عدالت نے ملزم کو جوڈیشل کسٹڈی میں رکھنے کا حکم صادر کیا ۔ ظاہر ہے عدالت بے قصور ٹھہرتی ہے ۔ تفتیشی زندہ حوالاتی کو جوڈیشل لاک اَپ میں بند کروانے لے گیا ۔ اُس کی غلطی کہاں سے آئی ۔ جیلر نے قیدی وصول کر کے اس کے پنجے لگوائے ۔ پھر اُسے چکر جمع دار کے حوالے کیا۔ اس میں کیا غلط ہوا۔ چکر جمع دار نے پروفیسر میاں جاوید احمد کو بیرک نمبر دار کے سپرد کر دیا ۔ وہ بھی بری الذمہ ہے۔ بیرک ، جیل سپرنٹنڈنٹ کے حکم کے بغیر نہیں کھل سکتی ۔ وہ حکم جاری ہونے میں تاخیر ہوئی جس کی وجہ (Prision Rules ) کا قانون ہے۔ کسی بندے کی کیا غلطی ۔ سروسز ہسپتال لاہور والے کہتے ہیں: حوالاتی ''ڈیڈ ریسیوڈ‘‘ کے زمرے میں آیا۔ جس کا مطلب یہ ہوا وہ ہسپتال پہنچنے سے پہلے اپنی جان ، جانِ آفریں کے سپرد کر چکا تھا ۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ (Corpse Autopsy Report) کہتی ہے : پروفیسر میاں جاوید احمد کی موت کا سبب (Cause of Death) حرکتِ قلب بند ہو جانا ہے ۔ لے دے کے پولیس کے 3 فُٹ کانسٹیبل ہمارے نظامِ قانون اور انصاف کے مندر کے قصور وار نکل آئے ۔ پوٹھوہاری زبان کا ایک مقولہ ہے : کھیت کی باڑ ہمیشہ کمزور کی زمین والی سائیڈ پر ٹوٹتی ہے ۔ بکری کا بچہ شیر کا پانی گدلا کر ے نہ کرے مارا جائے گا ۔ ہماری کہانیوں میں بز کُشی صرف حکا یت نہیں ‘ بلکہ زور آوروں کا پسندیدہ کھیل بھی ہے ۔ تب بھی یہ کھیل چلتا تھا جب انسان درختوں کے جنگل کا باسی تھا ۔ آج بھی وہی کھیل چل رہا ہے اور اُس کا انجام بھی وہی ‘ جب حضرتِ انسان کنکریٹ کے جنگل میں آ بسا ہے ۔
پاکستان کے موجودہ نظامِ قانون و انصاف میں دو حوالاتیوں کے مقدمے باقاعدہ (Case Study ) یعنی قابلِ تحقیق موضوع بن کر سامنے آ ئے ہیں ۔ دونوں حوالاتی قومی احتساب کے ایک ہی ادارے نے گرفتار کئے۔ دونوں کی گرفتاری کا سال 2018 ہے ۔ دونوں کے خلاف نیب آ رڈی نینس مجریہ 1999 کی دفعہ 9 اور 10 کا چارج لگایا گیا ۔ دونوں کو جیل میں بند کیا گیا ۔ دونوں ملزموں کی تاریخ پیشیاں ایک جیسی عدا لت کے رو برو ہوئیں ‘ لیکن دونوں کے ساتھ یکساں سلوک نہیں ہوا ۔ ایک غلام ابنِ غلام اور دوسرے کو بادشاہ ابنِ بادشاہ بنا دیا گیا ۔ دونوں ملزموں سے روا رکھے گئے اس امتیازی سلوک نے ثابت کر دیا کہ ہمارے اداروں تک میں طبقاتی تقسیم (Class Distinction) کی جڑیں کس قدر گہری ہیں ۔ سرگودھا یونیورسٹی ہو یا کو ئی اور یونیورسٹی ‘ اگر اس طبقاتی تقسیم پر کوئی پی ایچ ڈی (PHD) کروانا چاہے تو اس تحقیق کا اشاراتی سناپسس یوں بنتا ہے۔
نمبر 1 :۔ ایک ہی قانون کے تحت پکڑے گئے دو حوالاتی ملزموں سے یکساں سلوک ہونا چا ہیے ۔ یا ایک سے برہمن والا اور دوسرے سے دِلت شودر جیسا...؟ کیا فرماتے ہیں آئینِ پاکستان میں درج آرٹیکل 4, 9, 2-A, 10-A اور آ رٹیکل نمبر 25 ۔
نمبر 2 :۔ کیا دونوں ملزموں کو گرفتار کرتے وقت برابر کا قانون لاگو ہوا۔ پروفیسر جاوید احمد صاحب کے لیے ہتھ کڑی اور 56 کمپنیوں ، ہوائی پانی، آشیانہ کی بجائے گھونسلہ جیسے فراڈ کے موجد کے لیے سرکاری خرچ پر ایئرکنڈیشنڈ S.U.V استعمال میں آئی۔
نمبر3 :۔ کیا دونوں ملزموں کو ایک ہی حوالات میں ایک جیسی سہولتیں حاصل تھیں یا پروفیسر جاوید احمد صاحب کے لیے کال کوٹھری اور دال چپاتی مل سکیں‘ جبکہ میگا کرپشن کے گرفتارِ اعلیٰ کے لیے 5 سٹار ناشتہ آیا۔ 7 سٹار لنچ بھی اور محلاتی ڈِنر کی سروس دستیاب ہوئی۔
نمبر 4 :۔ کیا دونوں ملزموں کو جیل میں یکساں سہولتیں دی گئیں ۔ کون نہیں جانتا کہ ان دونوں میں سے ایک ملزم اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیسر تھے ۔ جبکہ دوسرا اٹکل پچو والا واجبی سا خواندہ تاجر ۔ لاہور کے رپورٹر جیل سے وہ خبر کرید لائے ہیں جسے چھپایا جا رہا تھا ۔ ایک استاد کے لیے یخ بستہ رات میں صرف ایک کمبل ۔ جو چاہیں تو اُوپر اُوڑھ لیں ، یا چاہیں تو برفانی سردی میں یخ بستہ زمین پر اُسے رکھ کر اُوپر لیٹ جائیں ۔ جیل جانے کے ذا تی تجربے کی وجہ سے مجھے معلوم ہے جیل کی کو ئی بھی دیوار 30 انچ سے کم موٹائی نہیں رکھتی ۔ ہر بیرک اور سیل کی چھت 15-16 فٹ اُونچی ہے تا کہ کوئی ملزم خود کشی نہ کر سکے ۔ ایسے میں ایک کمبل میں سونے والا بیمار نہیں ہو گا تو اور کیا ہو گا۔
یہ بھی قومی میڈیا نے ہی بتایا کہ دوسرے حوالاتی کے لیے پلنگ ، گرم بستر ، ہیٹر، ٹیلی ویژن ، کرسی اور میز سرکاری خرچ پر منگوا ئے گئے ۔ ایسے لگا جیسے تاجِ برطا نیہ کا وائسرائے جیل میں دورے پر آیا ہے ‘ کرپشنِ اعلیٰ کا ملزم نہیں ۔ سوشل میڈیا پر پوچھا جانے والا ایک سوال 100 فیصد جائز ہے ۔ یہی کہ جس اعلیٰ تعلیم کی بنیاد پر جیل مینول نے شہباز شریف کو بستر سے ٹی وی تک اور کرسی سے بیوی کے ہاتھوں کے بنے کھانے تک کی اجازت دی ‘ وہی جیل مینول شہباز شریف سے زیادہ اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیسر میاں جاوید احمد پر لاگو نہیں ہوتا۔
نمبر 5 :۔ کیا پروفیسر جاوید احمد اور شہباز شریف دونوں کو ایک جیسی گا ڑیوں اور ایک جیسے ہو ائی سفر کی سہولت دی گئی ؟ یہ جان کر دل ہلکان ہوتا ہے کہ پروفیسر جاوید احمد کے لیے آکسیجن تھی نہ پیرا میڈیکل سٹاف اور دل کی مشینوں سے لیس ایمبو لینس۔ کرپشن کے دوسرے حوالاتی کے لیے جتنی گاڑیاں ساتھ دوڑائی جا رہی ہیں ‘ اُس کی اجازت کون سا قانون دیتا ہے ۔ پو لیس رولز یا جیل رولز ۔ یا اُن سہولتوں کی اجازت ٹرائل کورٹ سے مانگی گئی ۔ یہ سوال بھی جائز ہے ، کہ کرپشن کے جرم کو ''گلیمرائز‘‘ کر نے کے لیے گرفتاری سے پروڈکشن کا ناٹک رچایا جا رہا ہے۔ سوال تو یہ بھی صد فی صد جا ئز ہے کہ جس ملزم کو سیشن جج پر مشتمل مجاز عدالت ضابطہ فوجداری کی دفعہ 167 کے تحت 14 دن کے لیے ریمانڈ پر بھیجے ‘ وہ ریمانڈ آرڈر کسی بالا عدالت سے معطل نہ ہو تو ضابطہ فوجداری کی کس دفعہ کے مطابق اُسے پروڈکشن آرڈر معطل کر سکتا ہے۔
تاریخ بتا تی ہے کہ شریف برادران کے لیے‘ اُن کے خاندان کے لیے‘ بلکہ باورچیان کے لیے بھی قانون کی یہ دھجیاں مشرف دور میں بکھیری گئیں۔ اُس وقت جب چھوٹا بھائی حوالاتی تھا اور بڑا بھا ئی سزا یافتہ قیدی تو دونوں کو نہ کسی عدالت نے رہا کیا‘ نہ چھو ٹے بھائی کا جوڈیشل ریمانڈsuspend ہوا‘ نہ ہی بڑے بھائی کی سزا معطل ۔ پوری قوم گواہ ہے کہ میاں برادران، اُن کا پورا خاندان مع تمام باورچیان قانون کو ''بائے با ئے‘‘ کہہ کر جدہ کے سلطان کے مہمان بن گئے۔ سرور پیلس میں۔
سوچ لیں آ ئندہ نسلوں کے لیے یہ ''سٹیٹس کو‘‘ توڑ کر چلیں یا لاقانونیت کی نشانی جمہوریت چھوڑ کے ‘ جسے بچانے کے لیے پی اے سی میں کرپشن کنگ ریاستی تفتیش کاروں کو کٹہرے میں طلب کر سکے۔
تاریخ بتا تی ہے کہ شریف برادران کے لیے‘ اُن کے خاندان کیلئے‘ بلکہ باورچیان کے لیے بھی قانون کی یہ دھجیاں مشرف دور میں بکھیری گئیں۔ اُس وقت جب چھوٹا بھائی حوالاتی تھا اور بڑا بھا ئی سزا یافتہ قیدی تو دونوں کو نہ کسی عدالت نے
رہا کیا‘ نہ چھو ٹے بھائی کا جوڈیشل ریمانڈ suspend ہوا‘ نہ ہی بڑے بھائی کی سزا معطل ۔