تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     22-12-2018

نفس کے خونیںوار

چند روز میں ناصر افتخار صاحب سے ہونے والے تبادلہ ٔخیال میں‘ میں بری طرح ان سے متاثر ہوا ہوں ۔ بہت سارے نکات میں اپنے موبائل میں لکھتا رہا۔ ان کی کتاب پر نوٹس لکھتا رہا‘ نشان لگا تا رہا؛حتیٰ کہ ایک وقت آیا ‘ جب ہر دوسرا پیراگراف نشان کی زد میں آنے لگا۔food fort hought اس طرح سے اچانک مجھ پہ برسنے لگے گی‘ یہ میرے کسی اندازے میں نہیں تھا ۔ ان سے ملنے والے کچھ نکات اور کچھ باتیں اپنی طرف سے :
جب ایک بندہ معرفت کی باتیں بتاتا ہے تو اس کی دھاک بیٹھ جاتی ہے ۔ دوسروں کی عقل اور جذبات بھی اس کے سامنے سرنگوں ہو جاتے ہیں ۔ ذہن بنیادی طور پر ہر چیز کو سب سے پہلے خوف کی نظر سے دیکھتا ہے کہ اس میں میرے لیے کوئی خطرہ تو نہیں۔ہر چیز میں وہ سب سے پہلے اپنا survivalڈھونڈ رہا ہوتاہے ۔ تو اس خوف کی بنیاد پر جب کوئی کسی سے معرفت کی باتیں سنتا ہے تو وہ اس سے مرعوب ہو جاتاہے ۔ آپ کسی شخص کو ایک دفعہ اس کے ذہن کے اندر کی ایک خفیہ بات بتا دیں ‘ وہ آپ کی چوکھٹ پر بیٹھ جائے گا۔ فرض کریں کہ ایک شخص خواب میں ایک بزرگ کو دیکھتا ہے ۔ اگر میں اسے بتائوں کہ تم نے ایک بزرگ کو دیکھا ۔ وہ ہکا بکا رہ جائے گا ۔ پھر میں کہوں گا کہ بزرگ کے ماتھے پر دائیں جانب بڑا سا داغ ہے ۔ بس یہاں اس کی بولتی بند ہو جائے گی۔ اس کے بعد وہ میرے رحم و کرم پر ہے ۔ جو واقعی استاد ہوگا‘ اس کی اصل توجہ تعلیم پر مرکوز ہوگی ‘ جبکہ اپنی کرامات ثابت کرنے کا کوئی ہیجان نہیں ہوگا ۔ لوگ کیوں یہ کوشش کرتے ہیں کہ انہیں معرفت کی لطیف باتوں کا رازدان سمجھا جائے ؟
اسی طرح اگر ایک بہت بڑے تناظر میں بات کی جائے تو بھی عقل دم بخود رہ جاتی ہے ۔ ایک بندہ مجھے اپنی ساری زندگی کی کہانی سناتا ہے ۔ میں اسے کہتا ہوں کہ بھائی آپ حبِ جاہ کی جبلت کے مارے ہوئے ہیں ۔ آپ اکیلے نہیں‘ دنیا میں پچاس کروڑ بندے اور بھی ہیں ‘ جو اس کا شکار ہیں ۔ جب اسے پتہ چلتاہے کہ میرے جیسے پچاس کروڑ اور بھی تکلیف سے گزر رہے ہیں تو اس کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں ۔ جس طرح ایک بندہ شدید پارکنسن کا شکار ہے ۔ اسے اپنے جیسا ایک مریض اور ملتا ہے تو جیسے وہ دونوں ایک دوسرے کا دکھ سمجھ سکتے ہیں ‘ دوسرے نہیں سمجھ سکتے۔ جو لوگ زندگی کے غموں میں گھرے ہوتے ہیں اور جنہیں خدا کو ڈھونڈنے کی خواہش بھی ہوتی ہے ‘ انہیں ایک ایسے بندے کی تلاش ہوتی ہے جو کہ انہی کے حال سے گزر کر پھر نجات تک پہنچا ہو اور اس نے خدا کو پا لیا ہو ۔ تو وہ چاہتے ہیں کہ یہ بندہ تو عافیت کے جزیرے پر پہنچ گیا ہے ۔ اگر وہ وہاں سے ایک رسی پھینک دے اور اسے پکڑ کے میں بھی اس جزیرے تک پہنچ سکوں تو ؟ یہ اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش بن جاتی ہے۔
نفس نامی جو انتہائی ذہین درندہ آپ کے اندر رہتا ہے ‘ اس کی چالاکیوں سے بچنا انتہائی مشکل ہے ۔ صرف اللہ کی مدد سے ہی اس سے بچا جا سکتاہے ۔ اگر کوئی مجھے نفس کی ایک کمزوری بتاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی نفس بھی یہ ساری بات سن لیتاہے ۔ اسے بھی معلوم ہوجاتاہے کہ یہ میری کمزوری جا ن گیا ہے ۔ اب وہ اگلا وار اپنی اس کمزوری کو مدّنظر رکھ کے کرے گا۔یہ ایسا ہی ہے ‘ جیسا کہ مجھے اچانک یہ پتہ چل جائے کہ میرے دشمن کی دائیں ٹانگ زخمی ہے اور اس پر وار وہ سہہ نہیں سکتا لیکن ساتھ ہی دشمن کو بھی پتہ چل گیا ہے کہ اسے میری ٹانگ کی کمزوری کا پتہ چل گیا ہے ۔ اب جب وہ مجھ سے لڑنے آئے گا تو اپنی دائیں ٹانگ کے بچائو کی خاص احتیاط کرے گا ۔ 
انسان جیسے ہی کوئی نیکی کا کام کرتاہے‘ نفس اسے یہ احساس دلاتاہے کہ تم بہت نیک ہو چکے ہو۔ وہ اس کے گرد تقدس کا ہالہ کھینچ دیتاہے ۔ انسان دوسروں کو اس نظر سے دیکھنے لگتاہے کہ یہ گناہ گار لوگ ہیں ‘ جب کہ میں نیک اور پاک ہوں ۔ یوں اس کی عبادت الٹا شاید تکبر کی مد میں جانے لگتی ہے ۔وہ لوگوں کو دکھانے کے لیے عبادت کرنے لگتاہے ۔ آپ دیکھیے کہ ریاکار کو اسلام میں کیا درجہ دیا گیا ہے ۔ 
جب ایک شخص لوگوں کو یہ بتاتا ہے کہ نفس ایسا ہوتاہے ‘یہ اس کی کمزوری ہے ‘یہ اس کا طریقہ واردات ہے تواس وقت یہ لذت اسے اپنی گرفت میں لے سکتی ہے کہ میں دوسروں سے زیادہ جانتا ہوں ۔ یہ بھی ہو سکتاہے کہ وہ لوگوں پہ اپنی دھاک بٹھانے کے لیے یہ سب باتیں کرتا ہو۔ فرض کریں ‘ وہ کہتا ہے کہ اے لوگو!میں جو تم سے نفس کی عادات اور دوسری معرفت کی باتیں کرتا رہا ہوں ‘ اس کا بنیادی مقصد اپنی علمیت کی دھاک بٹھانا تھا تو آپ کیا کہیں گے ؟ بہت سے لوگ کہیں گے کہ کس قدر سچا انسان ہے ‘ جو اتنا بڑا اعتراف کھلے دل سے کر رہا ہے لیکن ذرا ٹھہر جائیے ۔ ہو سکتاہے کہ اس انکشاف کا اصل مقصد اپنی علمیت کی دھاک بٹھانے کے بعد اب اپنی سچائی کی دھاک بٹھا نا ہو ۔ نفس اس بات میں لذت محسوس کرے گا کہ لوگ مجھے بہت بڑا سچا انسان کہہ رہے ہوں گے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو اپنے خیالات پہ نظر رکھنی ہے کہ ان کی تہہ میں کون سا جذبہ کارفرما ہے ۔ اپنی بڑائی ‘ اپنی اچھائی‘ اپنے غلبے کی خواہش ؟ اگر ایسا ہے تو اسے وہیں روک دیجئے۔ یہ یاد رکھیں کہ آپ دوسروں پر ججمنٹ نہیں دے سکتے کہ اس بندے کی نیت کیا تھی ۔ ہو سکتاہے کہ وہ واقعی تعلیم دے رہا ہو‘ اپنی دھاک بٹھانے کے لیے یہ باتیں نہ کر رہا ہو‘ لیکن آپ کو اپنے اوپر ضرور نظر رکھنی ہے ۔ 
اسی طرح انسان اپنے آپ کو حریت پسند اور بہت بے خوف شخص ظاہر کرنے کے لیے سو سو جتن کرتاہے ۔ اصل مقصد دوسروں پر اپنی دھاک بٹھانا ہی ہوتا ہے۔جبکہ انسان کی اصل اوقات کچھ بھی نہیں ۔جب وہ ایسا کرتاہے تو اس کے دماغ میں کیمیکلز کے اخراج سے لذت پیدا ہوتی ہے ۔اصل نشہ تو دماغ کے اندر ہی ہوتاہے ۔ اصل سسٹم اندر نصب ہے ۔ نشے والی چیزیں تو صرف Triggerکا کام کرتی ہیں ۔ جب دماغ میں کیمیکلز نکلتے ہیں تو پھر انسان لذت محسوس کرتاہے۔ دوسروں سے برتر اور ان پہ غالب ہونے کے خیال میں بڑی لذت ہے ۔ 
نفس انسان کے دماغ کو عجیب و غریب imaginationسے گزارتاہے ۔ایک مثال دیکھیے:ایک ٹین ایجر لڑکا تصور کی آنکھ سے دیکھنے لگتاہے کہ ایک تقریب میں خودکش بمبار گھس آیا ہے ۔اس سے پہلے کہ وہ دھماکہ کرے‘ اچانک میں جیب سے پستول نکالتا ہوں اور اس کے سر میں گولی مار دیتا ہوں ۔ پھر میں اس کے پاس جاتا ہوں اوراس کی جیکٹ اتارتا ہوں ۔ سب لوگ میری طرف دیکھ رہے ہیں ۔ اسے لذت ملے گی اور اگر وہ تیز رفتار گاڑی میں اونچی آواز میں میوزک سنتے ہوئے یہ imaginationکرے تو زیادہ لذت ملے گی ؛حالانکہ حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا ۔ایک جگہ بیس بندے بیٹھے ہیں اور وہ لڑکا ایک ایسی بات کرتا ہے ‘ جس پر سب قہقہہ لگا دیں ۔ بس اس کے بعد میں وہ نارمل تو نہیں رہے گا۔ اس کی کوشش ہوگی کہ باقی وقت سب کو ہنساتا ہی رہے ۔آخر کیوں؟ (جاری )

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved