تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     21-12-2018

مدنی راج اور رام راج

آج سے 71سال قبل دو ملک پاکستان اور انڈیا معرض وجود میں آئے ‘تو حضرت قائداعظم محمد علی جناح جو پاکستان کے بانی اور پہلے گورنر جنرل تھے‘ انہوں نے واضح کر دیا تھا کہ پاکستان میں مدینے کی ریاست کا تجربہ کیا جائے گا۔ اس کے برعکس انڈیا کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے کہا‘ انڈیا سیکولر ریاست ہو گا؛ چنانچہ انڈیا اپنے آئین کے اعتبار سے ایک سیکولر ملک ہے‘ یعنی انڈیا ایسی ریاست ہے ‘جو ہندومت کی حامل مذہبی ریاست نہیں ہے۔ سیکولر ریاست بنانے کا ایک سبب‘ جو انتہائی اہم اور بنیادی ہے اس کا ذکر مہاتما گاندھی نے یہ کہتے ہوئے کیا تھا کہ مسلمانوں کے پاس نظام حکومت چلانے کے لئے حضرت محمدؐ کے دو اہم ترین ساتھیوں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے ادوار حکومت ہیں۔ مہاتما گاندھی نے انڈیا کی پہلی وزارتی کابینہ کے اجلاس سے مخاطب ہوتے ہوئے مزید کہا کہ حضرت ابوبکرؓ کا دور حکومت اور حضرت عمرؓ کی حکمرانی بہترین اور مثالی ہے۔ ہم اس سے رہنمائی لے سکتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے پاس رام وغیرہ کی حکمرانی کی جو مثالیں ہیں‘ کیا کریں‘ وہ سب طلسماتی ہیں۔ شخصیات بھی طلسماتی ہیں‘ جن کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔
قارئین کرام! پچھلے چند سال سے انڈیا کی انتہا پسند مذہبی بھارتیہ جنتا پارٹی برسراقتدار ہے۔ پہلا دور حکومت اٹل بہاری واجپائی کا دور تھا‘ جس میں انتہا پسندی قدرے کم تھی۔ موجودہ وزیراعظم مسٹر نریندر مودی کے دور حکومت میں انتہا پسندی تشدد کی آخری حدوں کو چھونے لگ گئی۔ ہندتوا کا اعلان کر دیا گیا‘ یعنی ہندوستان میں ''رام راج‘‘ کو قائم کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ اب آئین میں تو ہندوستان بدستور سیکولر ہے‘ مگر عملی طور پر مسلمانوں‘ سکھوں اور مسیحی لوگوں کے لئے عقوبت خانہ بن چکا ہے۔ چند دن قبل بھارتی آرمی چیف بپن راوت نے پاکستان کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ تم پاکستان کو سیکولر ریاست بنائو‘ اس کے جواب میں پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے واضح کیا کہ ہم جو ہیں وہی ہیں‘ یعنی ہم اپنے دو قومی اسلامی نظریے کے پہلے دن سے علمبردار ہیں۔ تم ذرا دیکھو ‘تمہارا سیکولرازم کہاں ہے؟
رام راج قائم کرنے کے لئے بابری مسجد کو شہید کیا گیا‘ وہاں رام مندر بنانے کا اعلان کیا گیا‘ جس شہر میں بابری مسجد تھی‘ اس کا نام فیض آباد ہے۔ فیض آباد نام تبدیل کر کے شہر کا نام ایودھیا کر دیا گیا۔ رام بھی ہندوئوں کا دیوتا ہے۔ رام کی بیوی سیتا بھی ہندوئوں کی دیوی ہے۔ رام کی بیوی سیتا کو راون اغوا کر کے لے گیا اور سری لنکا میں جا کر اسے قید کر دیا۔ سیتا کو راون کے چنگل سے ہنومان دیوتا نے چھڑایا۔ ہنومان کا منہ بندر جیسا ہے۔ دم بھی ہے۔ انسانوں کی طرح بھاگتا دوڑتا اور گفتگو کرتا ہے۔ سری لنکا جاتے پہاڑ کو بھی اٹھا لیتا ہے۔ اسے ہندومان جی کہتے ہیں۔ اسی لئے تو گاندھی مہاتما کو کہنا پڑا کہ جس رام راج کی بات کی جاتی ہے وہ رام‘ سیتا اور ہنومان جی وغیرہ تو اک طلسماتی داستان ہے اور اس داستان کے کردار بھی طلسماتی ہیں۔ رام کے نام سے رام راج قائم کرنے کا بی جے پی نے بیڑا اٹھا رکھا ہے‘ اسی بات پر مودی نے اپنی وزارت ِاعلیٰ کے دور میں احمد آباد میں دو ہزار مسلمانوں کو زندہ جلا دیا اور سینکڑوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اب پولیس آفیسر اور انڈین فوج کے لیفٹیننٹ جنرل رینک کے ایک افسر نے کتاب لکھ دی ہے۔ انکشافات سامنے آ گئے ہیں کہ مودی خود قتل عام کا ذمہ دار تھا۔ کشمیر کی وادی‘ جس کے عوام کی تعداد ایک کروڑ سے بھی کم ہے۔ باقی ہندوستان کہ جہاں کی آبادی ایک ارب پینتیس کروڑ ہے۔ وہاں اس قدر نابینا افراد نہیں‘ جس قدر مقبوضہ کشمیر میں ہیں۔ صرف اس ایک ظلم سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مظالم کی باقی اقسام کا حال کیا ہو گا؟ یہ ہے‘ رام راج کہ جس میں گائے کے تقدس کی خاطر سینکڑوں مسلمانوں کو تہ تیغ کیا جا چکا ہے۔ بابری مسجد تو علامتی نام ہے۔ ہندوستان میں سینکڑوں مساجد کو مندر بنایا جا چکا ہے۔ گزشتہ 71سال میں کانگریس کا سیکولرازم ہو یا بی جے پی کا ہندتوا کا نظریہ... لاکھوں مسلمانوں کو فسادات میں شہید کیا جا چکا ہے۔ صرف ایک رات میں آپریشن بلیوسٹار کے تحت دس ہزار سکھوں کو قتل کیا گیا اور دو ہزار سکھوں کے گلے میں ٹائر ڈال کر جب اسے آگ لگائی جاتی تو انسان کوئلہ بن جاتے۔ اترپردیش صوبے میں متعصب ہندو سادھو اور مندر کے پجاری آدتیہ ناتھ نے کیا کیا گُل کھلائے ہیں۔ کسی اور مذہب کا ایسا آدمی کسی ملک کے صوبے کا وزیراعلیٰ ہوتا اور مودی جیسا وزیراعظم ہوتا تو اس ملک کو دہشت گرد ریاست قرار دے دیا جاتا‘ مگر مودی حکومت اتنے سارے ظلم کرنے کے باوجود بھی دنیا میں تسلیم شدہ ہے‘ حیرانی ہوتی ہے۔
مدینے کی ریاست کی بات میں صرف جانوروں کے حوالے سے کروں تو امام طبرانی ایک حدیث لائے ہیں۔ سرکار مدینہ حضرت محمد کریمؐ تشریف لے جا رہے تھے ‘دیکھا کہ ایک شخص بکری کی گردن پر پائوں رکھا ہوا ہے اور چھری کو تیز کر رہا ہے۔ بکری تیز ہوتی ہوئی چھری کو دیکھ رہی ہے‘ حضور رحمت دو عالمؐ نے دیکھا تو اسے مخاطب کر کے یوں جھڑکا ''تیرا ارادہ یہ ہے کہ اس بکری کو متعدد موتوں سے دوچار کرے‘ تم نے اسے ذبح کرنے سے پہلے اپنی چھری کو تیز کیوں نہ کر لیا؟‘‘ (الصحیحہ:24) حضرت عمرؓ نے مدینہ منورہ میں اپنی خلافت کے دور میں ایک شخص کو ایسے ہی دیکھا کہ وہ بکری کو لٹا کر چھری تیز کر رہا ہے‘ جبکہ بکری اس چھری کو دیکھ رہی ہے تو حضرت عمرؓ نے اس شخص کو دُرّے سے مارا اور کہا ''تم ایک جاندار کو تکلیف دے رہے ہو‘ اس بکری کو ذبح کرنے کے لئے پکڑنے سے پہلے تم نے چھری کو تیز کیوں نہ کیا‘‘ (بیہقی‘ الصحیحہ:30) لوگو! یہ تھا‘ مدینے میں رحمۃللعالمین حضرت محمد کریمؐ کا رحمتوں بھرا راج کہ جس میں جانوروں کا بھی تحفظ تھا۔ مہاتما گاندھی اسی لئے تو حضرت عمرؓ کے دور کی بات کرتے تھے۔ انہی حضرت عمرؓ کے بیٹے حضرت عبداللہؓ جو سرکار مدینہؐ کے صحابی بھی تھے۔ بکریوں کے چرواہے کو دیکھا کہ اس نے ایک تنگ جگہ میں بکریوں کو ٹھونس رکھا ہے۔ وہ جگہ صاف ستھری بھی نہیں تھی‘ جبکہ دوسری جگہ کشادہ بھی تھی اور بہتر بھی تھی۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اس چرواہے سے کہا ''اے چرواہے! تم برباد ہو گئے۔ بکریوں کی بری جگہ کو اچھی جگہ سے تبدیل کرو۔ میں نے اللہ کے رسولؐ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر نگران کو اس کی زیرنگرانی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘ (مسند احمد:5869 حسن)
جی ہاں! یہ تھے ‘مدینہ منورہ کے پاکباز لوگ‘ حضرت محمد کریمؐ کے صحابہؓ جو جانوروں کا بھی خوب خیال کرتے تھے۔
حضرت ابودردائؓ معروف صحابی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب یہ آیت نازل فرمائی کہ (اے مسلمانو!) ''تم اس وقت تک نیکی (کے اعلیٰ درجے) کو نہیں پا سکتے یہاں تک کہ تم لوگ اس چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ کرو کہ جسے تم سب سے بڑھ کر چاہتے ہو۔‘‘ حضورؐ نے مذکورہ فرمانِ ربانی اپنے صحابہؓ کو سنایا تو مدینہ منورہ میں حضرت ابودردائؓ کا کھجوروں کا باغ کہ جو انہیں سب سے بڑھ کر پسند تھا‘ وہ حضرت محمد کریمؐ کی خدمت میں پیش کر دیا کہ انہوں نے یہ باغ اللہ تعالیٰ کو دے دیا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے باغ میں آئے‘ اپنی اہلیہ کو آواز دی کہ اس باغ سے باہر آ جائو اب یہ ہمارا نہیں۔ میں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں حضرت محمد کریمؐ کے حوالے کر دیا ہے۔ ایسے معروف اور متقی صحابیؓ کاحال یہ تھا کہ ان کا ایک اونٹ تھا‘ اس کا نام انہوں نے دمون رکھا ہوا تھا۔ فوت ہونے لگے تو اسے مخاطب کر کے کہا‘ اے دمون! میرے رب کے ہاں کل کو مجھ سے جھگڑا نہ کرنا‘ میں نے تجھ پر ہمیشہ اتنا ہی بوجھ لادا ہے ‘جتنا تو اٹھا سکتا تھا۔ یاد رہے! حضرت ابودردائؓ مذکورہ اونٹ کسی کو ادھار پر دیتے تو اس شرط پر دیتے کہ میرا اونٹ فلاں حد تک وزن اٹھا سکتا ہے‘ اس سے زائد وزن اور بوجھ نہیں لادنا۔ (الصحیحہ:30) حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے بارے میں ہے کہ ان کا غلام ایک خچر پر کام کرتا تھا۔ روزانہ چاندی کا ایک درہم لاتا تھا (مسلمانوں کے خلیفہ اس سے اپنا گزارہ کرتے تھے) ایک دن وہ ڈیڑھ درہم لے آیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے پوچھا‘ آج زیادہ کمائی کیسے ہو گئی؟ غلام عرض کرنے لگا‘ منڈی میں مانگ بڑھی ہوئی تھی۔ فرمایا: نہیں تم نے خچر کو تھکایا ہے۔ اب یہ تین دن آرام کرے گا (الصحیحہ:30) جی ہاں! جس مدنی راج میں جانوروں کے ساتھ ایسا رحمتوں بھرا سلوک ہو‘ وہاں انسانوں کے ساتھ کیسا سلوک ہوگا۔ پاکستان تو ایسی مدنی ریاست چاہتا ہے۔ میں کہوں نہ کہوں‘ کہاں مدنی ریاست کا رحمتوں بھرا نظام‘ کہاں ظلموں اور ظلمتوں سے بھرا مودی کا رام راج؟ 
کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء
گستاخ اکھیاں کتھے جا اڑیاں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved