تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     23-12-2018

وزیر اعظم کے سامنے

زندہ اور مردہ پروفیسروں کی ''لاشیں‘‘
جب وزیر اعظم عمران خان اسلام آباد میں اپنی دعوت پر دُنیا بھر سے جمع ہونے والے اساتذہ اور اہلِ علم کا استقبال کر رہے تھے۔ 137.5 ایکڑ کو محیط پاکستان کے وزیر اعظم ہائوس میں نیشنل یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کر رہے تھے۔ خلیفہ ہارون الرشید کے بغداد میں قائم کردہ ''بیت الحکمت‘‘ کو یاد کر رہے تھے کہ وہ حصولِ علم کا ایک بین الاقوامی مرکز تھا، جہاں مردانِ تحقیق تجربات و ایجادات میں جُتے رہتے تھے، جہاں اہلِ نظر ہر دم تازہ بستیاں آباد کرتے نظر آتے تھے۔ پورے پاکستان میں اِس تقریب اور وزیر اعظم کے خطاب کو حیرت اور توجہ سے دیکھا جا رہا تھا۔ ایک نیا منظر اُبھرتا نظر آ رہا تھا، آنکھوں میں خواب سج رہے تھے، اور ایک ایسے پاکستان کی جھلک دیکھی جا رہی تھی، جہاں علم اور اہلِ علم کی قدر ہو گی... جہاں اہلِ فکر و دانش معزز ترین شہری ہوں گے... وی وی آئی پی... وزیر اعظم صاحب کی سیاست سے اختلاف کرنے والے اور ان پر تنقید کے نشتر چلانے والے بھی تالیاں بجانے پر خود کو مجبور پا رہے تھے۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کا وزیر اعظم ہائوس اپنی وسعت اور ماحول کے اعتبار سے اپنی مثال آپ تھا۔ اس کے وسیع سبزہ زار، سینکڑوں کیا، ہزاروں کی تعداد میں درخت اور پھولدار پودے، اسے جنت کا باغ بنائے ہوئے تھے۔ وزیر اعظم کی رہائش کا علاقہ تو محدود تھا۔ کوّرڈ ایریا نسبتاً زیادہ نہیں تھا، لیکن ماحول پر شاہانہ تمکنت بہرحال چھائی رہتی تھی۔ طویل راہ داریاں اور حدِ نظر تک پھیلے سبزہ زار ملاقاتیوں پر خوشگوار سا رعب بٹھا دیتے تھے۔ اس وقت اس کی تاریخ تو میرے سامنے نہیں ہے، لیکن ظاہر ہے مشرقی پاکستان کے سانحے کے بعد ہی اسے تعمیر کرنے کے بارے میں سوچا گیا ہو گا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کا دستور تو صدارتی تھا، اور صدر کے لیے شاہراہ دستور پر ایک بلند و بالا عمارت تعمیر کی جا رہی تھی۔ وزیر اعظم کا منصب ہی موجود نہیں تھا، تو اس کے لیے رہائش گاہ کی تعمیر کیسے ہو سکتی تھی؟ دلچسپ بات یہ کہ قومی اسمبلی کی عمارت ڈھاکہ میں تعمیر کی گئی تھی اور ڈھاکہ ہی اسمبلی کا مرکز تھا۔ ایوب نگر نام کی یہ بستی جو آج ''شیر بنگلہ نگر‘‘ کا روپ دھار چکی ہے، اپنی وسعت اور ہیئت کے اعتبار سے فنِ تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ ارکانِ اسمبلی کی رہائش گاہیں اس کے اندر ہی تعمیر کی گئی تھیں۔ اسمبلی کے اجلاس کے دوران صدرِ پاکستان وہاں وقت ضرور گزارتے تھے کہ مجلسِ قانون ساز کی کارروائی سے آنکھیں بند نہیں کی جا سکتی تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم بنے تو اُن کی رہائش گاہ راولپنڈی میں تھی۔
ہمارے وزیر اعظم ہائوس کے مقابلے میں بھارت کا وزیر اعظم ہائوس بہت چھوٹا دکھائی دیتا ہے کہ اس کا رقبہ صرف 12 ایکڑ ہے، جس میں پانچ کوٹھیاں ہیں۔ وزیر اعظم کا سکیورٹی سٹاف یہیں رہتا ہے اور ان کے لئے ہیلی پیڈ بھی ایک کوٹھی میں ہے۔ ایک میں کانفرنس روم ہے اور ایک مہمان خانہ ہے۔ اسے آزادی کے کئی سال بعد تعمیر کیا گیا۔ پنڈت نہرو کے انتقال کے بعد ان کی رہائش گاہ کو ان کا میوزیم بنا دیا گیا۔ لال بہادر شاستری جس جگہ رہے، ان کی موت کے بعد یہ ان کے نام سے منسوب میوزیم بن گیا۔ اندرا گاندھی قتل ہوئیں تو ان کی رہائش گاہ ان کے یاد گاری عجائب گھر میں تبدیل کر دی گئی۔ نئے وزیر اعظم ہائوس کے پہلے باسی راجیو گاندھی تھے۔ پاکستان کے وزیر اعظم ہائوس نے بھی کئی مکینوں کا مزہ چکھا اور یہ بات زبان زد خاص و عام تھی کہ یہاں رہنے والا اپنی مدت پوری کر نہیں پاتا۔ یوسف رضا گیلانی اسے غلط ثابت کرتے کرتے رہ گئے اور ان کے بعد منتخب ہو کر آنے والے وزیر اعظم نواز شریف بھی مدت پوری ہونے سے پہلے یہاں سے رخصت کر دیئے گئے... اُنہیں بھی ایک فیصلے نے ڈس لیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے نہ صرف خود کو اِس مکان سے محفوظ کیا، بلکہ آنے والے وزرائے اعظم کو بھی اِس آزمائش سے دوچار ہونے سے بچا لیا۔ اب یہاں اساتذہ ہوں گے، اور طلبہ ہوں گے۔ علم کی روشنی پھیل کر کیا عجب کہ پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لے، اور اِس حوالے سے ہمارے موجودہ وزیر اعظم کو یاد کیا جاتا رہے۔
جس دن وزیر اعظم اسلام آباد میں نیشنل یونیورسٹی کا افتتاح کر رہے تھے، لاہور کی کیمپ جیل میں ایک یونیورسٹی کیمپس کا سربراہ ایڑیاں رگڑ رہا تھا۔ طبی امداد کے لئے فریاد کر رہا تھا۔ دِل میں درد کی شکایت کر رہا تھا۔ میاں محمد جاوید کی طرف بروقت توجہ نہ دی گئی، اُسے ہتھکڑیوں میں باندھ کر پولیس والے جب ہسپتال پہنچے تو جان، جانِ آفرین کے سپرد ہو چکی تھی۔ ہتھکڑیوں میں جکڑی ہوئی اس کی لاش وزیر اعظم سمیت پورے پاکستان کا منہ چڑا رہی تھی۔ میاں محمد جاوید کا جرم یہ تھا کہ اس نے سرگودھا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اکرم چودھری کی منظوری سے لاہور میں سرگودھا یونیورسٹی کا کیمپس کھولا تھا۔ سرگودھا یونیورسٹی کی موجودہ انتظامیہ سے معاملات ہموار نہ رہے تو ڈاکٹر اکرم چودھری، اور ان کے کئی رفقا کے ساتھ ان کو بھی نیب نے دھر لیا۔ اکرم چودھری جو عربی اور اسلامی علوم کے ایک بین الاقوامی سکالر ہیں، اپنے رفقا سمیت جیل میں سڑ رہے ہیں۔ نیب ان کے خلاف کوئی ریفرنس دائر نہیں کر پایا۔ میاں جاوید کو بھی فروغِ علم کے جرم کی پاداش میںحوالۂ زنداں کر دیا گیا۔
ڈاکٹر اکرم چودھری آٹھ سال سرگودھا یونیورسٹی کے سربراہ رہے، اور اسے ایک مثالی درس گاہ بنا دیا۔ دور و نزدیک اس کی دھوم مچ گئی، ان کی اجتہادی بصیرت نے نت نئے تجربات کیے۔ فارمیسی کی بنیاد رکھی، تاکہ مقامی جڑی بوٹیوں کی مدد سے ادویات تیار کی جا سکیں۔ ''خوش آب‘‘ کے نام سے صاف پانی کا کارخانہ لگایا، میڈیکل کالج، لیبارٹری اور ہسپتال قائم کئے، اور سرگودھا کے باسیوں کو علاج کی بہتر سہولتیں بھی فراہم ہونے لگیں۔ انہوں نے یونیورسٹی کے چند کیمپس بیرونِ سرگودھا بھی قائم کر ڈالے، اس جذبے کے ساتھ پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کی آبیاری کی کہ معیاری تعلیم کم فیس پر فراہم ہو، اور یونیورسٹی کی معیشت بھی مضبوط ہو۔ اس معاملے کے بعض فنی پہلوئوں کو بنیاد بنا کر متعلقہ ادارہ ان کے خلاف حرکت میں آیا، اور انہیں کئی رفقا سمیت ہتھکڑیاں لگا کر پورے مُلک سے تھو تھو وصول کی۔ اب ڈاکٹر اکرم چودھری جیسا دیانت دار اور با کردار شخص ''اجتہادی کاوش‘‘ کی سزا بھگت رہا ہے، ان کے چند ساتھی بھی ان کے ہمراہ ہیں۔ میاں جاوید لاہور کیمپس کے سربراہ تھے کہ ان پر احتساب کے ادارے کی بجلی گری۔ الزامات کا طوفان کھڑا کر دیا گیا، جو ان کے دِل کا روگ بھی بن گیا۔ کسی نے ان کی فریاد نہ سنی، کسی نے مبینہ بے ضابطگی اور بد دیانتی کے فرق کو نہ سمجھا، بالآخر یہی معاملہ ان کے لئے موت کا پیغام بن گیا۔ جیل حکام اور پولیس والوں میں سے کسی نے بھی ان کو شہر علم کا ممتاز شہری تو کجا پاکستان کا باسی بھی نہ سمجھا کہ برق رفتاری سے ان کی خبر لیتی۔ جیل سے چند قدم کے فاصلے پر واقع 1122 کے دفتر سے طبی سہولتوں سے لیس ایمبولینس منگوا لیتے۔ وہ کسمپرسی کے عالم میں قیدِ زندگی سے آزاد ہو گئے۔ لیکن پروفیسر ڈاکٹر اکرم چودھری اور ان کے رفقا ابھی تک زندہ ''لاش‘‘ کی صورت لاہور کی کیمپ جیل میں زندگی کے دن گن رہے ہیں۔ مردہ اور زندہ ''لاشیں‘‘ اپنے علم دوست وزیر اعظم سے سوال کر رہی ہیں کہ اہلِ علم کی اس رسوائی کے بعد بھی فروغ علم کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے؟ علم کی روشنی کو پھیلانے میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے؎
آپ کے دور میں کہیں حسن کو لوگ بے وفا
آپ کو کچھ خبر بھی ہے آپ نے کچھ سنا بھی ہے
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved