16دسمبر کو اہل حدیث یوتھ پاکستان نے مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے مرکزی دفتر راوی روڈ پر ''یوتھ مبلغین کنونشن ‘‘کا انعقاد کیا۔ جس میں ملک بھر کے طول وعرض سے علماء اور مبلغین کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر نامور علماء اور مرکزی جمعیت اہل حدیث کے رہنماؤں نے بڑے خوبصورت انداز میں خطاب کیا۔ اس موقع پر مجھے بھی خطاب کی دعوت دی گئی۔ میں نے جن اپنے خیالات کو نوجوان مبلغین کے سامنے رکھا ۔ ان خیالات کو کچھ ترمیم اور اضافے کے ساتھ میں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
علماء اور طالبعلموں کوا س بات کا احساس ہونا چاہیے کہ صاحب علم ان لوگوں کے مقابلے میں افضل ہوتے ہیں ‘جن کے پاس علم نہیں ہوتا؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ زمر کی آیت نمبر9 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''کیابرابر ہو سکتے ہیں‘ وہ (لوگ )جو علم رکھتے ہیں اور وہ لوگ جو علم نہیں رکھتے۔ ‘‘لیکن علم کے حصول کے بعد عالم پر بحیثیت مبلغ بعض ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں‘ جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ علم کا ابلاغ : عالم کو علم کا ہر صورت ابلاغ کرنا چاہیے۔ ایسے لوگ‘ جو علم کو چھپاتے ہیں اور لوگوں کے استفسار کے باوجود ان کو آگاہ نہیں کرتے‘ ایسے لوگوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجیدکے مختلف مقامات پر سخت انداز میں تنبیہ کی ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 159‘160 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک وہ لوگ جو چھپاتے ہیں‘ اسے جو ہم نے نازل کیا‘ واضح دلائل اور ہدایت کو‘ اس کے بعد کہ ہم نے کھول کر بیان کر دیا اسے لوگوں کیلئے (اس) کتاب میں وہی لوگ ہیں (کہ) لعنت کرتاہے‘ اللہ ان پر اور لعنت کرتے ہیں ان پر لعنت کرنے والے‘ مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کر لی اور اصلاح کرلی اور بیان کر دیا(جسے چھپاتے رہے) تو وہی لوگ ہیں کہ میں توبہ قبول کرتا ہوں ان کی اور میں ہی توبہ قبول کرنے والا نہایت مہربان ہوں۔ ‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت 174 میں یہ بھی ارشاد فرمایا ہے : ''بے شک وہ لوگ چھپاتے ہیں‘ اسے جو اللہ نے نازل کیا ہے (اپنی )کتاب میں اور وہ لیتے ہیں‘ اس کے بدلے میں تھوڑی قیمت۔ یہ لوگ نہیں بھرتے اپنے پیٹوں میں ‘مگر آگ اور نہ بات کرے گا‘ اللہ ان سے قیامت کے دن اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کیلئے درد ناک عذاب ہے۔‘‘
2۔علم پر عمل: مبلغ کیلئے یہ بات بھی ضروری ہے ‘وہ جس چیز کی تبلیغ کر رہا ہو‘اس پر اس کا اپنا عمل بھی ہو۔ لوگوں کو سنت سے تمسک کی تبلیغ کرنا اور خود سنت سے دور رہنا ‘ لوگوں کو نماز کی تلقین کرنا اور خود نماز کو بروقت ادا نہ کرنا ‘ لوگوں کو شب زندہ داری کی تلقین کرنا اور خود شب زندہ داری سے دور رہنا‘ تبلیغ کو غیر مؤثر بنا دیتا ہے۔ کئی مرتبہ گھنٹوں کی تبلیغ کے مقابلے پر انسان کا ایک چھوٹا ساعمل ہی دیکھنے والے کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں اس حوالے سے مختلف مقامات پر بڑی خوبصورت نصیحتیں فرمائیں۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 44 میں ارشادہوا: ''کیا تم حکم دیتے ہو لوگوں کو نیکی کا اور خود بھول جاتے ہو اپنے آپ کو؛ حالانکہ تم تلاوت کرتے ہو‘ کتاب کی کیا‘ پس تم عقل نہیں کرتے۔‘‘سورہ صف کی آیت نمبر 2‘3 میں ارشاد ہوا: ''اے ایمان والوکیوںتم کہتے ہو(وہ بات )جو تم نہیں کرتے ہو۔ (یہ)بہت بڑی( بات) ہے‘ ناراضی کے لحاظ سے اللہ کے نزدیک کہ تم (وہ بات) کہو جو تم نہیں کرتے ہو۔‘‘اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ جمعہ میں یہود کے بدعمل علماء کو گدھے کے مشابہے قرار دیا۔ سورہ جمعہ کی آیت نمبر5 میں ارشاد ہوا: ''مثال(ان لوگوں کی) جو تورات کا بوجھ ڈالے گئے‘ پھر انہوں نے اس (کی تعمیل)کے بوجھ کو نہ اُٹھایا گدھے کی مثال کی طرح ہے (جو بڑی بڑی) کتابیں اُٹھائے ہوئے ہو۔ ‘‘
3۔ دعوت ِدین کے کام میں استقامت: دعوت دین کا کام استقامت کا بھی طلب گار ہے۔ انبیاء اور رسل اللہ کی زندگیاں ہمارے لیے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہے۔ حضرت نوح ؑ‘ حضرت ابراہیمؑ‘ حضرت موسیٰ ؑ اور نبی کریم ﷺ نے اس حوالے سے غیر معمولی کردار کا مظاہرہ کیا۔ سیدنا نوحؑ ساڑے نو سو برس تک اپنی بستی کے لوگوں کی مخالفت اور دیوانہ اور مجنوں کہلوانے کے باوجود بھی دعوت دین کے راستے پر شد ومد سے کاربند رہے۔ حضرت ابراہیم ؑنے قوم اور وقت کے حکمران کی مخالف کو مول لے لیا اور جلتی ہوئی آگ میںاترنا گوارہ کر لیا‘ لیکن دعوت دین سے دستبردار نہ ہوئے۔ حضرت موسیٰ ؑنے وقت کے بااثر ترین لوگوں کا مقابلہ کیا ۔ آپ ؑ نے فرعون کی رعونت‘ قارون کے سرمائے‘ شداد کی جاگیر اور ہامان کے منصب کوخاطرمیں لائے بغیر دعوت ِدین کے عظیم کام کو جاری وساری رکھا۔ رسول اکرمﷺ کی زندگی بھی ہمارے لیے بہترین نمونے کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپؐ کے راستے میں کانٹوں کو بچھایا گیا‘ آپؐ کو تکلیف اور ایذاء دی گئی‘ آپؐ کے گلو ئے اطہر میں چادر کو ڈال کر کھینچا گیا‘ حالت نماز میں آپؐ کی بے ادبی کی گئی‘ طائف کی وادی میں آپؐ کو لہو رنگ بنایا گیا‘ لیکن آپ نے ان تمام تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور دعوت دین کے عظیم عمل جاری وساری رکھا۔ایک مبلغ کو دعوت دین کے راستے میں آنے والی ابتلاؤں اور تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہیے اور دباؤ ‘ خوف‘ لالچ کی پروا کیے بغیر اچھے ‘ برے کٹھن اور سازگار حالات میں دعوت دین کے عمل کو جاری رکھنا چاہیے۔ ہمیں حضرت نوح ؑاور دیگر انبیاء علیہم السلام کی سیرت سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ جنہوں نے صبح وشام اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی دعوت دی اور اس عمل کو بغیر کسی انقطاع کے تسلسل سے جاری رکھا۔ کئی مرتبہ انسان کسی اچھے عمل کو اختیار کرنے کے بعد اس کو منقطع کر دیتا ہے اور اس کا خاتمہ اس انقطاع کے دوران ہو جاتا ہے یہ بات کسی بھی اعتبار سے خوش آئند نہیں ؛ اگر انسان کوئی اچھا عمل کرتا ہے تو اس کو ہر صورت جاری رکھنا چاہیے‘ تاکہ اس کا خاتمہ بھی اسی اچھے عمل پر ہو۔
4۔ اجر کی امید اللہ سے رکھنا: مبلغ کو اجر کی امید اللہ تبارک وتعالیٰ سے رکھنی چاہیے۔ سورہ شعراء میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت نوحؑ‘حضرت ہودؑ‘ حضرت صالحؑ ‘ حضرت شعیبؑ کا ذکر کیا کہ ان تمام انبیاء نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت دینے کے بعد اجر کی امید اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کی ذات سے وابستہ کیے رکھی؛ اگر مبلغ دنیا میں اجر کی امید لوگوں سے رکھے گا‘ تو اس کی حوصلہ شکنی ہو گی اور دعوت کے کام میں خلوص بھی باقی نہیں رہے گا‘ جبکہ اجر کی امید تبارک وتعالیٰ سے رکھنے کی صورت میں دنیا میں حوصلہ شکنی یا مناسب حوصلہ افزائی نہ ہونے کی صورت میں بھی مبلغ کا اجر اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں سلامت رہے گا۔
5۔ مایوسی سے اجتناب: ہر داعی اور مبلغ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی دعوت مادی اعتبا ر سے نتیجہ خیز ہو اور لوگ اس کی دعوت کو سن کر متاثرہوںاور اپنے عقائد اور اعمال کی اصلاح کریں‘ مگر کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ داعی مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔ جس کے نتیجے میں کئی مرتبہ اس پر مایوسی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ داعی کو اپنے دعوتی عمل کے نتیجے میں مایوسی کو اپنے قریب نہیں آنے دینا چاہیے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کیلئے کی جانے والی کوششوں کو ہر صورت جاری رکھنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ یسیٰن میں ان نبیوں کا ذکر کیا‘جن کی قوم کے لوگوں نے ان کی تکذیب کی‘ لیکن انہوں نے دعوتی عمل کو جاری وساری رکھا ۔ قیامت کے دن بہت سے انبیاء چھوٹی جماعتوں کے ساتھ جب کہ بعض دو افراد کے ساتھ ‘ بعض ایک فرد اور بعض اکیلے ہی اٹھائے جائیں گے ۔داعی کو بھی اپنی دعوت کے مادی نتائج سے بے پرواہ ہو کر دین کی دعوت کے عمل کو جاری وساری رکھنا چاہیے اور اگر اس کی دعوت کو سن کر لوگ قائل نہیں بھی ہوتے‘ تو اس وجہ سے دعوت دین کے مثبت کام کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ سباء کی آیت نمبر 46 میں ارشاد فرمایا : ''آپ کہہ دیجئے بے شک صرف ایک (ہی بات) کی نصیحت تمہیں کرتا ہوں یہ کہ تم کھڑے ہو جاؤ اللہ کے لیے دو دو اور ایک ایک کرکے ۔‘‘
6۔ حکیمانہ اسلوب: دعوت دین کا کام حکیمانہ اسلوب کے ساتھ انجام دینا چاہیے اور اس حوالے سے ایسی نصیحت کرنی چاہیے ‘جو سننے والے کے دل پر مؤثر ہو ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑاور حضرت ہارونؑ کو جس وقت فرعون کے پاس روانہ کیاتو انہیں حکم دیا ''پس تم دونوں کہو اس سے نرم بات شاید وہ نصیحت پکڑ لے یا ڈر جائے۔ ‘‘اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نحل کی آیت نمبر 125میں ارشاد فرماتے ہیں: ''(اے نبی) بلائیے اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اور بحث کیجئے‘ ان سے اس (طریقہ) سے (کہ) جوسب سے اچھا ہو۔ ‘‘
مذکورہ بالا ذمہ داریوں اور خصائص کو مدنظر رکھ کے ایک داعی کامیابی سے دعوت کے عمل کو جاری رکھ سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو دعوت دین کا کام اچھے طریقے سے انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین)