تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     19-12-2018

ایک عظیم کتاب…( 2)

ناصر افتخار صاحب کی کتاب پڑھتے ہوئے ‘ میں بالکل shockedہو چکا ہوں۔ اب میں کتاب کے درمیان میں سے کچھ مزید اقتباسات shareکرتا ہوں ۔ 
ناصر صاحب پروفیسر احمد رفیق اختر کے شاگرد ہیں ؛لہٰذا استاد کی جھلک نظر آنا فطری ہوگا ۔اس کتاب میں نفس کی تعلیم اور مکروہ شیطانی چالوں پر روشنی کے ساتھ ساتھ ایک ایسے فتنے کا ذکر ہے ‘ جو آنے والے برسوں میں دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والا ہے ۔ 
1۔ ''اگر اللہ ہدایت نہ دے تو نفس کے علم کا کوئی فائدہ نہیں ۔ رسائی کے لیے سب سے پہلے اللہ کی یاد ضروری ہے ۔ اگر نفس یادِ خدا میں نہیں ہے تو وہ کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ سادھو سنت تو ہو سکتاہے‘ اللہ کا دوست نہیں ہو سکتا۔ ''و ما یذکرالا اولو الالباب‘‘ اہلِ عقل کے سوا مجھے کوئی یاد نہیں کرتا ۔‘‘
(یہاں میں (بلال الرشید) خود بھی سوچنے پر مجبور ہوں کہ میں نفس پہ جو لکھتا رہا ہوں ‘ وہ کس کھاتے میں گیا ہے)۔
2۔ '' اللہ رب العزت کے دربار تک رسائی صرف اور صرف اللہ خود ہی عطا کرتاہے ۔ اس رسائی کے لیے علم کے ساتھ ساتھ اللہ کی یاد کی بے پناہ ضرورت ہوتی ہے ۔‘‘
3۔ ''چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ اب مراقبہ ارتکاز کو ان لوگوں میں یوگا کے نام پر متعارف کرایا جا رہا ہے ‘ جو روحانی دنیا سے یکسر نا بلد ہیں ۔ ا س طبقے کو کارپوریٹ سیکٹر کہا جا رہا ہے ۔ ا نہیں روز مرہ کے بڑھتے ہوئے ڈپریشن کے حل کے طور پر ارتکاز (Concentration) سے روشناس کرایا جا رہا ہے۔ بڑے شہروں میں تو یہ سلسلہ کافی پھیل چکا ہے ۔ کچھ وقت مزید گزرنے کی دیر ہے ‘ ہر چھوٹے بڑے شہر میں ''یوگا‘‘ سنٹرز کھمبیوں کی طرح دکھائی دینے لگیں گے ۔ ایک نیا امتحان اس پاک سرزمین کی طرف بڑھتاچلا اتاہے ۔ 
سورۃ الناس کے ہالے میں کھڑا ہوں گم صم 
اور میرے چاروں طرف شور مچاتے شر ہیں‘‘ 
4۔''ذہن اس کائنات کی پیچیدہ ترین تخلیق ہے ۔ اس کی طاقت کا غلط اندازہ کبھی نہیں لگانا چاہئے۔ مراقبہ جو کہ مسلمانوں میں ہندوئوں اور بدھوں سے منتقل ہوا ہے ‘ اس میں نفس کو بغیر کسی علم کے صرف اور صرف مشق سے مارنے کی کوشش کی جاتی ہے‘ جبکہ اسلام میں ہرگز ایسی کوئی تعلیم تو درکنار ‘ اشارہ تک نہیں ہے ۔ یاد رہے ‘ ہمیشہ یاد رہے کہ (زخمی)نفس پھر انسان سے اس کا انتقام لیتاہے ۔ ‘‘
5۔'' ہندو اس موقع پر فائدہ اٹھانے میں سب سے آگے ہیں ۔ مراقبہ ارتکاز کے بڑے بڑے اجتماعات پوری دنیا میں ہندومت کو پھیلانے میں ہندوئوں کی بے اندازہ مدد کر رہے ہیں ۔ بدھ مت والوں کی بھی چاندی ہو گئی ہے ۔ اب مراقبہ ارتکاز کی بدولت بدھوں کے مندر بھی نئے راہبوں (Monks)سے کھچا کھچ بھرتے جا رہے ہیں ۔ 
6۔ ارتکاز کی حقیقت بیان کرنا بہت ضروری ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان لعین کا یہ پرانا طریقِ واردات ہے کہ برائی کو اچھائی کے لبادے میں پیش کرتا ہے ۔ کڑوی گولی پہ مٹھاس کا لیپ ! ‘‘
7۔ ''بے علم صوفی شیطان کا مسخرا ہوتا ہے ۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ جو عبادت اللہ اور اس اس کے رسولﷺ نے نہیں بتائی‘ وہ عبادت ؛اگر کوئی آپ کو کرنے کو کہے تو وہ آپ سے بے حد خطرناک کھیل کھیلنے لگا ہے ۔ بہت ہی تھوڑا سا عارضی نفع اور پھر بھیانک ترین نقصان۔‘‘
8۔ ''جو لوگ خدا کو پانا چاہتے ہیں ‘ ابلیس ان کا سب سے بڑا دشمن ہے ۔ یہ انہیں گھیر کر اس راستے پر لاتا ہے اور ان کی عقل ہتھیا لے اڑتا ہے ۔ یہ انسان کو اس پرندے کی طرح کر کے رکھ دیتاہے ‘ جس کے سارے پر نوچ کر اسے راستے میں پھینک دیا گیا ہو اور وہ کسی قابل نہ رہ گیا ہو ۔ ‘‘
9۔ ''الہام خیال ہی کی ایک قسم ہے‘ جو ذرا بلندی پر ہے ؛ اگر کسی کے پاس علم ہو تو وہ خیال میں آچکے الہام کو بیان میں لاسکتاہے ۔ شاعروں ‘ فنکاروں اور بعض اوقات نشہ کرنیو الوں کو بھی الہام ہو جایا کرتاہے ۔ Extra sensory perception (ESP)میں یہ سب سے پہلے ہوتا ہے ۔‘‘ 
10۔ ''جب ارتکاز کرنے والا اپنی حد سے بڑھتا ہے ‘ جیسا کہ اسے بڑھنا ہی ہوتاہے تو حواس منتشر ہو کر قابو سے باہر ہونے لگتے ہیں ۔ یہ وہ مقام ہے ‘ جہاں جذب (Absorption)پیدا ہوتاہے ۔ یہ شکر کا مقام ہے ۔ اسے فنا (Annihilation)کا مقام کہتے ہیں ۔ اب شکار جال میں پھنس چکا ہے ۔ اب بھگتنے کا وقت ہے ۔ یہ روح کی سیاہ رات (Dark night of the soul)کے عروج کا وقت ہے ۔ ‘‘ 
11۔''اب ارتکاز کرنے والے پر حسیات ‘ جذبات اور احساسات کبھی یکے بعد دیگرے اور کبھی ایک ساتھ پوری شدت کے ساتھ حملہ آور ہونے لگتے ہیں ۔ اس دوران ارتکاز کی مشق بہت بڑھ چکی ہوتی ہے ۔ یہ شیزو فرینیا (Schizophrenia)سے بھی کہیں آگے نکل جانے کا مقام ہے ۔ ‘‘
12۔ '' کبھی تو اس پر جنسی ہوس (Sexual Desire)چھا جاتی ہے اور انسان سوائے ایک جنسی درندے کے کچھ نہیں رہتا۔ ان گنت عورتوں کی مہیب طلب اسے دیوانہ کر دیتی ہے ۔ طویل مدت کے بعد اس میں سے باہر نکلتا ہے تو غصہ اپنی انتہائوں کو چھونے لگتا ہے ۔ ہر ایک کو کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے ۔ تشدد میں لذت پاتا ہے ۔ خود کو جلال میں ظاہر کر کے لوگوں کو دھوکہ دیتاہے ۔ کبھی رقت اسے گھیر لیتی ہے ۔ ہر وقت دیوانوں کی طرح روتا ہے ۔ آنسو کسی طور نہیں رکتے ۔ بغیر کسی وجہ کے بھی روتا رہتا ہے ۔ کبھی فرشتوں کو دیکھ کر پاکیزگی کی انتہائوں پر جا بیٹھتا ہے‘ تو کبھی خیالی جنات اور شیاطین اسے مدتوں دہشت و خوف کے جنگل میں بھگاتے ہیں ۔ کبھی دنیا سے اس کا دل اٹھ جاتا ہے ۔ کبھی بھوک مدتوں مری رہتی ہے اور کبھی شکم سری کی ہوس میں جانوروں کو مات کرنے لگتا ہے ۔ ایسا ایسا خوفناک جہانِ حیرت اس مقام پر ہے کہ کسی ایک میں بھی انسان پھنس جائے ‘تو ساری عمر گزر جاتی ہے۔ یہ پاگل پن کی انتہائی حدو ں میں سے ایک ہے ۔ ایسی ایسی سوچ اس کے ذہن پر اترنے لگتی ہے کہ عام آدمی کے لیے جس کا کوئی مطلب نہیں ہوتا ‘مگر وہی لا یعنی بات اس شخص کے لیے ہزار معانی لیے ہوتی ہے ۔اب شیطان نے اس کا پتا کاٹ ڈال ہے ۔ یہ اب ختم ہو رہا ہے ۔۔۔فنا ہو رہا ہے ۔۔۔‘‘
13۔شیطان قہقہہ لگا کر کہتاہوگا کہ لو وہ گیا ایک اور ۔۔۔سَکر کی بنجر وادیوں میں ۔۔۔ اب نہ پیشاب کا ہوش ‘نہ کھانے پینے کی پروا ‘ ناخن میل سے بھر جائیں گے اور جانوروں کی طرح لمبے ہو جائیں گے ۔ اب نکلے گی منہ سے گالیوں کی بوچھاڑ !‘‘
14۔''اس مقام پر بہت سے ارتکاز کرنے والوں کی خواہش ختم ہو جاتی ہے ۔ خواہش زندگی کا دوسرا نام ہے ۔ خواہش ختم ہونے کا مطلب موت ہے ‘ جس کی خواہش مکمل ختم ہو جائے ‘ وہ انسان نہیں‘ بلکہ جیتا جاگتا مردہ ہے ۔ ‘‘
15۔''ارتکاز کی طاقت کے بڑھنے سے بہت سے عجائبات دستیاب ہو جاتے ہیں ۔ وقت کے بہائو (Time Stream)پر کبھی کبھار نظر پڑنے لگتی ہے ۔ کبھی دوردراز کسی کا حال دیکھ لیا ۔ اسے کرامت سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved