تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     25-12-2018

چین اور پاکستان کے تاریخ ساز رشتے

2018ء میں امریکی انتظامیہ نے پاکستان پر امداد کے دروازے بند کردئیے۔سوچ یہ تھی کہ اس عمل سے پاکستان اور اس کی اسٹیبلشمنٹ دبائومیں آئے گی۔پاکستانی ہچکولے کھاتی ہوئی معیشت اور اس بندش کے سبب‘ یہ فیصلے من و عن قبول کر لیے جائیں گے‘حقیقت اس کے برعکس نکلی ۔پاکستان اس خدشے کے پیش نظردوسرا راستہ پہلے ہی تلاش کرچکا تھا۔ پاکستان اور چین کے مابین کئی خفیہ معاہدے ہوئے‘ جن کا مقصدپاکستان میں تعمیراتی کاموں کی تعدادبڑھانے کے ساتھ عسکری ہتھیاروں کی تجارت کو مزید فروغ دینا ہے۔اکثر ان معاہدوں کا ذکر آئی ایم ایف کی شرائط میں بھی دکھائی دیا کہ پاکستان چین کے ساتھ اپنے مستقبل کے معاہدے سامنے لائے‘ جس پر پاکستان نے تحفظات ظاہر کیے اور آئی ایم ایف کی اس شرط کو ماننے سے انکار کیا۔یہ معاہدے امریکی میڈیا کی شہ سرخیوں میں بھی رہے ۔پینٹا گان کی جانب سے بیان بھی جاری ہوا ''بیجنگ ہتھیاروں کی تجارت اور عسکری استعدادبڑھانے کے عمل میں مصروف ہے ‘‘۔چین 72ممالک کی تجارت سے وابستہ اس منصوبے پر‘ ایک کھرب کے لگ بھگ سرمایہ کاری کر رہا ہے۔چین کے جغرافیائی قافلوں میں شریک قابل اعتماد ''نیوکلیئر‘‘ دوست پاکستان کا اس منصوبے میں سرفہرست ہونا‘دوسرے ممالک کا اعتماد حاصل کرنے میںکافی حد تک مددگارثابت ہو سکتا ہے۔ چین‘ پاکستان کے مخصوص حصے میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے ‘جس کا مقصد تجارتی آمدورفت کے لیے بحیرہ عرب جیسے راستوں کا استعما ل میں لانا ہے‘مگر اس فیصلے کا اثر بھارت اور امریکہ پر پڑے گا۔اس خطے میں دو بڑی بحری طاقتیں جنم لے رہی ہیں ‘جو ان دونوں کے لیے کافی مسائل پیدا کرسکتی ہیں۔پاک چین راہداری جیسے منصوبوں کی دیکھ بھال کے لیے چینی سیٹیلائٹ نظام ''بائیڈو‘‘ کا دائرہ کار وسیع ہوسکتا ہے اور اس نظام تک پاکستانی رسائی‘ بآسانی ممکن بھی ہو جائے گی۔
پاکستان اور چین‘بھارت کے مقابلے میں کافی بڑی مارکیٹ بن جائیں گے ۔ پاکستان اپنے مخفی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے ‘اس خطے کی چین کے بعد دوسری بڑی طاقت بن سکتا ہے۔یہ مستحکم معیشت کی جانب اشارہ ہے۔چین کو سب سے بڑا فائدہ اپنے ہتھیاروں ودیگر مصنوعات کی تجارت بڑھانے اور دنیا کو اپنی طاقت دکھانے کے لیے بہترین پلیٹ فارم مل رہا ہے۔ تعمیراتی منصوبوں میں سکیورٹی کے کئی خدشات پیداہورہے ہیں‘ جن کے پیش نظر دونوں ممالک کی قیادت جامع پالیسی بنانے میں سرگرم ہیں۔
پاک چین راہداری منصوبے کے تحت ‘چین نے 800 ملین ڈالر گوادر بندرگاہ پر خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا‘ جس میں چینی کمپنیوں کو شامل کیا۔اس بندرگاہ کو بلوچستان سے ہوتے ہوئے ہائی وے اور ریل کے ذریعے 2000میل تک چین سے جوڑا جائے گا۔ 2013ء میں جب چین نے اس منصوبے کا آغاز کیا‘ اس وقت پاکستان کو کئی مسائل کا سا منا تھا۔غیر ملکی سرمایہ کاری ختم ہوتی جارہی تھی ‘جس کی بنیادی وجہ دہشت گردی ‘کرپشن کے متعلق پاکستانی ساکھ اور بجلی کے بڑھتے ہوئے بحران تھے۔جب بیجنگ نے گوادر سے چین تک اس منصوبے کی پیشکش کی ‘تو پاکستانی حکام نے پاور پلانٹس لگانے پر اصرار کیا‘ جس پر چینی حکومت نے رضامندی ظاہر کی۔2018 ء کے ابتدائی مہینوں میں پاکستانی اور چینی فضائیہ نے کئی منصوبوںکی بنیادیں رکھیں۔پاکستان نے نئی جنریشن کے جنگی جہاز‘ریڈار اور ہتھیار وں کو پاکستان میں ہی بنانا اور اپ گریڈ کرنا شروع کردیا ۔اس سارے عمل میں چین پاکستان کی مدد کرنے لگا۔پاکستانی جے ایف تھنڈر17 کی نئی جنریشن کی پیداور میں اضافہ ہونے لگا‘ جو کہ امریکی F-16سے کسی صورت کم نہیں اور قیمت میں کافی سستے بھی ہیں۔یہ امریکہ کی تجارت کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی ‘کیونکہ اس سے چینی اور پاکستانی ہتھیاروں کی تجارت بڑھ جائے گی اور خطے میں ان ممالک کا اعتماد مزید بڑھ سکے گا۔ چین اور پاکستان نے مشترکہ سیٹیلائٹ کا آغاز کر دیا ہے‘ جسے خالصتاًپاکستان میں بنایا گیا۔اس معاہدے پر چین اور پاکستان نے 2013ء میں دستخط کیے تھے کہ وہ امریکی سیٹیلائٹ نظام جی پی ایس کی بجائے بائیڈو لائے گا۔اس کے تحت سکیورٹی کو یقینی بنائے گا۔2020 ء تک 35نئے منصوبوں پر کام جاری ہے‘ جو چینی سیٹیلائٹ نظام ''بائیڈو‘‘ سے منسلک ہونگے ۔یوں چینی سیٹیلائٹ ''بائیڈو‘‘ امریکی جی پی ایس کے متبادل کے طور پر استعمال ہوگا۔وقت کے ساتھ‘ دیگر ممالک بھی اس کے استعمال کو یقینی بنا سکیں گے۔بائیڈو نظام کی پذیرائی کے لیے‘ رواں سال چین نے ا س نظام کے متعلق مکمل تفصیلات اپنے ہتھیاروں کی نمائش میں سر فہرست رکھیں۔
اس سال الیکشن کے بعد تبدیل ہونے والی حکومت‘ عمران خان اور چین کے مابین تناؤ دیکھنے کوضرور ملا۔ خصوصی طورپر جب انہوں نے سعودی فرمائش پر پاک چین راہداری کا شراکت دار بنانے پر حامی بھری۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی بروقت اقدامات خاص کر پاکستانی فوج کے سربراہ نے چین کا دورہ کیا اور چینی حکام کو اعتماد میں لیا‘ جس کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بھی چین کا دورہ کیا۔دونوں ممالک کے درمیان بڑھتا ہوا اعتماد کا فقدان ختم ہوا ‘مگر سارے معاملے میں غور طلب بات یہ ہے کہ چینی اورپاکستانی قیادت میں کس قدرباہمی اعتماد ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved