تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     20-12-2018

جنوبی پنجاب اور خالی خزانہ

بندہ کیا کرے؟ جانے والے کچھ بتاتے نہیں۔ میرا مطلب ہے جانے والے حکمران کچھ بھی سچ نہیں بتاتے اور آنے والوں کی کوئی مانتا نہیں۔ عوام بھی کیا کریں؟ ایک عرصے سے ہر بار انہیں یہی سننے کو ملتا ہے کہ ''ہمیں خزانہ خالی ملا ہے‘‘۔ پیپلز پارٹی جاتی تھی تو مسلم لیگ کہتی کہ ہمیں خزانہ خالی ملا ۔ پیپلز پارٹی کو بھی یہی گلہ تھا اور اب تحریکِ انصاف کا بھی یہی رونا ہے۔ مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ ہم جاتے ہوئے بھرا خزانہ چھوڑ کر گئے ہیں اور پی ٹی آئی کا فرمانا ہے کہ سارا خزانہ ،جو بظاہر بھرا ہوا لگتا تھا، اس میں حساب کے ہیر پھیر سے تو سب کچھ دکھایا گیا‘ لیکن حقیقت میں اس خزانے میں قرضوں اور ان کی ادائیگی والی قسطوں کے لیے بھی رقم موجود نہیں تھی‘ باقی کی تو بات چھوڑیں۔
ملک کے تقریباً سارے ترقیاتی کام بند ہیں۔ ملتان خانیوال موٹر وے چل تو رہی ہے لیکن نہ چلنے کے برابر۔ وہاڑی روڈ سے شروع ہونے والی موٹر وے کو شہر کے دیگر حصوں سے خانیوال جانے والے مسافر استعمال ہی نہیں کرتے کہ یہ روٹ اتنا لمبا ہے کہ جب تک بندہ موٹر وے پر چڑھتا ہے تب تک وہ ملتان سے خانیوال کا تین چوتھائی سفر طے کر چکا ہوتا ہے۔ صرف نئے اڈے سے چلنے والی بسیں اسے استعمال کرتی ہیں یا ممتاز آباد اور وہاڑی روڈ کے رہائشی۔ خانیوال سے لاہور سیکشن کا عرصے سے سن رہے ہیں کہ آج چلا، کل چلا۔ لیکن چل کچھ بھی نہیں رہا۔ خانیوال سے لاہور اور اسلام آباد جانیوالی موٹر وے کا پل، جو ملتان خانیوال روڈ سے اوپر سے گزر رہا ہے، اتنی دیر سے بن رہا ہے کہ اگر مستقل طور پر چار مزدور بھی اس پر لگے ہوتے تو گزشتہ ماہ چالو ہو چکا ہوتا۔ تقریباً ایک سال سے سڑک یکطرفہ چل رہی ہے۔ کبھی ایک سائیڈ بند کر دی جاتی ہے اور کبھی دوسری۔ چھ ماہ میں تو ستون بنے اور اب چھ سات ماہ سے بیم اور لینٹر ڈالا جا رہا ہے ۔ابھی وہ سڑک، جس پر ٹریفک چل رہی ہے، اس کے اوپر کافی سارا کام ہونا باقی ہے۔
افراتفری میں جاتے جاتے اپنے شاہد خافان عباسی صاحب عبدالحکیم لاہور موٹروے، گوجرہ تا ٹوبہ ٹیک سنگھ موٹروے اور ملتان تا شجاعباد موٹروے کا افتتاح فرما گئے تھے۔ تب نہ ان تینوں سیکشنوں کے ٹال پلازے مکمل ہوئے تھے۔ نہ سائیڈوں پر باڑ لگی تھی اور کئی جگہوں پر تو سڑک کی آخری اسفالٹ والی تہہ ہی بچھائی گئی تھی؛ تاہم اپنے اقتدار کے خاتمے سے چار پانچ دن پہلے روزانہ کی بنیاد پر انہوں نے ان تین سیکشنوں کا افتتاح فرمایا اور گھر کو چل دیے۔ تینوں سیکشن آج تک مکمل نہیں ہوئے لہٰذا ان پر ٹریفک بھی نہیں چل رہی۔ ہاں کئی جگہوں پر لوگ بلا اجازت اور بلا ٹال ادا کیے اسے استعمال کر رہے ہیں جیسے گزشتہ چند روز سے لوگ گوجرہ ٹوبہ ٹیک سنگھ والا سیکشن استعمال کر رہے ہیں۔
میاں شہباز شریف نے اپنے دور اقتدار میں یعنی آٹھ جون 2008 سے آٹھ جون 2018 تک دس سال کے عرصے میں جو چاہا بنایا اور جس کام کو دل چاہا لٹکایا۔ مثلاً لاہور میٹرو بنانی تھی بنا لی۔ اسلام آباد راولپنڈی میٹرو بنانی تھی، وہ بھی بنا لی۔ ملتان میٹرو ہماری تمام تر مخالفت کے باوجود بنانے کی ٹھان لی تھی، سو بنا کر دم لیا۔ لاہور میں اورنج ٹرین چلانی تھی اس پر دو سو ارب روپے پھونک دیے۔ وہ تو درمیان میں حکم امتناعی وغیرہ نے کھنڈت ڈال دی وگرنہ وہ بھی جانے سے پہلے پہلے چلا دیتے تاہم اب ان کا یہ پراجیکٹ اتنا زیادہ بن چکا ہے کہ چلانا ہی پڑے گا۔ لیکن وہ ہم جنوبی پنجاب والوں کو لاروں پر اور وعدوں پر ٹرخاتے رہے۔ ہم ایک عرصے سے شور مچا رہے تھے کہ یہاں صحت کے حوالے سے حالات بڑے دگرگوں ہیں‘ ملتان کے لیے پچاس کی دہائی کے آخر میں بننے والا نشتر ہسپتال اب اس علاقے میں رہنے والوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کبھی کا ناکافی ہو چکا ہے اور اس پر طرہ یہ کہ یہ ہسپتال خیبرپختونخوا کے ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن، سندھ کے ضلع کشمور اور بلوچستان کے لورالائی ڈویژن تک کے مریضوں کے لیے آخری علاجگاہ ہے اور اس میں آنے والے مریضوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اس ہسپتال جیسے دو تین مزید ہسپتال بننے چاہئیں۔ ہمیں ہر بار نشتر ٹو کا لالی پاپ دیا گیا اور میاں صاحب جاتے جاتے اس کا اعلان فرما گئے۔ ان کا اعلان اب صرف کسی فائل کی زینت ہے اور وہ فائل کسی دفتر کی کسی الماری میں دم توڑ رہی ہے۔ جو کام انہوں نے کرنے تھے وہ کر لیے اور جس کا صرف وعدہ کرنا تھا اس کا وعدہ وہ جاتے جاتے کر گئے۔ مسلم لیگی اب ہسپتال کا کریڈٹ بھی خود سمیٹیں گے کہ اس کا اعلان میاں نواز شریف نے کر دیا تھا۔ اگر اس پر عملی کام کرنا ہوتا تو دس سال بہت تھے اور وہ اسے اپنے دورِ حکمرانی میں مکمل کر سکتے تھے مگر اس پر کام کرنا ان کی نہ تو ترجیح تھی اور نہ ہی ان کی نیت تھی۔
ملتان کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ، معاف کیجئے کا منہ پر چڑھا ہوا تھا اس لیے لکھ دیا، اب اس کا نام چوہدری پرویز الٰہی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ہے اور ظاہر ہے اس کے تو نام سے ہی میاں شہباز شریف صاحب کو چڑ تھی۔ کئی سال تک اس کا توسیعی منصوبہ لٹکا رہا اور اس سے سامنے والی کمرشل بلڈنگز اور ہوٹل کے رہائشی کار پارکنگ کا کام لیتے رہے۔ بڑی مشکل سے اس پر کام شروع ہوا اور اس سست رفتاری سے کہ چیونٹی بھی یہ رفتار دیکھ لے تو مارے فخر کے پھول جائے کہ اس سے زیادہ سست رفتار ابھی دنیا میں موجود ہیں۔
سنا ہے ایک میٹنگ میں جب اس پراجیکٹ کے لئے رقم مانگی گئی تو بتایا گیا کہ اس پراجیکٹ کو دینے کے لیے رقم موجود نہیں۔ کسی نے کہا کہ پنجاب کا اس سال کا ترقیاتی بجٹ تقریباً ساڑھے چھ سو ارب روپے ہے‘ اس میں سے اس ہسپتال کے لیے چالیس پچاس کروڑ نہیں نکل سکتے؟ جو اب ملا گزشتہ حکومت جاتے جاتے اس سال کے ساڑھے چھ سو ارب روپوں میں سے قریب چار سو ارب روپے پیشگی استعمال کر گئی ہے اور ایڈوانس ادائیگیاں کر گئی ہے۔ باقی صرف اڑھائی سو ارب روپے بچے ہیں اور یہ رقم تنخواہیں پوری کر جائے تو غنیمت ہے۔ جس محکمے کا پوچھیں پتا چلتا ہے اس کا بجٹ لاہور شفٹ ہو گیا تھا۔ اس کا بجٹ ایڈوانس میں خرچ ہو چکا ہے اور اس کا بجٹ کسی اور پراجیکٹ پر شفٹ ہو چکا ہے۔ گزشتہ حکومت کی اس Financial Mismanagementکے کمالات بظاہر تو نظر آ رہے تھے کہ میٹرو بن رہی ہے۔ اورنج ٹرین کے اونچے اونچے ستون ایک قطار میں کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ موٹروے دھڑا دھڑ بن رہی ہے۔ قرضے لیے جا رہے ہیں اور موج میلہ ہر جگہ نظر آ رہا ہے لیکن بے شمار ضروری چیزیں جو عام آدمی کو درکار ہیں ان کا کوئی پرسان حال ہی نہیں تھا۔
عالم یہ ہے کہ نشتر ٹو کے لیے رقم میسر نہیں ترقیاتی بجٹ ایڈوانس میں استعمال ہو چکا ہے۔ کارڈیالوجی کی توسیع درمیان میں رکی ہوئی ہے کہ اس سال کا ترقیاتی بجٹ جانے والے حکمران پیشگی استعمال کر گئے ہیں۔ صرف انہی دو منصوبوں کا یہ حال نہیں۔ جنوبی پنجاب کے جس بھی منصوبے کو ہاتھ لگائیں یہی حال ہے۔ ادھر جس محکمے کے پاس بھی چار پیسے موجود تھے وہ بھی اٹھا کر لاہور شفٹ کر دیے اور جنوبی پنجاب کو وعدۂ فردا پر ٹرخا دیاگیا۔ نشتر کا ادویات کا بجٹ بھی کہیں اور خرچ کر دیا اور عالم یہ ہے کہ ادویات کی خریداری کے لیے بجٹ نہیں ہے۔ اوپر سے ایک سے ایک کرپٹ اور بے ایمان آدمی اس ہسپتال میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ بنا کر بھیجا جا رہا ہے۔ رہی سہی کسر انہوں نے نکال دی ہے۔
ایک تو خزانہ خالی ہے ‘اوپر سے جنوبی پنجاب ابھی بھی حکمرانوں کی حقیقی ترجیح نہیں حالانکہ وزیراعلیٰ جنوبی پنجاب کا ہے مگر وہ بھی کیا کرے؟ جس بندے کا خاندان عشروں سیاست اور اقتدار میں رہنے کے باوجود اپنے گھر بجلی نہ لگوا سکے اس نے باقیوں کے لیے کیا کرنا ہے؟ مانتے ہیں خزانہ خالی ہے لیکن لگتا ہے کہ جنوبی پنجاب کے لیے تو خاص طورپر ہی خالی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved