روئے ارض سے حیوانات و نباتات کی کئی اقسام یکسر ناپید ہوچکے ہیں۔ علمی مباحث میں اِس نقصان کا خوب رونا رویا جاتا ہے‘ جو کچھ تھا اور اب نہیں ہے‘ اُسے یاد کرکے رونا کچھ غلط بھی نہیں۔ انسان کو اپنی اغلاط سے سیکھنا ہی چاہیے اور اغلاط سے سیکھنے کے لیے ماضی کا جائزہ لینا لازم ہے‘ جو خرابیاں بہت پہلے واقع ہوئیں‘ انہیں یاد کرکے رونا بھی اچھا ہے‘ مگر اس سے بہتر یہ ہے کہ اُن کے اعادے سے بچنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔
جو جانور اور پودے اب نہیں رہے‘ انہیں یاد کرکے رونا‘ غلط یا صحیح‘ اپنی جگہ‘ مگر اس حقیقت پر بھی تو غور کیجیے کہ انسانوں کے درمیان سے بہت کچھ غائب یا ناپید ہوچکا‘ مگر ہم اُسے یاد کرکے رونے میں ذرا بھی دلچسپی نہیں لیتے۔ اب یہی دیکھیے کہ ارد گرد بہت کچھ رونما ہوتا ہوا‘ دیکھ کر بھی سبق نہیں سیکھا جاتا‘ دوسروں کی کوتاہیوں اور لغزشوں کو دہرانے سے بچنے پر برائے نام بھی توجہ نہیں دی جاتی۔
دو تین دن قبل اپنے کالم میں ہم نے عرض کیا تھا کہ کتب بینی کا مستقبل کسی بھی طور تاریک نہیں؛ اگر کچھ تاریکی دکھائی دے رہی ہے تو وہ ہماری اپنی پیدا کردہ ہے۔ کتب بینی کا رجحان کمزور اس لیے پڑگیا ہے کہ لکھنے والے محنت نہیں کر رہے۔ پڑھنے والوں کو تنوع ملتا ہے ‘نہ معیار۔ ایک زمانہ تھا کہ کتاب لکھتے وقت تحقیق کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا اور نظر ثانی بھی خوب کی جاتی تھی۔ کوشش یہ ہوتی تھی کہ مسوّدہ کسی بڑے کو دکھایا جائے‘ تاکہ اُس کے مشوروں کی روشنی میں مفید تبدیلیوں کے ذریعے مسوّدے کا معیار بلند کیا جاسکے۔ اہلِ نظر جب کسی مسوّدے پر نظر ثانی کرتے تھے تو بہت سے خامیوں اور اغلاط کی نشاندہی بھی کرتے تھے۔ یوں کتاب کا معیار بلند ہوتا تھا اور پڑھنے والے کو اندازہ ہوتا تھا کہ اُس کے خرچ کیے ہوئے پیسے ضائع ہوئے ہیں‘ نہ وقت۔
فی زمانہ کتب لکھنے پر اُتنی محنت بھی نہیں کی جاتی جتنی کسی زمانے میں کسی ایک طویل مضمون کے لکھنے پر کی جاتی تھی۔ اب بہت سے اور آسان ذرائع کے ہوتے ہوئے کوئی تحقیق کی زحمت گوارا کرتا ہے‘ نہ حوالے دینے میں دلچسپی لیتا ہے۔ بہت سے رپورٹرز کے پاس جب کوئی خبر نہیں ہوتی تو ٹیبل سٹوری چلاتے ہیں ‘یعنی کچھ بھی گھڑکے لکھ دیتے ہیں اور وہ شائع بھی ہو جاتا ہے۔ یہی حال اب کتب کا بھی ہوگیا ہے۔ بیشتر کتب ٹیبل سٹوری کی طرز پر لکھی جارہی ہیں۔ اب آپ ہی بتائیے کہ ایسی کتب خریدنے میں کون دلچسپی لے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں شائع ہونے والی 90 فیصد سے زائد کتب پر برائے نام محنت کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں کوئی بھی چیز ٹھکانے پر نہیں ہوتی۔ نکات کمزور ہوتے ہیں اور دلائل کمزور تر۔ زبان و بیان پر توجہ دینے کا سوچا بھی نہیں جاتا۔ ادارت کے شعبے کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ کتاب میں ٹھوس حوالوں کا فقدان ہوتا ہے اور متعلقہ اعداد و شمار اور حقائق ٹانکنے کا برائے نام بھی اہتمام نہیں کیا جاتا۔
سوال صرف لکھنے لکھانے کے شعبے کا نہیں‘ جس طور مضمون نگاری یا کتب نویسی پر خاطر خواہ توجہ مرکوز نہیں کی جاتی‘ بالکل اُسی طورقریباً ہر شعبے میں پژمردگی کو قبول اور تسلیم کرلیا گیا ہے۔ کم و بیش ہر معاملے کو سرسری انداز سے نمٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لوگ اپنے کام سے بھاگنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ بھاگنا‘ اگر کہیں ترجیح کا درجہ رکھتا بھی ہے‘ تو صرف دولت کے معاملے میں۔ بہت کچھ پانے کی تمنّا تو ہے‘ بہت کچھ کرنے کی خواہش پائی جاتی ہے ‘نہ لگن۔ کسی چھوٹے موٹے کام کی تو خیر بات ہی کیا ہے‘ پوری کی پوری زندگی انتہائی سرسری انداز سے بسر کرنے کو مطلوب و مقصود سمجھ لیا گیا ہے۔ اغلاط کو دہراتے ہوئے عشرے گزر جاتے ہیں مگر اصلاح پر مائل ہونے کا نہیں سوچا جاتا۔ کوئی متوجہ کرے تب بھی خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی۔
تحریک و تحرّک سے دامن چھڑالیا گیا ہے۔ لوگ زندہ بھی ہیں اور جی بھی نہیں رہے۔ ہر معاملے میں بے دِلی اور پژمردگی کی سی کیفیت کو حرزِ جاں بنالیا گیا ہے۔ دنیا کہیں سے کہیں پہنچ گئی ہے اور مزید آگے بڑھنے کی تیاریوں میں مصروف ہے ‘مگر ہم ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ معاشرے کی عمومی روش یہ ہے کہ زندگی میں منصوبہ سازی ہونی چاہیے ‘نہ نظم و ضبط۔ اول تو کام کو اولیت نہیں دی جاتی۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ کام کو ٹالتے رہنے پر گزارا کیا جائے اور اگر کام کرنا ہی پڑ جائے ‘تو کوشش یہ ہوتی ہے کہ جیسے تیسے نمٹادیا جائے۔ آج کے پاکستانی معاشرے میں بیشتر اعمال شدید بے ذہنی کا نتیجہ ہیں اور اسی لیے اُن کے نتائج بھی وہی ہیں‘ جو ہونے چاہئیں۔ نیم دِلانہ رویہ زندگی کے ہر معاملے پر محیط ہوگیا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاملات مزید الجھتے جارہے ہیں۔
پاکستانی معاشرے کی ایک بڑی نفسی پیچیدگی یہ ہے کہ جو کچھ عشروں سے ہو رہا ہے اور خطرناک نتائج پیدا کر رہا ہے‘ اُسے گلے سے لگائے رکھنے اور حرزِ جاں بنائے رکھنے میں کچھ خاص قباحت محسوس نہیں کی جارہی۔ خرابی کو خرابی سمجھنے کا احساس بھی دم توڑ چلا ہے۔ لوگ ایک ہی غلطی کئی بار کرتے ہیں ‘مگر پھر بھی سبق سیکھنے اور اپنی اصلاح کی طرف مائل ہونے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ توجہ دلائے جانے پر بھی اُنہیں اصلاحِ احوال کی تحریک نہیں ملتی۔ اپنے نقصان کو سمجھتے ہوئے بھی ڈگر تبدیل نہیں کی جاتی۔
ایسا کیوں ہے؟ نفسی امور کے ماہرین ہی کوئی جاندار نکتہ بیان کرسکتے ہیں۔ ہم تو یہی کہیں گے کہ ایک طرف تربیت کا فقدان ہے اور دوسری طرف عمل سے بے رغبتی ہے۔ لوگ بہت کچھ غلط ہوتا ہوا دیکھ کر بھی اپنی اصلاح کا نہیں سوچتے۔ تحریک و تحرّک سے محرومی تو جیسے ہمارا مقدر ہوکر رہ گئی ہے۔ عام آدمی کی تو بساط ہی کیا ہے‘ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی اپنے آپ کو بدلنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ اصلاحِ احوال کی بات کیجیے تو لوگ کترانے لگتے ہیں‘ دامن چھڑانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
زندگی کا ہر معاملہ بہتر طور پر انجام تک پہنچنے کے لیے تحریک و تحرّک کا محتاج ہے۔ انسان جو کچھ بھی کرے اُس میں زندگی جھلکنی چاہیے۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے‘ جب کام کرنے کی بھرپور تحریک ملنے کی صورت میں بھرپور تحرّک کا مظاہرہ ترجیحات میں شامل کیا جائے۔ آج ہمارے ہاں بیشتر شعبے شدید بے دِلی و بے ذہنی کی لپیٹ میں ہیں۔ نئی نسل کو اس حوالے سے زیادہ راہ نمائی درکار ہے۔ نصاب تشکیل دیتے وقت اس امر کا خیال رکھا جائے کہ بچوں کو ہر معاملے میں زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی تحریک ملتی رہے اور وہ عملی زندگی کے لیے بہت پہلے سے تیار ہوں۔ چالیس‘ پچاس یا ساٹھ سال والے تو زندگی گزار چکے۔ اب ہماری توجہ آنے والوں پر مرکوز رہنی چاہیے۔ اُن کی تربیت میں ایسی کوئی کمی نہ رہے کہ کام کرنے کی تحریک پاکر وہ تحرّک کا مظاہرہ کرنے سے ہچکچائیں‘ گریز کی راہ پر گامزن ہوں۔
نئی نسل کو یہ بات باور کرانے کی اشد ضرورت ہے کہ کوئی بھی کام مطلوب نتائج ‘اُسی وقت دے سکتا ہے جب اُس پر خاطر خواہ محنت کی جائے۔ ہر کام وقت اور وسائل کے ساتھ ساتھ توجہ اور اہلیت کا بھی طالب ہوتا ہے۔ جو کام سطحی‘ پُھسپُھسا اور کام کرنے کی بھرپور لگن سے محروم ہوگا‘ وہ اپنے نتائج کے ذریعے پوری کہانی بیان کردے گا۔ ہمارے ماحول میں ایسی بہت سی کہانیاں بکھری ہوئی ہیں۔ ان سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے‘ تاکہ ہم خود بھی تحرّک کے حامل ہوں اور دوسروں کو بھی کام کرنے کی تحریک دیں۔