نمازہ جنازہ کیلئے جب بڑے بھائی ملک عنایت علی بلوچ کی میت اٹھانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں‘ تو آبائی گھر کے صحن میں اپنے ارد گرد کھڑے مرد و خواتین کے ہجوم میں روتی ہوئی آنکھوں اور غم سے مارے ہوئے دل کے ساتھ اچانک میرا تصور مجھے ساٹھ پینسٹھ برس پیچھے لے گیا ‘جہاں ہم سب بہن بھائی اپنی ماں کے ارد گرد کہیں چارپائیوں تو کبھی رسوئی میں بیٹھے‘ ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے ‘چھینا چھپٹی کرتے نظر آنے لگے !جب ہم بہن بھائیوں کی معمولی باتوں اور خواہشوں کیلئے چھوٹی چوٹی لڑائیاں دھکے‘ مار کٹائیاں حد سے بڑھنے لگتیں ‘تو اپنی جگہ سے اٹھ کر درمیان میں کھڑے ہو کر ماں کا ڈانٹنا اور بیچ بچائو کرانے کے سب مناظر ایک ایک کرتے ہوئے نظروں کے سامنے گھومنے لگ گئے۔ صبح صبح سکول جاتے ہوئے ناشتہ کرنے اور پھر دوپہر واپسی پر سب سے پہلے اپنی پسند کا کھانا لینے کیلئے ماں کی گود میں جا بیٹھنے کے منا ظر بھی گھومنا شروع ہو گئے۔ رمضان کے روزوں میں سحری اور افطاری کیلئے دیر سے اٹھنا‘ کسی بھی کام کیلئے دوسرے کی جانب اشارہ کرنا اور پھر ہر عید پر اپنی پسند کے کپڑوں اور جوتوں کی والدین سے فرمائشیں یاد آنے لگیں ‘گھر میں سب سے چھوٹا بھائی ہونے کی وجہ سے ماں کی نرم گرم اور شفقت بھری گود میں بیٹھ کر اپنے بہن بھائیوں کا غصے اور محبت سے میری جانب دیکھنا یاد آنے لگا۔ امتحانات کی تیاریوں اور پھر پاس ہو کر اگلی کلاسوں میں جا نے کی خوشیاں یاد آنے لگیں۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں ننھیال جانے کیلئے ایک دوسرے کو گھر چھوڑ کر جانے کی تکرار اور جھگڑے‘ اپنی اپنی پسند کے لباس اور جوتے لینے کیلئے ماں کی سفارشیں اور باپ کی چاپلوسیاں کرنا‘ سب یاد آنے لگا۔ گھر کے صحن میں لگے کچے پکے امرود توڑ کر کھانے کے مزے اور باپ کی سرزنش یاد آنے لگی۔ میرے یہ سب بھولے بسرے تصورات اس وقت اچانک ٹوٹ گئے‘ جب لوگ کلمہ شہادت کی بلند آوازکے ساتھ بھائی کی میت کو نمازہ جنازہ اور قبرستان لے جانے کیلئے اٹھانے لگے ‘تو بوجھل دل سے مشیت ایزدی کے سامنے سر جھکاتے ہوئے‘ میں بھی اپنے بھائی کی میت کو کاندھا دیتے ہوئے جناز ہ گاہ کی جانب چل پڑا۔
نمازہ جنازہ اور تدفین کے بعد جب گھرواپس لوٹے‘ تو لوگ ایک ایک کرتے ہوئے پرسہ دینے کیلئے دعا کیلئے ہاتھ اٹھانا شروع ہو گئے‘ توایک لمحے نے مجھے چونکا دیا کہ اپنے ماں باپ کے خاندان کے اس گھر میں جنم لینے والے سب بہن بھائی منوں مٹی تلے جا سوئے ہیں اور اب میں ماں باپ اور اپنے پانچ بھائیوں اور تین بہنوں پر مشتمل گھر کے اس بھرپور خاندان کااکیلا زندہ رہنے والاشخص ہوں۔ یہ جان لیوا احساس مجھے کاٹنے لگا کہ ایک ایک کرکے سب بہن بھائی مجھے چھوڑ کر چلتے گئے۔ سب سے پہلے چھوٹا بھائی سلیم جاوید میٹرک کا رزلٹ آنے سے چند دن پہلے ‘اس دنیاسے اچانک رخصت ہوا اور ابھی اس صدمے سے سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ منجھلی بہن ایک مختصر علالت کے بعد معدے کے کینسر سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملی اور پھر ایک دن ہم سب اپنے نہایت ہی شفیق اور انتہائی پیار کرنے والے باپ کی شفقت سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محروم ہوگئے۔ کچھ وقفہ ہو ا تو سب سے چھوٹی بہن ہڈیوں کے کینسر کی جان لیوا بیماری سے یہ دنیا چھوڑ کر چلی گئی اور جب ہم باپ کے سائے سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محروم ہوئے ‘یہ ایک ایسی چوٹ تھی‘ ایسا دکھ تھا‘ جو آج بھی چین نہیں لینے دیتا۔ وقت اور زمانے کی نا جانے کتنی گردشیں آئیں اور گزر گئیں‘ لیکن اس کا پیار اور ہم سب کیلئے دی گئی قربانیاں آنکھوں کے سوتے خشک ہونے کے با وجود اندر ہی اندر آنسو بہاتے رہتے ہیں ۔ ہمارے خاندان کیلئے یہ بہت بڑا صدمہ تھاکہ چند سال ہی گزرے ہوں گے کہ ہماری جنت ہمارے گھر ہی کی نہیں‘ بلکہ ہم سب کیلئے ہمہ وقت دعائیں کرنے والی اپنی نرم اور ممتا کی آخری حد تک بھرے ہوئے جذبے سے لبریز ایک گھنے اور سایہ دار شجر کی طرح امڈتی ہوئی پیار سے کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ماں ایک صبح اپنے خالق حقیقی سے جا ملی اور وہ گھر جو مجھے دنیا کے کسی بھی کونے میں رہتے ہوئے ہر وقت اپنی جانب کھینچتا تھا‘ خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بکھر کر رہ گیا۔
اپنی نوعیت کا یہ منہ کے بل گرا دینے والا زلزلہ تھا‘ جس کے آفٹر شاکس آج بھی اسی طرح محسوس کرتا رہتا ہوں۔ ماں کی عظمت اور عبا دت وہی کر سکتا ہے‘ جسے صفاو مروہ کی کھردری چٹانوں پر اپنے نونہال اسماعیل ؑ کی پیاس بجھانے کیلئے پانی کے ایک قطرے کی تلاش میں دیوانوں کی طرح بھاگتی اور گرتی پڑتی اماں حاجرہ کی بارگاہ الہٰی میں قبولیت کا تڑپنے کے احساس کا رتی بھر بھی پاس ہو اورپھر ایک ماں کا صفا ومروہ کی سنگلاخ چٹانوں کے گرد بھاگنے کے عمل کو دنیا کے ہر کلمہ گو مسلمان کیلئے حج اور عمرہ کی سعادت سے فیض یاب ہونے کو عبادت کا حصہ بنا دیا گیا۔
بڑے بھائی آرمی ایوی ایشن کے صوبیدار برکت علی بلوچ کو موت کا بلاو ا آیا ۔ان کی موت نے ایک طرح سے ہم سب کی کمر توڑ کر رکھ دی کہ دنیا میں ایسا بھائی نہ دیکھا‘ نہ سنا‘ جس نے قدم قدم پر اس طرح ہم پر‘ ہمارے سروں پر دست شفقت رکھا کہ باپ کی یاد تو آتی رہی‘ لیکن ان کی کمی کو جان توڑ کر کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ان کے جانے کے کچھ عرصہ بعد دوست زیا دہ اور بھائی کم ملک نذیر احمد بلوچ‘ جو علاقے کی مشہور سیاسی شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے ‘ایک دن دل کے دورے کے جان لیوا جھٹکے سے سنبھل نہ سکے اور اس گھر کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کی کمی مجھے آج بھی شدت سے محسوس ہوتی ہے ‘کیونکہ یہ بات ہم دونوں یا چند ایک لوگ ہی جانتے ہیں کہ ہم بھائی کم اور ایک دوسرے کے راز داںدوست زیا دہ تھے۔ جس کااظہار ہمیشہ اس کا ذکر آنے پر ایک دوسرے کی جانب معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کیا کرتے ۔ مجھ سے چھوٹی‘ لیکن ہم سب بہن بھائیوں کیلئے ممتا جیسے جذبے سے لبریز بہن بھی کینسر کے جان لیوا مرض کے سامنے شکست کھا گئی اور پھر ایک شام مجھ سے بڑے نذیربھائی کا اچانک دل کی تکلیف سے انتقال کر جانے کے بعد اس بھرے پرے گھر کے ہم دو بھائی ہی رہ گئے اور آج جب اپنے مہربان بھائی ملک عنایت علی بلوچ‘ جو ہمیشہ مجھے خان صاحب کہہ کر پکارا کرتے تھے ‘یہ فانی دنیا چھوڑ گئے‘ تو اپنے اکیلا رہ جانے کا احساس اور بھی بڑھ گیا ہے۔
نمازہ جنازہ اور تدفین کے بعدسے اب تک تعزیت کیلئے سینکڑوں کی تعداد میں آنے والے لوگ‘ جب ان کے احسانات اور عنایتوں کا ذکر کرتے‘ تو احساس ہوا کہ والدین نے مرحوم کا نام'' عنایت علی‘‘ کیوں رکھا تھا؟ خدا ‘ان کی قبر کو روشن رکھتے ہوئے ان کی تمام دنیاوی کمزوریوں سے در گزر کرتے ہوئے‘ ان پر اپنی شان اور عظمت والی عنایات کی بارش کر دے (آمین ثم آمین)
'' لے او یار حوالے رب دے‘ تے میلے چار دناں دے...!‘‘۔