عدلیہ‘ اسٹیبلشمنٹ ٹھنڈے دل سے سوچیں‘
ہم ملک کو کہاں لے جا رہیں: سعد رفیق
سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''عدلیہ‘ اسٹیبلشمنٹ ٹھنڈے دل سے سوچیں‘ ہم ملک کو کہاں لے جا رہے ہیں‘‘ اگرچہ اصل میں تو یہ بات ہمارے سوچنے کی ہے‘ جواس ملک کو جہاں بھی لے جا رہے ہیں؛ حالانکہ ہم نے اپنے دور میں یہ طے کر لیا تھا ‘بلکہ اسے وہاں پہنچا بھی دیا تھا‘ جہاں اب یہ پہنچ چکا ہے اور ہم خود اس لیے نہیں سوچتے کہ اپنے کیے پر خواہ مخواہ دماغ سوزی کی کیا ضرورت ہے‘ تاہم ہم یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ ادارے ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں کہ ہم ملک کو جہاں پہنچانا چاہتے تھے‘ وہاں واقعی پہنچا دیا ہے یا کوئی کسر اگر رہ گئی ہے‘ تو اسے بھی نکالنے کے بارے سوچ بچار کریں؛ اگرچہ سوچ بچار کا سارا کام ہمارے قائد ہی کیا کرتے تھے‘ جو کہ اب پھر جیل جانے اور وہاں کیا کچھ کرنے کے بارے میں ہی سوچا کرتے ہیں‘ جبکہ کھانا کھانے کے بعد اُن کا دماغ زیادہ تیزی سے کام کرنے لگتا ہے ۔ آپ اگلے روز قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
جھوٹے مقدمات سے ہمیں ڈرایا نہیں جا سکتا: آصف زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''ہمیں جھوٹے مقدمات سے ڈرایا‘ دھمکایا نہیں جا سکتا‘‘ کیونکہ جب سچے مقدمات ہی موجود ہیں‘ تو اُنہی پر اکتفاء کرنے کی بجائے جھوٹے مقدمات کا سہارا لینے کی کیا ضرورت ہے؟ حالانکہ منی لانڈرنگ والے ایک کیس میں ہی حکومت اور نیب دونوں کی تسلی ہو جانی چاہیے ‘کیونکہ جو کام بھی کیا جائے‘ پوری تسلی ہی سے کرنا چاہیے‘ جس طرح خاکسار پوری تسلی کے ساتھ ہی ہر کام کرتا ہے اور تسلی مکمل ہونے تک کام بھی جاری رہتا ہے‘ کیونکہ کام کو بیچ میں ہی چھوڑ دینا کوئی جوانمردی نہیں اور میں نے جس دلیری اور جوانمردی سے یہ معرکہ سر کیا ہے‘ وہ سب کے سامنے ہے اور نیب والے ؛اگر اس دوران سست روی کا شکار ہوئے‘ تو اُن کی ساری محنت پر ہی پانی پھر جائے گا۔ آپ اگلے روز کراچی میں گڑھی خدا بخش میں جلسے کی تیاریوں کا جائزہ لے رہے تھے۔
شہباز شریف کو سیاست میں کامیابی کیلئے اہلیہ کی ضرورت نہیں: تہمینہ
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی اہلیہ تہمینہ درانی نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف کو سیاست میں کامیابی کے لیے اہلیہ کی ضرورت نہیں‘‘ کیونکہ جب سیاست میں کامیابی کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہا‘ تو اُنہیں اس سلسلے میں اہلیہ کو زحمت دینے کی کیا ضرورت ہے‘ جبکہ مقدمات کی روز افزوں تعداد کو دیکھا جائے‘ تو سیاست کی ہی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی ‘تو اس میں کامیابی کا سوال کہاں سے پیدا ہوگا‘ نیز یہ کہ وہ پہلے ہی اس قدر کامیابی کا منہ دیکھ چکے ہیں‘ تو ایسے قناعت پسند آدمی کو زیادہ لالچ کرنے کی کیا ضرورت ہے اور وہ کامیابی اس قدر بھرپور تھی کہ اب وہ کسی سے بھی سنبھالی نہیں جا رہی؛ حالانکہ میں مسلسل کہتی رہی کہ دونوں بھائیوں کو احتیاط سے چلنا چاہیے‘ لیکن کامیابی اگر حد درجے مفید بھی ہو‘ تو احتیاط کون کرتا ہے۔آپ اگلے روز لاہور میں سوشل میڈیا سے پیغام جاری کر رہی تھیں۔
زرداری اور فریال تالپور کے خلاف جے آئی ٹی
کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے: خورشید شاہ
پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ''زرداری اور فریال تالپور کے خلاف جے آئی ٹی کے پاس کوئی ثبوت نہیں‘‘ کیونکہ جو ثبوت ان کے پاس ہے‘ ہم اسے ثبوت سمجھتے ہی نہیں‘ اس لیے اسے چاہیے کہ ایسا ثبوت اکٹھا کرے‘ جسے ہم بھی ثبوت سمجھیں ‘جبکہ زرداری صاحب نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ جیل اُن کا دوسرا گھر ہے اور وہ اپنے گھر ہی جائیں گے اور چونکہ وہ کافی عرصے کے بعد اس گھر میں منتقل ہوں گے‘ اس لیے اُن کا ارادہ ہے کہ عمر عزیز کا باقی حصہ اسی گھر میں رہ کر گزارا جائے‘ کیونکہ جیل میں سہولیات اگر گھر سے بھی زیادہ ہوں تو کون بیوقوف ہوگا‘ جو جیل سے باہر رہنے کی تمنا کرے گا‘ جبکہ ان کے کئی دیگر جانثاران بھی دلجوئی کے لیے اُن کے ساتھ ہوں گے اور وہ مہمانداری کا لطف بھی اُٹھاتے رہیںگے‘ کیونکہ بی کلاس میں ہوشربا قسم کی سہولتیں بھی حاصل ہوتی ہیں ۔ آپ اگلے روز کراچی میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
یہ بھی کہہ سکتے نہیں ہیں کس قدر ہوتا نہیں
ایسے گرم و سرد کا ہم پر اثر ہوتا نہیں
فرق آئے گا بھلا کیا اپنے معمولات میں
سب اِدھر ہوتا رہے گا جو اُدھر ہوتا نہیں
کچھ کہیں تو اک مسلسل خامشی رہتی ہے اب
یوں جواب اُن کا بھی کوئی مختصر ہوتا نہیں
ہونے والے کا بھی رہتا ہے سراسر انتظار
جو نہیں ہوتا ہے وہ بھی سر بسر ہوتا نہیں
رات وہ آتی ہے آتے آتے رہ جاتی ہے جو
دن گزرتا بھی وہی ہے جو بسر ہوتا نہیں
شہر میں سارے فرشتے ہی فرشتے ہیں جہاں
اور کوئی اپنے سوا بندہ بشر ہوتا نہیں
فکر میں غلطاں نظر آئیں گے ہم ہی آپ کو
غور ہے اُس پر بھی جو پیشِ نظر ہوتا نہیں
رنگ بھرتے ہی رہیں گے بے نشاں تصویر میں
کام کرتے ہی رہیں گے ہم اگر ہوتا نہیں
ہم اُسی کو چوم کر واپس پلٹتے ہیں‘ ظفرؔ
راہ میں دیوار تو ہوتی ہے‘ در ہوتا نہیں
آج کا مطلع
یہ ترے راستوں سے گزرنا تو ہے
شعر کہنا تجھے یاد کرنا تو ہے