے حصّہ ڈالا۔ گوجرانوالہ کا وہ کاریگر جو اپنے مکان کی بیٹھک میں ایک خراد مشین لگا کر ایک پرزہ بنا کر کسی بڑی فیکٹری کو سپلائی کرتا ہے۔ سیالکوٹ کا وہ سارا خاندان جو گھر میں لگی سان پر سرجری کے آلات رگڑ کر کسی برآمد کرنے والے کے گودام میں پہنچایا کرتا تھا۔ ان سب لوگوں کو یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے برباد کیا ہے اور آپ کے پاس صرف دو آپشن ہیں: ان برباد شدہ لوگوں کو دفن کر دیں یا تھوڑی سی توجہ سے ان میں نئی روح پھونک دیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے سخت ترین حالات میں درآمدی مال کے مقابلے میں تھوڑے سے تحفظ کے ساتھ بیرونی ادائیگیوں کے حالات قابو سے باہر نہیں ہونے دیے۔ یہ لوگ اپنے ملک کی ضروریات کا مال بنا کر درآمدات کو لگام ڈالے رکھتے تھے۔ ان چھوٹی صنعتوں نے ملک کی آدھی سے زائد لیبر کو روزگار مہیا کیے رکھا، لیکن جیسے ہی حکومتوں نے انہیں نظر انداز کیا ، وہ تباہ ہو گئے۔ اب حالت یہ ہے کہ ہم کوریا ، برطانیہ اور امریکہ سے ایک ارب ڈالر کے پرانے کپڑے ، جوتے اور کاٹھ کباڑ منگا لیتے ہیں لیکن پاکستان کی چھوٹی صنعت کو کوئی تحفظ فراہم نہیں کرتے۔ ہم دنیا میں طے شدہ اصول بھول گئے کہ چھوٹی صنعتوں میں ہر پانچ لاکھ روپے کی سرمایہ کاری پر ایک نوکری پیدا ہوتی ہے اور بڑی صنعتوں میں پانچ کروڑ روپے پر ایک نوکری پیدا ہوتی ہے۔ ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ بڑے سرمایہ دار پورا نہیں کر پائیں گے، چھوٹی صنعتوں کو فروغ دیں ، ایک کروڑ نوکریاں پیدا ہو جائیں گی۔ یہ بھی مت بھولیے کہ اگر چھوٹی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ آپ پچاس لاکھ مکانوں کے وعدے پر بھی قائم ہیں تو یہی لوگ ان مکانوں کا خام مال سپلائی کریں گے۔ کوئی اینٹ بنائے گا، کوئی بجری بنائے گا، کوئی بجلی کے سوئچ بنا کر دے گا اور کوئی پنکھے اور کوئی ٹونٹیاں نلکے بنا لائے گا۔ پچاس لاکھ گھروں کا سامان یہ لوگ دیں گے اور انہی میں سے کئی ان گھروں کے خریدار بھی ہوں گے۔
ٹیکسٹائل پر بھی توجہ کریں۔ یہ ہمارے ملک کی طاقت بھی ہے اور کمزوری بھی۔ طاقت ہماری پاور لوم ہے، طاقت ہمارا وہ چھوٹا سا کارخانے دار ہے جو کئی لوگوں کو روزگار دے کر کپڑا سی کر باہر بھیجتا ہے اور کمزوری ہمارا وہ دولت مند ہے جو ہماری روئی کا دھاگا بنا کر باہر بھیجتا ہے، وہ بھی سبسڈی یا ریبیٹ لے کر۔ چونکہ یہ بہت بڑا سرمایہ دار ہے اس لیے دھاگا بنانے والے کو حکومت ہر رعایت دیتی ہے۔ ہم اسے مہنگی بجلی خرید کر سستے داموں دیتے ہیں تاکہ یہ بنگلہ دیش اور چین کو دھاگا بیچے جو اس سے کپڑا اور پھر لباس بنا کر پیسہ بنائیں۔ دھاگا بنا کر باہر بھیجنے والے کو رعایت کی کوئی ضرورت نہیں، برآمد کے لیے کوئی رعایت دینی ہے تو اسے دیں جو مکمل چیز بنا کر باہر بھیجے تاکہ یہاں کے لوگوں کو روزگار ملے، ہماری کپاس اور ہمارے دھاگے پر دوسرے ملک پیسہ کمائیں اس سے بڑی زیادتی نہیں ہو سکتی بلکہ موجودہ حالات میں اس سے بڑا کوئی معاشی جرم بھی نہیں ہو سکتا۔ انہیں رعایتیں دے دے کر عام آدمی کا خون نہ نچوڑیں۔ بڑے بڑے لوگوں کے مشورے چھوڑیں ، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، ڈسکہ، حیدر آباد، وزیر آباد اور گجرات کے لوگوں سے مل کر پالیسی بنائیں۔
ڈھائی ہزار برس ہوتے ہیں چینی حکیم کفیوشس نے کہا تھا ، ''جس حکمران کے پاس ایک بڑی فوج ہو اسے سب سے زیادہ توجہ معیشت پر دینی چاہیے‘‘۔ اس نے اپنی بے پناہ بصیرت سے یہ سمجھ لیا تھا کہ اگر کسی ریاست کی معاش کمزور پڑ جائے تو اس کی فوجی طاقت کو بھی ضعف پہنچتا ہے۔ عمران خان صاحب کو بھی اگر ملک چلانا اور تاریخ میں زندہ رہنا ہے تو معیشت کا سبق ہی پڑھنا پڑے گا۔ انہوں نے معیشت چلا لی تو وہ سب کچھ ٹھیک کر لیں گے ۔ اگر اپنی موجودہ ٹیم اور موجودہ پالیسیوں کو ہی لے کر چلتے رہے تو دو ہزار بیس میں بجٹ پیش کرنے والی حکومت کوئی اور ہو گی۔