تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     26-12-2018

جمہوریت؟....ترے رنگ رنگ

کب؟کہاں اور کیسے؟ کسی بھی ملک کی پالیسیوںسے متعلق فیصلے ہوتے ہیں؟سب جانتے ہیں؟حالات کو مدنظررکھتے ہوئے ان فیصلوں کا اختیار عام شہریوں کو دے دیا جائے؟ تواس کے کیا اثرات پڑتے ہیں؟ان تمام سوالات کا جواب بریگزٹ کی صورت میں عوام نے دیا۔سچ کیا ہے کوئی نہیں جانتا؟ایک طویل بحث جو قریباً 25سو سال سے قدیم یونانیوں اور جمہوریہ روم کے درمیان جدید جمہوری نظام لانے کے لیے جاری تھی۔تاریخ کی کتب میں کہیں بھی بحراوقیانوس کے دونوں اطراف جمہوری یکطرفہ فیصلہ نہیںملے گا۔ ریفرنڈم اس بحث کا ایک موزوں جواب ہے۔کیا ریفرنڈم آمریت کا ایک ہتھیار ہے ؟جیسا کہ سابق جنگ کے دوران برطانوی وزیراعظم نے اٹلی کو وارننگ دی تھی یا جو عالمی تجارت‘جغرافیائی تبد یلیو ں ‘ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ودیگر فیصلوں پر حکومت کو منتخب کرنے کے لیے رائے عامہ کے فیصلے ہوتے ہیں؟ریفرنڈم پسند لوگ سوئٹزرلینڈ کی مثال دیتے ہیں۔اس ریفرنڈم میں 8.4ملین لوگوں نے اپنا حق رائے دیہی استعمال کرتے ہوئے لائیو سٹاک اور دیگر محکموں کی تنخواہیں بندکرنے پر اپنا فیصلہ حکومت وقت کو سنایا۔الیکشن کا نتیجہ اتنا کارآمد ثابت نہیں ہوا ‘مگر اکثریت کی آواز سنائی دی۔دنیا سوئٹزرلینڈ بھی نہیں۔تاریخ شاہد ہے کئی آمر ریفرنڈم کا غلط استعمال بھی کرتے رہے ہیں۔کچھ ریفرنڈم وہ ہوتے نہیں‘جو دکھائی دیتے ہیں۔
1990ء سے لے کر اب تک پچھلی آزادی کی سرد جنگیںہوں یا پھر اقتدار کی ‘اس کی بہترین مثالیں ہیں۔سابق برطانوی وزیراعظم 2016ء میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والی شخصیت رائے دہندگان دکھائی دے رہے تھے‘ مگر بریگزٹ کے متعلق بحث و مباحثہ کی وجہ سے گراف میں کمی واقع ہوئی ۔سابق اٹالین وزیراعظم ماٹیوورینزی نے اپنی نوکری بھی گنوا دی‘ جب آئینی اصلاحات 2016ء میں ان کی پارٹی نے کیں اور عوام نے غصہ کا اظہار کرتے ہوئے ان کے خلاف فیصلہ دیا۔فرانسیسی صدر‘ ایمانیول میکرون کی کئی مثالیں موجود ہیں۔کئی یورپی ممالک ریفرنڈم کو اپنے اور ملکی مفادات میں نہ ہضم ہونے والی پالیسیوں کے دفاع میں بہترین ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ڈنمارک کے ووٹر نے 1992 ء میں یورپی یونین کے فیصلے کو رد کر دیا۔حکومت نے اپنے فیصلے کو تقویت دینے کی خاطردوبارہ ریفرنڈم کرایا‘جس میں حکومت کے مطلوبہ نتائج ملے جو دفاع‘نظام عدل اور داخلی امور کے متعلق وہ چاہتے تھے۔ ڈنمارک ‘ آسٹریلیا‘ فن لینڈاور سویڈن نے جب یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی‘سویڈن کو یورو کے استعمال پر تحفظات تھے ‘ جبکہ فن لینڈ اور آسٹریلیا نے ملکی مفادات مقدم رکھتے ہوئے ‘اس فیصلے کو قبول کیا۔
آئرلینڈ نے ووٹر کی ہاں یا نہ کی اہمیت کو اس وقت اجاگر کیا‘ جب ان کے دوسرے ریفرنڈم میںعسکری پالیسیوں‘غیرمنصفانہ عائد ڈیوٹی ٹیکسزاور مزدوروں کے حقوق پریورپی یونین کے احکامات سامنے آئے۔2005ئمیں جب یورپی پارلیمنٹ نے آئین کے متعلق ریفرنڈم کرایااس وقت بھی کئی شکوک و شبہات سامنے آئے۔برطانیہ سمجھ رہا تھاکہ بریگزٹ کے اس ریفرنڈم سے انہیں فیصلے کرنے میں آسانی ہوگی اور معاملے کی نوعیت کا بھی علم ہوگاکہ آیا ان کا یورپی یونین میں رہنا ملکی مفادات میں اہم ہے یا نہیں ؟یہ موضوع برطانوی میڈیا کی زینت بنا رہا۔لگ بھگ 262کالم اور تجزیے مقامی اخبارات میں شائع ہوئے۔حکومت نے براہ راست جواب دینے کی بجائے کہ وہ یورپی یونین کا حصہ نہیں بن سکتے‘ایک جمہوری طریقہ کار اپنایا‘ جسے پارلیمانی ووٹ‘الیکشن یاریفرنڈم کہہ سکتے ہیں۔23جون2016ء کو برطانوی پارلیمنٹ نے ریفرنڈم کے ذریعے فیصلہ یورپی یونین کے سامنے رکھا کہ وہ مزید اس کا حصہ نہیں رہ سکیں گے۔ریفرنڈم میں 71.8 فیصد لوگوں نے حصہ لیا۔51.9فیصد کا کہنا تھا‘ وہ یورپی یونین کا مزید ساتھ نہیں چاہتے‘ جبکہ 48.1فیصد نے اس کے ساتھ چلنا ملکی مفاد میں بہتر قرار دیا۔قریبا ً30ملین عوام اس ووٹنگ کے عمل کا حصہ بنے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا برطانیہ‘یورپی یونین کامزید حصہ رہے گا ؟کنارہ کشی اختیار کرے گا؟یورپی کورٹ نے 10دسمبر 2018ء کو فیصلہ دیاکہ برطانیہ آرٹیکل 50 بریگزٹ سے متعلق فیصلے کو یورپی یونین کے 27 ممبران کی اجازت کے بغیر ختم نہیں کر سکتا‘ کیونکہ یہ ایک جمہوری نظام کے ذریعے سامنے آیا ہے ۔ قانون بھی یہی کہتا ہے۔وزیراعظم نے کنزرویٹوو ممبران کو خطرے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کرنا خطرہ مول لینے کے مترادف ہو گا۔ وزیراعظم کی اس بات کو دوسرے ریفرنڈم کی جانب اشارہ سمجھا جانے لگا۔ چند ماہ کے مذاکرات کے بعد یورپی یونین اور برطانیہ‘ بریگزٹ ڈیل پر متفق ہو گئے ۔اس ڈیل کے دو حصے بنائے گئے۔ 585صفحات پر مشتمل ایک معاہدہ مرتب کیا گیا۔ برطانوی کابینہ اس معاہدے پر راضی ہوگئی‘ مگر 14نومبر کو 2استعفیٰ بھی سامنے آئے‘جن میں سے ایک بریگزٹ سیکرٹری ڈومنگ راب کا تھا ۔ پتا نہیں کیوں؟ اب بھی برطانوی وزیراعظم اس معاملے کو طول دینے میں سرگرم دکھائی دیتے ہیں ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved