تذبذب خواہ کسی معاملے میں ہو‘ بہت سے حوالوں سے زہرِ قاتل ثابت ہوا کرتا ہے۔ فیصلوں پر شدید منفی انداز سے اثر انداز ہونے والے عوامل میں تذبذب سر فہرست ہے۔ انفرادی فیصلے بھی اس ایک عِلّت کے ہاتھوں شدید ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں۔ ایسے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اجتماعی سطح پر تذبذب کیا گل کھلاتا ہوگا۔
ہم سات عشروں سے انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر شدید تذبذب کا شکار رہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اسلام کے نام پر ایک خطۂ زمین کو وطن کا روپ دھارے ہوئے سات عشرے گزر جانے پر بھی پاکستان کے قیام کے جواز و عدم جواز کی بحث چھیڑنے میں ہم کوئی باک محسوس نہیں کرتے! یہ آزادی کہیں اور میسر نہیں۔ کسی بھی ملک میں بیٹھ کر اُس کے جواز و عدم جواز پر بات کرکے دیکھ لیجیے‘ آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔ بہت سی چھوٹی اور قدرے کمزور ریاستیں بھی اپنے ہاں اس نوعیت کی بحث کو کسی طور برداشت نہیں کرتیں اور جسے وطن اچھا نہ لگ رہا ہو‘ اُسے نکال باہر کرنے میں دیر نہیں لگاتیں۔ یہ تو پاکستان ہی ہے کہ اب تک لوگوں کو یہ سوچنے کی آزادی میسر ہے کہ ملک کو قائم ہونا چاہیے تھا یا نہیں۔
وطن کے قیام کی غایت اور جواز و عدم جواز پر بحث کے بطن ہی سے تذبذب برآمد ہوا ہے۔ کوئی‘ اگر اپنے وجود کے بارے میں کچھ بھی سوچتے اور کہتے ہوئے ہچکچائے تو بہت کچھ الجھ جاتا ہے‘ نفسی ساخت شدید متاثر ہوتی ہے اور عمل سے بے رغبتی بڑھتی ہے۔ کائنات کا ایک زرّیں اور بالکل واضح اصول یہ بھی ہے کہ معاملات سب سے چھوٹی اور سب سے بڑی سطح پر یکساں اثرات کے حامل رہتے ہیں۔ ہر قدر اپنی اصل میں کسی بھی سطح اور پیمانے پر اثرات و نتائج کے حوالے سے ایک ہی رہتی ہے۔
فکری ڈھانچے میں اگر تذبذب شامل ہو جائے ‘تو بہت کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔ ہمارے ساتھ ہی ہوا ہے۔ ہم نے قدم قدم پر چند بُت تراشے اور اُن کی پوجا کرتے وقت بھول گئے کہ ہمیں تو مُوحّد خلق کیا گیا ہے۔ قومی وجود کے حوالے سے ہمیں خالص توحید کا مظاہرہ کرنا تھا‘ مگر ہم نے شیوۂ آذری اپناکر توحید کو بالائے طاق رکھ دیا۔ کم و بیش 6 عشروں تک معاملہ یہ رہا کہ ؎
آگے بڑھے نہ قِصّۂ عشقِ بُتاں سے ہم
سب کچھ کہا مگر نہ کُھلے راز داں سے ہم
اب کچھ ہوش آیا ہے تو دنیا کچھ کی کچھ دکھائی دے رہی ہے۔ یہ ایسی ہی کیفیت ہے کہ جیسے کوئی گہری نیند سو رہا ہو اور کچھ اندازہ ہی نہ ہو کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔ آنکھ کھلنے پر معلوم ہو کہ ہر طرف پانی ہی پانی ہے اور بہت کچھ بہہ چکا ہے۔
معاملہ یہ بھی نہیں تھا کہ کسی نے کچھ سمجھایا نہ ہو۔ ایک زمانے تک پند و نصائح کا بازار گرم رہا۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر راہ نُمائی کا اہتمام کیا جاتا رہا‘ مگر ہم ٹس سے مس نہ ہوئے۔ ؎
لوگ سمجھاتے رہ گئے دل کو
ہوش جاتے رہے تو ہوش آیا
مغرب کے خِرمن سے خوشہ چینی کا ارادہ کیا تو ایسی پختگی کے ساتھ کہ پھر ایک ہی دکان سے مال خریدتے رہنے کی ذہنیت اپنالی۔ عالمی منڈی میں اور بھی دکانیں تھیں‘ مگر ہم نے طے کرلیا تھا کہ دکان اور تاجر کے معاملے میں خالص وحدت کا اصول اپنائیں گے اور اسی پر عمل پیرا بھی رہیں گے! یہ تھی اندازے کی غلطی۔ انگریزی میں کہیے تو سارے انڈے ایک ٹوکری میں رکھ دیئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ فرد اور قوم دونوں کو بدلنا ہوتا ہے۔ ہم بھی اِس حقیقت سے واقف تھے‘ مگر واقفیت کے مرحلے ہی میں رہے‘ اسے گلے لگانے کی منزل تک نہ آئے۔ کبھی نہ سوچا کہ جو کچھ لازم دکھائی دے وہ کرنا بھی پڑتا ہے۔
اہلِ مغرب نے ہماری دیوانگی دیکھی تو وہی سلوک روا رکھا جو دیوانوں سے روا رکھا جاتا ہے۔ ہم نے پانچ عشروں سے بھی زائد مدت تک مغرب کے پرستار کی حیثیت سے زندگی بسر کی۔ تھوڑے کو بہت جانا اور اُس سے ڈپلومیٹک آٹو گراف لینے ہی پر خوش اور قانع رہے! اب جبکہ دنیا ناقابلِ یقین حد تک بدل گئی ہے اور ع
... پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی ہیں جاتی
والا معاملہ ہوگیا ہے تب ہمیں ہوش آیا ہے۔ سبھی کچھ اتنا بدل گیا ہے کہ حیرت کا بازار گرم ہے۔ دوائے دل بیچنے والے جب دکان بڑھانے کی تیاری کر رہے ہیں تب ہمیں یہ فکر لاحق ہوئی ہے کہ کوئی نئی دکان تلاش کی جائے۔ نئے سامان کے لیے تو نئی دکان ہی تلاش کرنا پڑتی ہے۔ عشروں سے جن کی پوجا کرتے آئے ہیں‘ وہ بُت ٹوٹ رہے ہیں۔ صنم کدۂ مغرب اپنا سِحر کھوچکا ہے۔ اس صنم کدے سے کچھ بھی نہ مل سکا۔ خدا کی راہ سے ہٹ کر جس صنم کے وصال کی حسرت میں مر مرکے جیتے رہے اُس نے بھی وصال کے مرحلے تک آنے (یا لانے) سے انکار کردیا تو گہری نیند سے جاگنے کی سی کیفیت ہم پر طاری ہوئی ہے۔ ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیاں دیکھ دیکھ کر آنکھیں حیران اور دل و دماغ پریشان ہیں۔ انفرادی اور اجتماعی کیفیت ایک سی ہے ۔ ہم چوراہے پر کھڑے ہیں اور کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کس طرف کو جائیں‘ کون سا راستہ منزلِ مقصود تک لے جانے کا وسیلہ بنے گا۔ قدم قدم پر خوف دامن گیر ہے۔ کل تک مغرب کے جس بُت کی پوجا کی اُس کی اصلیت اچھی خاصی کُھل چکی ہے۔ تب ہی تو دل و دماغ نئی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ ؎
اب بھاگتے ہیں سایۂ عشقِ بُتاں سے ہم
کچھ دل سے ہیں ڈرے ہوئے‘ کچھ آسماں سے ہم
حالات و واقعات کی روش پر کتنا ہی غور کیجیے‘ گھوم پھر کر اسی نکتے پر آئیے گا کہ اب تذبذب کا چلن نہیں اس لیے اگر سوچنا ہے ‘تو شرحِ صدر کے ساتھ اور اُس پر عمل کرنا ہے تو شرحِ صدر کے ساتھ۔
صنم کدۂ مغرب سے دوری یوں یقینی ہوئی کہ بہت کچھ اُن بُتوں نے خود بھی واضح کردیا۔ معاملہ کچھ کچھ ''مجھ کو پرائی کیا پڑی ...‘‘ والا بھی ہے‘ جنہیں اپنی فکر لاحق ہو تو اوروں کی طرف کیا دیکھیں اور کیوں دیکھیں؟ اور صد شُکر کہ ہمیں کچھ ہوش تو آیا‘ باتیں سمجھ میں تو آرہی ہیں۔ گویا ع
کچھ پا گئے ہیں آپ کی طرزِ بیاں سے ہم
قومی قیادت راستہ بدل رہی ہے۔ معاملات دکان بدلنے تک محدود نہیں رہنے چاہئیں‘ سامان بھی نیا اور کام کا ہونا چاہیے۔ صنم کدۂ مغرب کو الوداع کہنا اچھا ہے‘ مگر ایسا نہ ہو کہ ہم نئے صنم تلاش کرلیں یا تراش لیں۔ ہم بھی مشرق ہیں اور اچھا ہے کہ مشرق ہی کی طرف دیکھیں ‘مگر ساتھ اس نکتے پر بھی توجہ دی جائے‘ اب صرف وہی کچھ دیکھنا ہے ‘جو کام کا ہو‘ زمینی حقائق سے میل کھاتا ہو۔ ہمیں اُس کیفیت سے بچنا ہے ‘جسے دیکھ دیکھ کر ضمیر کی آواز کچوکے لگاتی رہتی ہے کہ ؎
بُتوں سے تجھ کو اُمیدیں‘ خدا سے نَومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
اب تو واقعی وقت کم‘ مقابلہ سخت والا معاملہ آن پڑا ہے۔ قوموں کی زندگی میں درست وقت پر درست فیصلے کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ وقت کے اس موڑ پر ہمیں درست فیصلے کرنے ہیں۔ آج کی پیچیدہ دنیا میں قدم قدم پر سانپ سیڑھی والی بساط بچھی ہوئی ہے۔ ایک قدم غلط پڑا تو کہیں سے لُڑھک کرکہیں جا گِرے۔ ہم دکان بدلنے چلے تو وقت چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے ... مشتری ہشیار باش!