گھر کی چار دیواری میں بچے کی مسکراہٹیں، شرارتیں، زندگی کو حسن اور تازگی سے ہم کنار کرتی ہیں، یکسانیت کا بوجھ ڈھوتی، اس زندگی کے بوجھل سے شب و روز میں، ننھے بچوں کی پیاری پیاری باتیں، اداس چہروں کو بھی مسکرانے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ ماں باپ، اور بزرگوں کے سائے میں پرورش پاتے، بچے، امروز اور فردا کی سوچوں سے ماوراء ان کے پھولوں کی طرح ہنستے مسکراتے چہرے، زندگی کی خوب صورت تصویر پیش کرتے ہیں مگر اس وقت جب ایسے ہی پھول سے نازک بچے انسان کی ستم ظریفی یا تقدیر کے ہاتھوں، گھر کے آنگنوں سے دور، سڑکوں اور گلیوں پر اپنی زندگی گزارنے لگیں تو اک لمحے کو دنیا کی تمام تر ترقی اور خوبصورتی ماند پڑ جاتی ہے جہاں ننھے بچے، ٹمٹماتے دیے کی طرح آندھیوں کی زد میں ہوں، وہ دنیا بدصورت لگنے لگتی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ اس دنیا میں کروڑوں بچے، بے گھر ہیں۔ وہ اپنی زندگی گلیوں، سڑکوں، فٹ پاتھوں پر گزارتے ہیں۔ صبح اٹھنے پر انہیں گرم دودھ کا گلاس نہیں ملتا، ناشتے میں محبت سے بنایا ماں کے ہاتھوں کا آملیٹ اور گرم گرم پراٹھا نہیں ملتا، کوئی سکول بس ان کا انتظار نہیں کرتی، صاف ستھرا چمکتا ہوا یونیفارم ان کے مقدر میں نہیں ہوتا۔ ان گلیوں میں رہنے والے بچوں کی قسمت میں وہ سب کچھ ہوتا ہے جو اس منظر نامے کے بالکل برعکس ہے۔ میلے کپڑے، بھوک سے اترے چہرے ، لوگوں کی گالیاں اور زمانے کی ٹھوکریں۔ عالمی دنوں کے اس جمعہ بازار میں ایک دن ان بدنصیب بچوں کے نام پر بھی منایا جانے لگا ہے۔ غالباً 2010ء میں 12 اپریل کو پہلی بار یہ دن ان کے نام پر منایا گیا جب اقوام متحدہ کے عالمی ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق کروڑوں بچے دنیا بھر میں بے گھر ہیں۔ ان کی بے گھری کی وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں مگر اس راستے میں پیش آنے والی مشکلات، مصائب اور تکلیفیں تقریباً ایک سی ہیں۔ ابھی دو دن پہلے 12 اپریل کو ہمارے ہاں بھی بے گھر بچوں کا دن منایا گیا۔ بدقسمتی سے پاکستان چند ممالک میں شامل ہے جہاں گلیوں میں زندگی بسر کرنے والے بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ دوسرے ملکوں میں انڈیا، انڈونیشیا، افغانستان اور ویت نام شامل ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی ترقی یافتہ ملک اس بدنما داغ سے نہیں بچ سکا، یہاں تک کہ چین اور امریکہ میں بھی لاکھوں بچے گلیوں میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ ہوم لیسں چلڈرن یا گلیوں، سڑکوں پر زندگی گزارنے والے بچے، ہر طرح کی بدنصیبی کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ ہر طرح کے ذہنی، جسمانی اور جنسی استحصال سے گزرتے ہیں۔ جہاں ایسے بچوں کی حفاظت اور بہبود کے لیے دنیا بھر میں بہت سی این جی اوز اور سرکاری ادارے کام کررہے ہیں وہیں، ایسے مافیاز کی بھی کمی نہیں ہے جو ان بچوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کریں۔ یہ تلخ حقیقت شاید پڑھنے والوں کو افسوسناک حیرت سے دوچار کردے کہ پانچ سے چودہ پندرہ سال کی عمر کے بچے بھی ان مافیاز کے ہاتھوں سیکس ورکرز کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ اس کم عمری میں یہ بے گھر بدنصیب بچے، کئی طرح کی بیماریوں کا شکار ہو کر سسک سسک کر جان دے دیتے ہیں۔ کوئی ان کی مدد کو نہیں بڑھتا۔ دنیا بھر میں سٹریٹ چلڈرن کی بڑھتی ہوئی وجہ، کہیں تو قدرتی آفات ہیں اور کہیں انسان کے ہاتھوں سلگائی ہوئی، جنگوں کی آگ ہے، جس میں ان ننھے بچوں کا مستقبل راکھ ہوجاتاہے اور وہ تمام عمر، ہوا کے دوش پر رکھے ہوئے چراغوں کی مانند، کبھی بھڑکتے، کبھی جلتے اور کبھی بجھتے رہتے ہیں۔ افغانستان جیسا ملک جو وقفوں وقفوں سے جنگ کا شکار رہا، بے شمار بچے وہاں موجود بارودی سرنگوں کا شکار ہو کر اپنے جسمانی اعضا سے محروم ہوجاتے ہیں۔ جنگوں کی نذر ہونے والے ملک افغانستان میں صورت حال یہ ہے کہ لاکھوں سرخ و سفید رنگت والے بچوں کے ماں باپ اور گھر، جنگ کی آگ میں راکھ ہوئے اوراب وہ زمانے کی ٹھوکریں کھانے کیلئے زرد پتوں کی طرح آندھیوں کی زد میں ہیں۔ دہشت گردی کی اس بے چہرہ جنگ نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جوظلم ڈھایا وہاں کے بچے بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔ اس وقت لاہور کی گلیوں میں باجوڑ اور خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے 10 سے 15 سال کے کئی بچے، سٹریٹ چلڈرن کی زندگی گزاررہے ہیں۔ ایک معاصر انگریزی اخبار سے تعلق رکھنے والی سینئر صحافی نے ان بچوں کے حوالے سے خصوصی رپورٹس پر کام کیا ہے۔ مگر اس کے باوجود انہوں نے کہا کہ ان رپورٹس کو اخبار کی زینت نہیں بننا چاہیے کیونکہ پھر یہ سٹریٹ چلڈرن ان مافیاز کی نظر میں آجائیں گے جو ان کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں مگر یہ بات یہاں تذکرہ کرنے کی ہے کہ تین ٹین ایجر بیٹوں کی والدہ، یہ خاتون صحافی چونکہ ایک ہمدرد ماں کا دل رکھتی ہیں تو وہ اپنے طور پر آج بھی باجوڑ کے بے گھر بچوں کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہیں۔ یہ پانچ چھ بچوں کا گروپ ہے، جو سارا دن بوٹ پالش کرتے ہیں یا اسی طرح کی چھوٹی موٹی نوکریاں کرکے دن گزارتے ہیں اور شام کو ڈیوس روڈ کے فٹ پاتھ پر سو جاتے ہیں۔ وہ کبھی ان بچوں کو حلوہ پوری کا ناشتہ کرواتی ہیں۔ کبھی عیدوں پر ان کے کرتے شلوار سلواتی ہیں، کبھی ان میں صابن، ٹوتھ برش اور ٹوتھ پیسٹ تقسیم کرتی ہیں۔ صفائی کے آداب سکھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ ان کی ’’باجی‘‘ ہیں۔ میری یہ درویش صفت اور ہمدرد دل دوست بھی ان بے گھر بچوں کو نظر آئیں تو وہ ہمارا باجی کا نعرہ لگاتے ہیں ان کے چہرے خوشی سے کھل اٹھتے ہیں۔ اپنی دوست سے معذرت کے ساتھ کہ میں نے اس کے اس کارخیر کو کالم کا حصہ بنایا جو اس کے اور چند ایک دوستوں کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا۔ شاید اس لیے کہ اگر ہم چاہیں تو انفرادی طور پر بھی اپنا حصہ ڈال کر ہوا کے دوش پر رکھے ہوئے چراغوں کی سی زندگی گزارنے والے ان بدقسمت سٹریٹ چلڈرن کی زندگیوں میں کچھ نہ کچھ بہتری لاسکتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved