تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     23-12-2018

قدرت اللہ شہاب سے فواد حسن فواد تک

جب پاکستان بنا تو ہمارے حصے میں صرف ایک سو کے قریب سینئر سول سرونٹ آئے۔ ان میں سب سے اہم چوہدری محمد علی تھے جو نوزائیدہ مملکت کے سیکرٹری جنرل بنے۔ وہ دوسری جنگ عظیم میں انڈین گورنمنٹ کے ڈی جی سپلائز رہے۔ ان کا تعلق اکاؤنٹ سروس سے تھا۔ 1946ء میں کانگریس اور مسلم لیگ کی مخلوط گورنمنٹ بنی تو لیاقت علی خان کو وزیر خزانہ کا قلمدان پیش کیا گیا۔ نوابزادہ صاحب ذرا پریشان تھے کیونکہ بجٹ بنانے کے دن تھے۔ چوہدری محمد علی نے انہیں کہا کہ آپ یہ عہدہ فوراً قبول کرلیں اور باقی مجھ پر چھوڑ دیں۔ بجٹ چوہدری محمد علی نے بنایا اور کانگریس والے ششدر رہ گئے۔ ان کا خیال تھا کہ مسلمان حساب کتاب میں خاصے کمزور ہوتے ہیں۔ چوہدری صاحب بعد میں وزیراعظم بنے اور پاکستان کو 1956ء کا آئین دیا۔ ایک مرتبہ بیمار ہوئے تو ڈاکٹروں نے ملک سے باہر علاج کا مشورہ دیا۔ چوہدری صاحب نے حکومت سے قرض لیا۔ علاج کے بعد واپس آئے اور سارا قرض حکومت کو اقساط میں واپس کیا۔ ان کے اندرون ملک اور بیرون ملک کوئی قابل ذکر اثاثے نہ تھے۔
ملک بنا تو لاکھوں مہاجرین انڈیا سے لٹے پُٹے آئے۔ انہیں کلیم کے مطابق گھر الاٹ کرنا آسان کام نہ تھا۔ کراچی میں سید ہاشم رضا اور اے ٹی نقوی جیسے آئی سی ایس کے سابقہ افسر تھے‘ جو اب سی ایس پی بن چکے تھے۔ ان افسروں کی نگرانی میں یہ بڑا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے پایا۔ ایک مرتبہ سید اجلال حیدر زیدی سے پوچھا گیا کہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے اچھا دور کون سا تھا۔ سامعین کا خیال تھا کہ وہ ایوب خان کے دور کو سب سے اچھا کہیں گے کہ اُس زمانے میں پاکستان نے شاندار ترقی کی۔ زیدی صاحب کا جواب اس سے ہٹ کر تھا۔ وہ کہنے لگے کہ 1947ء سے لے کر 1955ء تک کا زمانہ پاکستان کا گورننس کے اعتبار سے گولڈن پیریڈ تھا۔ پھر وضاحت کی کہ اس زمانے میں پاکستان کو کوئی فارن ایڈ نہیں ملی اور ہمارے اپنے وسائل بے حد محدود تھے۔ مگر بہت بڑے چیلنج پر قابو پا لیا گیا کیونکہ ہماری سول سروس شاندار تھی۔
قدرت اللہ شہاب نہ صرف سرکردہ بیورو کریٹ تھے بلکہ ایک صوفی بھی۔ ذہانت کا یہ عالم کہ سولہ سال کی عمر میں ریڈرز ڈائجسٹ کے منعقد کردہ عالمی مقابلے کے لئے مضمون لکھا اور اوّل انعام حاصل کیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگلش کیا۔ 1941ء میں مقابلے کا امتحان دے کر آئی سی ایس کے لئے سلیکٹ ہوئے۔ وہ ریاست جموں و کشمیر سے آئی سی ایس بننے والے پہلے مسلمان تھے۔ گورنر جنرل غلام محمد‘ صدر سکندر مرزا اور صدر ایوب خان کے پرنسپل سیکرٹری رہے۔ ہالینڈ میں سفیر مقرر ہوئے تو جاتے ہی سوال کیا کہ میری سرکاری کار اتنی بڑی اور مہنگی کیوں ہے۔ اردو کی چھ کتابوں کے مصنف ہیں۔ انفارمیشن اور وزارت تعلیم کے فیڈرل سیکرٹری ہے۔ عشق رسولؐ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ان کی تحریروں میں پاکستان سے محبت عیاں ہے۔ ایک مرتبہ علیل ہوئے تو کسی دوست نے پوچھا: آپ کی صحت کیسی ہے جواب دیا: الحمد للہ میری روحانی صحت اچھی ہے۔ ان کی ایمانداری پر کبھی کوئی انگلی تک نہ اٹھا سکا۔
فواد حسن فواد 1960ء میں راولپنڈی کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ تعلیم سر سید کالج سے حاصل کی۔ 1987میں ڈی ایم جی کے لئے سیلیکٹ ہوئے۔ یہ وہی سروس گروپ ہے جسے ایک زمانے میں سی ایس پی کہا جاتا تھا۔ جرمنی میں سفارت خانہ پاکستان میں کمرشل اتاشی رہے۔ لاہور میں وزیراعلیٰ کے سیکرٹری برائے عمل درآمد بنے۔ اُن کی اسی پوسٹنگ کے دوران آشیانہ ہاؤسنگ سکیم کیلئے نئے ٹھیکیدار کا انتخاب کیا گیا۔ اُن پر الزام ہے کہ وہ اس خلاف قانون کام میں شامل تھے اور اسی الزام کی وجہ سے وہ اب نیب کی تحویل میں ہیں لیکن گرفتاری سے پہلے تقریباً چار سال تک اقتدار کا ہما فواد پر مہربان رہا۔ 2013ء میں وہ کئی وفاقی سول سرونٹس کے مقابلے میں خاصے جونیئر تھے لیکن وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری بنے تو کئی بڑے بڑے سیاست دان اور فیڈرل سیکرٹری اُن سے چند منٹ ملاقات کے متمنی رہتے۔ فواد پر یہ بھی الزام ہے کہ اُن کے اثاثے ذرائع آمدنی سے کہیں زیادہ ہیں۔ انہیں راولپنڈی میں ایک پلازے کا مالک بھی کہا جا رہا ہے۔ دروغ برگردن راوی‘ کچھ باخبر لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ فواد نے لندن میں ایک خاصا مہنگا اپارٹمنٹ بھی خریدا ہوا ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ معلومات اور الزامات افترا ہوں لیکن دو تین دن پہلے یہ خبر بھی آئی کہ فواد نے نیب کو پلی بارگین کے لئے درخواست دی ہے۔ اگر یہ خبر صحیح ہے تو ملزم اپنے جرم کا اقرار کر رہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمارے موجودہ عہد میں فواد حسن فواد اور احد چیمہ کی قبیل کے افسر کیوں پیدا ہو رہے ہی۔ انہیں اہم عہدے کیوں دیئے جاتے ہیں۔ آج کا سول سرونٹ مادی فوائد کے پیچھے کیوں دوڑ رہا ہے؟ کیا یہ حالات ہم نے خود پیدا کئے ہیں اور پھر خود ہی ماتم بھی کر رہے ہیں۔
میں نے 1972ء میں سول سروس اکیڈیمی جوائن کی تو زیر تربیت افسروں میں ایک خاص قسم کا پرائڈ نظر آیا۔ اسے تکبر نہیںکہا جا سکتا‘ فخر اس بات کا تھا کہ ہم اپنی محنت اور ذہانت کے بل بوتے پر اچھی سروس میں آئے ہیں‘ معاشرہ ہمیں عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ہم نے ملک و قوم کی خدمت اسی طرح کرنی ہے جیسے چوہدری محمد علی، قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر جیسے افسروں نے کی۔ اکیڈیمی میں افسران بنگلے کوٹھیاں اور بینک بیلنس بنانے کا نہیں سوچتے تھے۔
یہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے ابتدائی ایام تھے۔ ایک دن خبر آئی کہ بھٹو صاحب کی حکومت نے 1300 افسروں کو نالائقی کی بنا پر فارغ کر دیا ہے۔ دستوری گارنٹی واپس لے لی گئی۔ فارغ کئے گئے افسروں کو شوکاز نوٹس تک نہ دیا گیا۔ یہاں سے سول سرونٹ کو سیاسی آقاؤں کا ذاتی غلام بنانے کا آغاز ہوا۔ سروسز کے لوگوں میں ایک عجیب قسم کا عدم تحفظ پیدا ہوا۔ غالباً پیپلز پارٹی کی حکومت یہی چاہتی تھی۔ پھر لیٹرل انٹری کے چور دروازے سے من پسند لوگ لائے گئے۔ 1973ء میں سیلیکٹ کئے گئے افسر کامن ٹریننگ پانے لگے ورنہ اس سے پہلے سول اور فارن گروس کے افسر علیحدہ ٹریننگ کرتے تھے۔ محمود و ایاز کو ایک کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایک روز ڈی جی صاحب کو حکم ملا کہ زیر تربیت افسروں سے لاہور شہر کی شاہراہوں کی صفائی کرائی جائے تاکہ ان کے ذہنوں سے افسری کا خناس نکلے۔ ہمارے معاشرے کا نیوٹرل گیئر بہت ہی کمزور ہے۔ ہم افراط و تفریط کا شکار لوگ ہیں۔ 1973ء میں سارے پاکستان میں فرسٹ پوزیشن حاصل کرنے والے افسر نے دوران ٹریننگ ہی سروس کو خیر با د کہہ دیا‘ اور اسے پرائیویٹ سیکٹر میں بہت اچھی جاب مل گئی۔ بھٹو صاحب نے تمام ڈپٹی کمشنروں کو حکم دیا کہ روزانہ اپنے دفتر سے باہر آ کر عوام کی شکایات سنیں۔ کئی ضلعی ہیڈ کوارٹرز پر پارٹی کے جیالوں نے افسروں کی اہانت بھی کی۔
انگریز نے ڈپٹی کمشنر کا ادارہ بہت سوچ سمجھ کر لمبے عرصے میں بنایا تھا۔ اس پوسٹ کا پہلا نام ڈپٹی کلکٹر یعنی بنیادی فنکشن مالیہ اکٹھا کرنا تھا۔ پھر بدیسی حکمرانوں نے اس چیز کا ادراک کیا کہ جن اضلاع میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہے وہاں سے مالیہ زیادہ وصول ہوتا ہے‘ لہٰذا ڈپٹی کمشنر کو مجسٹریٹ کے اختیارات بھی دے دیئے گئے اور ضلعی پولیس افسر کو بھی اُس کے تابع کر دیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ناظم سسٹم متعارف کرایا تو پولیس کو ڈی سی سے لے کر ناظم کے انڈر کر دیا اور مجسٹریسی اختیارات بھی واپس لے لئے‘ گویا ڈپٹی کمشنر کا عہدہ بہت ڈی گریڈ ہو گیا۔ جب معاشرے میں میرٹ پر آئے ہوئے افسر کی بھی عزت نہ رہے تو پھر وہ سوچتا ہے کہ جائز‘ ناجائز طریقے سے مال و دولت بناؤ کہ یہ سوسائٹی پیسے کی پجاری ہے۔ پچھلے پندرہ بیس برسوں میں تنخواہوں کے کئی تضادات پیدا ہوئے۔ ویسے بھی سرکاری ملازمین کی تنخواہ پرائیویٹ سیکٹر سے کم ہے۔ گریڈ سترہ کا سٹارٹ غالباً 55ہزار روپے ماہانہ ہے۔ کیا اس تنخواہ میں کوئی افسر عزت سے گزارہ کر سکتا ہے۔ برطانوی دور میں فیڈرل سیکرٹری اور اعلیٰ عدلیہ کے جج کی تنخواہیں برابر تھیں لیکن آج یہ توازن بگڑ چکا ہے۔ پروفیشنل ون (P-I) وہ گریڈ ہے جو پرائیویٹ سیکٹر سے لئے گئے کنسلٹنٹ کو دیا جاتا ہے۔ یہ پے سکیل بھی فیڈرل سیکرٹری سے زیادہ ہے۔ ان حالات میں افسران لامحالہ دیگر ذرائع سے روپیہ بنانے کا سوچتے ہیں۔ شریف لوگ اچھے ٹی اے ڈی اے والے جاب تلاش کرتے ہیں۔ چند ایک غیر ملکی ڈونر ایجنسیوں کے ساتھ ڈیپوٹیشن لے لیتے ہیں اور احد چیمہ جیسے بھیکی پاور پلانٹ کا دوسرا چارج لے کر چودہ لاکھ روپے ماہانہ پاتے ہیں۔ (جاری )

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved