جو کہانی میں بیان کرنے والی ہوں وہ اتنی تعفن زدہ ہے کہ آسمان بھی اس کی سڑاند محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔افسوس، بے کار اور بے سروپا معاملات نے اس قوم کی قوت ِ شامہ پر اتنی تہیں چڑھا رکھی ہیں کہ وہ اس کی بدبو محسوس نہیںکر پاتی ۔زیادہ عرصہ نہیں گزرا ،ایک منظر تشکیل پارہا تھا جس میں اعتزاز احسن اور علی احمد کرد ایک دوسرے کے خلاف خنجر بکف تھے اوردوسری طرف بیرسٹر اکرم شیخ اور قاضی انور ایک دوسرے کی تاک میں تھے۔ رستم زماں کی روش اختیار کرنے کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ اٹھارویں ترمیم تھی۔ عمران خان اور ٹی وی پروگراموں کے کچھ میزبان بھی شریک ِ معرکہ ہو کر این آراو اور صدر صاحب کی طرف سے کی جانے والی مبینہ بدعنوانی کی بحث میں‘ جسے بابر اعوان کے بیانات مہمیز دیتے تھے، دن رات ایک کیے ہوئے تھے۔ بہت سے ناقدین کا خیال تھا کہ نواز شریف بھی صدر زرداری کے نقش ِ قدم پر چلتے ہوئے ’’آزاد عدلیہ ‘‘ کے خلاف صف آراء ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ تیسری مدت کے لیے وزیر ِ اعظم بننے کے خواہش مند ہیں۔ یہ سب لوگ اپنے اپنے روایتی مورچوں میں بیٹھے اصل معاملات‘ جو ملک کی بنیادوں کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر دینے والی بدعنوانی ہے، سے صرف ِنظر کیے ہوئے تھے ۔ یہی صورت ِ حال آج بھی ہے۔ کل این آراو کی بحث تھی، آج کوئی اور معاملات ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو یاد ہو ،ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل پاکستان نے آرمی چیف کو ایک خط لکھا تھا۔ اس خط کے مطابق۔۔۔’’ چند اعلیٰ افسروں کے افعال اور فوج کے لیے خریداری کرنے والے اداروں کی طرف سے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی وجہ سے پاک فوج کی ساکھ خطرے میں ہے۔ ان اداروں میں موجود کچھ افراد نے ذاتی مفاد کی خاطر غیر معیاری اسلحے کی خریداری سے ملکی سلامتی کو دائو پر لگا دیا ہے۔ ‘‘ہو سکتا ہے کہ آپ کو شیر شاہ پل کراچی کے انہدام کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد، اُن کی بیوائیں اور یتیم ہونے والے بچے بھی یاد ہوں ۔ یہ پل کسی قدرتی آفت کے نتیجے میں نہیں بلکہ تعمیر کرنے والے انجینئرز کی غفلت کی وجہ سے گرا تھا۔ ہلاک شدگان کے ورثا کو ، جیسا کہ ہوتا ہے، حکومت کی طرف سے امدادی رقوم کے چیک دے دیے گئے ہوں گے ۔ اس سانحے پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی سوموٹو نوٹس لیا تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ این ایچ اے کی تعمیرات کا معیار اتنا پست کیوں اور کیسے ہو گیا کہ پل تعمیر کے کچھ عرصہ بعد ہی زمیں بوس ہوگیا؟ این ایچ اے اسّی کی دہائی کے اختتام پر قائم کیا گیا، اُس وقت اس کا نام انڈس ہائی وے بورڈ تھا۔اس کے ذمے وفاق کے زیر ِ انتظام سڑکوں کی تعمیر و مرمت کا کام ہے۔اپنے قیام کے ساتھ ہی اس کا کئی اداروں کے ساتھ الحاق ہو گیا۔ بدعنوانی کے ان مراکز میں دفاعی اداروں کے درجنوں ریٹائرڈ انجینئرز اور سرکاری افسران عوام کے پیسے پر پلتے ہوئے ارب پتی ہو چکے ہیں۔ان کے استعمال میں کئی کئی بی ایم ڈبلیو گاڑیاں ہیں۔ انھوںنے اپنے ذاتی ادارے بھی قائم کر رکھے ہیں۔ این ایچ اے نے بڑے فخر سے اپنی ویب سائٹ پر تحریر کیا ہوا ہے کہ نیشنل ہائی ویز کے لیے پلان، ترقی، تنظیم،تعمیراور مرمت کے کام سرانجام دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ ان کاموں کی وجہ سے اس کے ملازمین کو بہت سے مواقع مل جاتے ہیںکہ وہ بہتی گنگامیں ہاتھ دھو لیں۔ اس اتھارٹی کا قابل ِ استعمال بجٹ اب کروڑوں ڈالرز تک پہنچ چکا ہے۔ اس ارزاں دولت کے خزانے تک ا س کے ساتھ کام کرنے والوں کی رسائی دشوار نہیں ہوتی۔ ذرائع کا کہنا ہے : ’’اتنی زیادہ دولت سے انکار کرنا آسان نہیں ۔ حتیٰ کہ وزارت ِ مواصلات اور پلاننگ کمیشن کے افسران کو بھی‘ جنہوںنے اس کی نگرانی کرنی ہوتی ہے، اس اتھارٹی کے ٹھیکداروںنے خرید رکھا ہوتا ہے۔ نیسپاک اس اتھارٹی کا سول ادارہ ہے ۔ اس کی ذمہ داری تعمیراتی منصوبوں کے بارے میں مشاورت دینا، ڈیزائن تیار کرنا، تعمیر کی نگرانی کرنا اور کوالٹی کنٹرول کرنا ہے۔ اگر آپ این ایچ اے کی بیلنس شیٹ دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ پچاس فیصد سے زائد ٹھیکے ایف ڈبلیو او اور این ایل سی کو دیے جاتے ہیں اور ان منصوبوں میں مشاورت کی ذمہ داری نیسپاک کی ہوتی ہے۔ کچھ آیا سمجھ میں ؟ان چاروں اداروں میں دفاعی اداروںکے ریٹائرڈ فوجی افسران ہوتے ہیں۔ ان سب میں آپس میں زبردست شراکت پائی جاتی ہے۔ ہر تعمیراتی ٹھیکے میں کوئی انجینئر ہوتا ہے جو ٹھیکیدار، گاہک،اور کنسلٹنٹ کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات کوطے کرتا ہے۔ اگر کہیں ڈیزائن میں تبدیلی کی ضرورت پیش آئے توبھی اس کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ یہاں زیادہ تر انجینئرز دفاعی اداروں کے ریٹائرڈ افسر ہیں اور ان کو این ایچ اے سے براہ ِ راست تنخواہ ملتی ہے۔ میرے ذرائع نے کچھ اندر کی بات بتائی ہے کہ ’’مال ‘‘ کیسے تقسیم ہوتا ہے ۔ اس میں تفصیل میں جانا تو مناسب نہ ہو گا لیکن ہر بل پر کچھ طے شدہ رقم ہے جو اعلیٰ افسروں کی جیب میں چلی جاتی ہے۔اگر آپ جانتے ہیںکہ ہر ماہ اربوں روپے کے بل ادا کیے جاتے ہیں تو پھر ہر بل پر وصول ہونے والی رقم کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ این ایل سی کا ایک افسر‘ جو فرائڈ چکن کا رسیا تھا‘کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ جب وہ ایک دور افتادہ مقام پر تعینات تھا تو وہ اپنے ڈرائیور کو سات سو کلو میڑ دور فرائڈ چکن لانے کے لیے بھیجتا تھا۔ اسے کہتے ہیں مالِ مفت دلِ بے رحم۔ عوام کی رگوںسے نچوڑی گئی ٹیکس کی رقوم پر اس طرح ہاتھ صا ف کیے جارہے ہیں او ر ہم بے سروپا باتوں میںا لجھے ہوئے ہیں۔ این آر او کی بحث ختم ہوتی ہے تو کسی نظریے کی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ درست ہے کہ عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان نے بدعنوان سیاست دانوں کے گرد رسی تنگ کی ہے لیکن ایک آدمی تمام معاملات نہیں سدھارسکتا۔ کیا آرمی چیف اپنے ادارے کی ساکھ بچانے کے لیے قدم اٹھائیںگے ؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved