تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     21-12-2018

برٹش ایئرویز کی آمد سے خوفزدہ طبقہ

برٹش ایئرویز کی دوبارہ پاکستان آمد موجودہ حکومت کی بڑی کامیابی ہے۔اگرچہ احسن اقبال اپنے نمبر ٹانکنے کی کوشش میں ہیں لیکن اگر انہیں کسی نے گھاس ڈالی ہوتی تو یہ اقدام سابق دور میں ہی ہو گیا ہوتا۔ یہ خبر خوشگوار جھونکے کی مانند دنیا بھر میں پھیلی حتیٰ کہ آئی ایس پی آر نے بھی یہ پیغام جاری کیا کہ پاکستان درست سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ دس برس قبل میریٹ ہوٹل میں دھماکے کے بعد برٹش ایئرویز نے پاکستان کیلئے اپنے آپریشنز معطل کر دئیے تھے۔ موجودہ حکومت کی کاوشوں اور حالات کی بہتری کو دیکھتے ہوئے مذکو رہ ایئر ویز نے آپریشنز بحال کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد اگلے سال جون سے لندن سے براہ راست ہفتے میں تین دن اسلام آباد کیلئے فلائٹ آپریشن شروع ہو جائے گا۔ پاکستان میں فضائی آپریشنز کے لئے تھری کلاس 787ڈریم لائن طیارے استعمال کئے جائیں گے۔ڈریم لائنر کے مختلف ماڈل ہیں جن میں 214سے لے کر 335مسافروں کی گنجائش ہوتی ہے۔اس میں 35کلب ورلڈ بزنس کلاس فلیٹ بیڈ سیٹیں بھی ہوتی ہیں اور اس کی وجہ اس کی بعض طویل فلائٹس ہیں جو لندن سے براہ راست ٹورنٹو اور نیویارک تک جاتی ہیں۔ یہ سیٹیں انتہائی مہنگی ہیں لیکن آرام اور تنہائی پسند اور پرائیویسی کی خواہشمند بزنس کلاس بہرحال انہیں افورڈ کرتی ہے۔برطانیہ میں پندرہ لاکھ پاکستانی موجود ہیں جو براہ راست اس سروس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ اس کے علاوہ سیاحوں کی بڑی تعداد پاکستان آئے گی جس سے زرمبادلہ بڑھے گا۔ برٹش ایئرویز بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو گی جس کی دیکھا دیکھی مزید عالمی ایئرلائنز پاکستان آئیں گی جس کے بعد وہی ملک جو دہشت گردی اور خراب معاشی حالات کے باعث بیرونی دنیا سے کٹ کر رہ گیا تھا‘ ایک مرتبہ پھر دنیا کی نگاہوں کا مرکز بن جائے گا۔بعض لوگ یہ دلیل دے رہے ہیں کہ اس اقدام سے پاکستان کی اپنی قومی ایئرلائن کو معاشی نقصان ہو گااور لوگ برٹش ایئر ویز پر سفر کو ترجیح دیں گے۔سوال یہ ہے کہ پچھلے دس برس سے تو برٹش ایئرویز یہاں نہیں آ رہی تھی تو پھر پی آئی اے نے اس چیز کا کتنا فائدہ اٹھا لیا؟ یہ گھاٹے سے نکل کر نفع بخش ایئرلائن کیوں نہ بن گئی؟ کیا دس برس تھوڑے ہوتے ہیں؟دس برس میں تو ایٹم بم سے تباہ حال جاپان اپنے پائوں پر کھڑا ہو گیا تھا۔ کیا ہم بیرونی دنیا کو صرف اس لئے یہاں آنے سے روک سکتے ہیں کہ اس سے ہماری مقامی کمپنیوں کو نقصان ہو گا؟ آپ دبئی کی مثال لے لیں۔ دبئی کے اپنے پاس سوائے صحرا اور معمولی سے تیل کے اور ہے کیا؟ لیکن اس وقت دبئی دنیا کا معاشی اور سیاحتی مرکز بن چکا ہے۔ دبئی انٹرنیشل ایئرپورٹ دنیا کے مصروف ترین ایئرپورٹس میں شمار ہوتا ہے اور سالانہ پانچ لاکھ طیارے ساڑھے آٹھ کروڑ مسافروں کو یہاں لاتے اور لے جاتے ہیں جس سے دبئی کو چھبیس بلین ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے جبکہ سیاحت سے دبئی سالانہ اڑسٹھ بلین ڈالر کما رہا ہے۔دنیا میں کسی نے کوئی چیز بیچنی ہو تو وہ اسے پہلے دبئی بھیجتا ہے اور پھر وہاں سے آگے فروخت ہوتی ہے۔اگر دبئی میں تمام ممالک کے فلائٹس آپریشن کی اجازت نہ ہوتی تو یہ سب کیسے ممکن ہوتا۔ ہماری قومی ایئر لائن کے مسائل کچھ اور ہیں۔اسے ماضی کی حکومتوں میں ہونے والی سیاسی بھرتیوں نے کاٹ کھایا ہے۔ ویسے بھی جس ملک میں آپ ایسے شخص کو وزیراعظم بنا دیں جو اپنی نجی ایئرلائن چلاتا ہو تو وہ کیسے قومی ایئرلائن کو نفع بخش بننے دے گا۔ وہ تو چاہے گا کہ اس کے حالات زیادہ سے زیادہ خراب ہوں تاکہ اس کی اپنی دکانداری چل سکے۔اس پر مستزاد یہ کہ سینیٹر مشاہد اللہ کے پورے خاندان کو پی آئی اے امریکہ کا ٹھیکہ دے دیا گیا۔ اگر ہم اس دلیل کو مانیں گے کہ برٹش ایئرویز کے آنے سے اسے مالی فوائد حاصل ہوں گے تو پھر ہمیں گوگل‘ فیس بک اور دیگر ویب سائٹس پر بھی پابندی لگا دینی چاہیے کیونکہ یہ ساری عالمی کمپنیاں ہیں اور پاکستان سے اربوں روپے کما کر باہر لے جا رہی ہیں۔ ایسی دلیلیں دینے والوں کو گوگل اور فیس بک جیسی مقامی کمپنیاں فوری طور پر لانچ کردینی چاہئیں تاکہ پیسہ باہر جانے کی بجائے پاکستان میں ہی رہے۔ سوال یہ ہے کہ جن ملکوں میں برٹش ایئرویز یا اس جیسی دیگر ایئرلائنز کے آپریشنز چل رہے ہیں کیا وہاں کی ملکی یا مقامی ایئرلائنز بند ہو چکی ہیں؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم ایسی ایئرلائنز کے آپریشنز کے معیار سے سیکھیں اور انہیں اپنا نے کی کوشش کریں‘ اس کی بجائے ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ہمارے ملک میں قدم تک نہ رکھے اور ہم اپنے حال میں یونہی آنکھیں موندے مست پڑے رہیں۔اس طرح دنیا سے کٹ کر ہم ترقی کریں گے یا مزید تنزلی کی جانب گامزن ہوں گے؟قومی ایئرلائن کو بہتر کرنا ایک الگ ایشو ہے اور بیرونی ایئرلائنز کی آمد دوسرا ایشو۔ دونوں کو گڈ مڈ کرنا سراسر بیوقوفی ہے۔
میں نے فری لانسنگ میں اپنے چند کالموں میں فائیور ڈاٹ کام کا بھی ذکر کیا تھا۔ اس ویب سائٹ سے ڈیڑھ لاکھ پاکستانی کام کر کے سالانہ اربوں روپے کما رہے ہیں لیکن اس کا بیس فیصد حصہ بطور کمیشن کمپنی کو بھی جاتا ہے کیونکہ وہ یہ سروس فراہم کر رہی ہے کہ کوئی بھی شخص کسی بھی ملک میں بیٹھ کر آن لائن کام کر کے پیسہ کما سکتا ہے۔ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ کمپنی کس ملک سے آپریٹ کر رہی ہے تو جناب یہ اسرائیلی کمپنی ہے اور اس کا ہیڈ کواٹر تل ابیب میں ہے۔ اس طرح تو ایک بیانیہ یہ بھی بنایا جا سکتا ہے کہ دوسرے لفظوں میں ہم اسرائیل کی مالی سپورٹ کر رہے ہیں اور اسرائیل ان پیسوں سے ہتھیار خرید کر معصوم فلسطینیوں کا قتل عام کر رہا ہے اور ان پر فاسفورس بم برسا رہا ہے۔ بودی دلیلیں اگر بنانی ہوں تو بے شمار بنائی جا سکتی ہیں۔ پاکستان میں اس وقت بھی کئی عالمی کمپنیاں ایسی ہیں جو پانی سے لے کر دودھ اور چاکلیٹ سے لے کر جوسز تک بیچ رہی ہیں۔ اس کے باوجود گزشتہ ایک دو عشروں میں ایک دو کمپنیاں مقامی طور پر اتنی تیزی سے ابھریں کہ پاکستانی عوام نے کم قیمت ‘ ملکی کمپنی اور بہتر معیار کو ترجیح دیتے ہوئے ان سے خریداری کو ترجیح دینا شروع کر دی جس کے نتیجے میں مقامی بیکری اور ڈیری پراڈکٹس کا شیئر بڑھا اور غیرملکی کمپنی کا شیئر کم ہو گیا۔ بلکہ مقامی کمپنیوں اور بیکریوں نے دنیا بھر میں برانچیں بنانا شروع کر دیں۔یہی کام ہم اپنی قومی ایئرلائن کے حوالے سے بھی کر سکتے ہیں۔ عالمی کمپنیوں کو تو پاکستان میں کام کرنے کے لئے طرح طرح کے اخراجات ادا کرنے پڑتے ہیں‘ جبکہ ہمارا تویہ اپنا ملک ہے اور یقین کریں ہمارے پاس اگر کمی ہے تو صرف محنت اور کمٹمنٹ کی۔ اگر ہم یہ دو چیزیں اپنے اندر لے آئیں تو پھر ہمیں کسی بھی بیرونی کمپنی سے خطرہ رہے گا نہ یہ ڈر کہ اس سے ہماری قومی ایئرلائن کے فضائی روٹ متاثر ہوں گے۔ویسے بھی ایئر لائن کے کسی ملک میں آپریشنز کا مطلب صرف اس کے جہازوں کی آمدو رفت نہیں ہوتا بلکہ اس سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں مضبوطی آتی ہے۔ دو سال قبل تک پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی تھا لیکن اس وقت یہ مسئلہ دوسرے تیسرے نمبر پر چلا گیاہے۔ دوسرے ممالک کو یہ معلوم ہو چکا ہے کہ اب اگر وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے تو ان کا پیسہ محفوظ رہے گا اور پہلے کی طرح ان سے کک بیکس اور کمیشن وصول نہیں کئے جائیں گے۔اور یہ بھی سن لیں کہ عمران خان بیرون ملک جا کر کرپشن کے حوالے سے بیانات اس لئے دیتے تھے کہ دنیا کو یہ پیغام دیا جائے کہ اب تک اگر پاکستان برباد ہوتا آ رہا ہے تو اس کی واحد وجہ حکمرانوں کی کرپشن تھی اور اگر وہ ایسے بیانات نہ دیتے تو عالمی دنیا کو ان پر اعتبار آتا اور نہ ہی برٹش ایئرویز جیسی بڑی ایئرلائن پاکستان میں دوبارہ قدم رکھنے کا فیصلہ کرتی؛چنانچہ برٹش ایئرویز کو آنے دیجئے‘ اس سے پاکستان کا فائدہ ہی ہو گا اور جو طبقہ ان کی آمد سے گھبرا رہا ہے یہ وہی ہے جو لائوڈ سپیکر کی ایجاد سے گھبرا گیا تھا لیکن بعد میں پھر وہی عشروں تک لائوڈ سپیکروں کے ذریعے لوگوں کے اذہان پر حکمرانی کرتا رہا ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved