تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     14-04-2013

سب خاموش!!

کرپشن کا طوفان جاری ہے اور سب خاموش ہیں! کوئی سیاستدان اس لوٹ مار پر ایک دوسرے کے خلاف لب کشائی نہیں کر رہا ۔ الیکشن کمشنر اس رومانس میں سرشار ہیں کہ تمام پارٹیوں نے انہیں متفقہ چیف الیکشن کمشنر بنایا۔ چوراسی برس کی عمر میں لاٹری نکل آئی۔ بڑی بڑی ڈگریوں والے نوجوانوں کو نوکری نہیں ملتی اور وہ پیرانہ سالی میں اتنے بڑے عہدے پر فائز ہوگئے۔ اسٹیٹ بنک خاموش ہے۔ شاید ملک نہیں بلکہ سیاستدانوں سے وفاداری کا حلف اٹھا کر یہ منصب سنبھالا گیا کہ خزانے لٹ گئے مگر گورنر لٹیروں کی فہرستیں دینے کو تیار نہیں۔ چیئرمین نیب خاموش ہیں۔ فرماتے ہیں؛ ٹیکس چوروں‘ اربوں کے قرضے معاف کرانے والوں کو الیکشن لڑنے دیں‘ پھر دیکھ لیں گے۔ یہ ان کی وفاداری کا امتحان ہے۔ جس گاڈفادر نے انہیں چیئرمین لگوایا‘ وہ ان کی گردن پر سوار ہیں کہ ایک لفظ بول کر دکھائو! سب مل گئے ہیں اور خاموشی کا راج ہے! اس خاموشی کو دیکھ کر یاد آیا کہ انیسویں صدی میں اٹلی کے شہر سسلی میں مافیا معاشرے پر مسلط ہوا تو سب کے لیے لازمی قرار پایا کہ کوئی اپنے جانی دشمن کی شکایت بھی قانون کے پاسداروں کے پاس نہ لے جائے۔ کسی کو قتل کرنا ہوگا تو خود کریں گے، سزائوں کا تعین بھی خود کریں گے۔ اپنی پولیس اپنی عدالت ۔ کوئی قانون کی مدد نہیں لے گا ۔اس کے لیے ایک کوڈ طے کیا گیا جس کا نام تھاOmreta یعنی خاموشی! اس کوڈ پر عمل کرنا سب پر لازم تھا۔ اگر کسی کا بیٹا بھی قتل ہوجاتا تو وہ اپنے مخالف کا نام نہ لیتا۔ ظاہر کرتا کہ آسمان سے بجلی گری ہے۔ کوئی اس کوڈ کو توڑتا تو پورا مافیا مل کرسزا کا تعین کرتا۔ اسے کمزور سمجھا جاتا۔ سب پر لازم ہوتا کہ ایسے کمزور بدمعاش کو مافیا میں نہیں رہنا چاہیے۔ چنانچہ اسے ختم کرنے کے لیے مافیا خود اسکواڈ بھیجتا۔ ہاں‘ اسے بہادر سمجھا جاتا جو اپنا بدلہ خود لیتا۔ اگر وہ خود بدلہ لینے کی پوزیشن میں نہ ہوتا تو مافیا مل کر اس کے دشمن کو ختم کرتا۔ یوں مافیا کا اثر لوگوں میں بڑھتا گیا۔ کسی کو شکایت ہوتی تو وہ پولیس کی بجائے مقامی ڈان کے پاس جاتا۔ڈان ہی قانون تھا اور ڈان ہی جلاد ! مجھے یقین ہے‘ اِکا دُکا پنجابی یا بھارتی فلموں میں مافیا کے کرداروں کو دیکھنے والوں کے سوا بیوروکریسی اور اعلیٰ عہدوں پر مسلط سیاستدانوں کو وفاداروں میں سے کوئی اس کوڈ کے بارے میں کچھ جانتا ہو۔ تاہم اُن میں یہ جبلت بدرجہ اتم موجود ہے جو سسلی کے مافیا میں تھی۔ وہ جانتے ہیں‘ کیسے خاموش رہنا ہے اور مشکل وقت میں اپنے گاڈفادر کی کس طرح مدد کرنی ہے۔ سسلی کا مافیا اعلیٰ عہدوں پر اپنے دوستوں اور وفاداروں کو لگواتا تھا۔ اٹلی میں جج تک مافیا کی منظوری سے لگتے تھے۔ دو مقامات پر اپنے وفاداروں کا ہونا بہت ضروری تھا ۔ ایک پولیس اور دوسری عدلیہ۔ اس کے لیے سسلی کا مافیا کسی بھی حد تک جا سکتا تھا۔ اگر ان کا کوئی رکن پکڑا جاتا تو پہلے پولیس کے ذریعے اُس پر کمزور دفعات لگوائی جاتیں‘ پھر ظاہر کیا جاتا کہ اس نے یہ جرم پہلی دفعہ کیا ہے اس لیے اُسے سزا کم ملتی اور وہ بہت جلد چھوٹ کر دوبارہ مافیا کے لیے کام شروع کردیتا۔ اگر کوئی سر پھرا پولیس افسر نہ مانتا تو پھر سسلی کے جج سے رابطہ کیا جاتا جو ان کی مدد کرتا ۔ ان دنوں میں نیب، ایف بی آر اور اسٹیٹ بنک ابھی وجود میں نہیں آئے تھے ورنہ سسلی میں ان اداروں میں بھی وہ وفاداروں کو بٹھاتے۔ جیسے جیسے مافیا سسلی سے باہر نکلا یہ کام بھی ہونے لگا۔ پہلے یہ مافیا امریکہ گیا۔ سسلی کے قانون سے فرار ہونے والوں نے وہاں کام شروع کیا تو انہیں پتا چلا کہ وہ تو کنویں کے مینڈک تھے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ دنیا میں لوٹ مار کرنے کے لیے اور بھی بہت کچھ موجود ہے۔ جب امریکہ میں مافیا کے مزید ارکان کی گنجائش نہ رہی تو کچھ نے کینیڈا کا رخ کیا لیکن شہرت امریکی مافیا کو ملی۔ ایک دور وہ بھی آیا جب مافیا کو احساس ہوا کہ حرام کی دولت بہت کما لی‘ اب اسے ’’حلال‘‘ کیا جائے تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں اس عذاب سے نہ گزریں۔ اس کے لیے مختلف کاروبار سوچے گئے۔ بھاری معاوضوں پر کارپوریٹ وکیلوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ان کا کام یہی تھا کہ وہ بلیک منی کو وائٹ کرنے کے طریقے سوچیں۔ قانون سے کمزوریاں تلاش کریں۔ عدالتوں میں اپنے جج لگوائیں اور انہیں خریدیں۔ مجھے ماریو پزو کا کلاسک ناول گاڈفادریاد آتا ہے (اس کا اردو ترجمہ ناچیز نے کیا ہے) کیسے سب سے طاقتور مافیا چیف سوچ رہا ہوتا ہے کہ اس نے کتنے رسک لے کر دولت کمائی ہے اور یہ وکیل اس کمائی میں سے اپنا حصہ حلال سمجھ کر لے جاتے ہیں۔ گاڈفادر کو پہلی دفعہ احساس ہوا کہ اُسے اپنے ایک بیٹے کو وکیل بنانا چاہیے۔ اس پیشے میں مال ہی مال اور خطرہ زیرو ہے اور وکیل عدالتوں کو بیوقوف بنانے کا فن بھی جانتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ تقدیر اسے چھوٹے بیٹے کو بھی گاڈفادر بنانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ وہی گاڈفادر پھر سیاستدانوں کو خریدتا ہے تاکہ کانگریس میں ان کے خلاف کوئی ایسا قانون پاس نہ ہو جس سے ان کے غیرقانونی دھندوں کو نقصان پہنچے۔ گاڈفادر نے اپنے بیٹے کو سیاستدان بنانے کا نہ سوچا وگرنہ اسے یہ پاپڑ نہ بیلنے پڑتے ! گاڈفادر کے دور میں شاید صحافت کا اتنا عمل دخل نہیں تھا اس لیے صحافیوں کو خریدنے کی کہانیاں نہیں ملتیں۔ آج کل کے سیاسی گاڈفادر صحافیوں کی ایک بٹالین جیب میں رکھے بغیر سیاست کر سکتے ہیں نہ ہی کاروبار۔ اس لیے میں آپ کو نہیں بتا سکتا کہ مافیا‘ سسلی اور بعد میں امریکہ میں صحافیوں کو کیسے ہینڈل کرتا تھا۔ اب یہ ہر اس ملک کی کہانی ہے جہاں ہر طرح کے مافیا سیاست میں گھس گئے ہیں۔ زمینوں پر قبضے، اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز میں خوردبرد، سرکاری گاڑیاں، لوٹ مار، ٹیکس چوریاں، بنک قرضے معاف، تاحیات مراعات۔ کوئی سوال اٹھائے تو ایک سابق وزیراعلیٰ کی طرح فرماتے ہیں کہ باقی صحافت تو ٹھیک ہے لیکن چند کرائے کے ٹٹو ان کے پیچھے پڑگئے ہیں اور جمہوریت خطرے میں ہے ! سب کی چونچ گیلی ہورہی ہے اور سب خاموش ۔ یہ سب سسلی مافیا کے صدیوں پرانے کوڈ کے تحت کام کرتے ہیں ! اٹلی میں مافیا شاید نہ رہا ہو لیکن سسلی کے گرم میدانوںمیں گن اور بارود کی طاقت سے جنم لینے والا خاموشی کا کوڈ آج بھی پاکستان میں زندہ ہے۔ پاکستان میں سب خاموش ہیں !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved