تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     26-12-2018

اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں

شوکت گجر نے فون پر مجھے متحدہ عرب امارات سے تین ارب ڈالر ملنے کی نوید سنائی۔ایمانداری کی بات ہے‘ دل ملال سے بھر گیا۔ اب یہ نوبت آ گئی ہے کہ ادھار یا خیرات‘ اسے جو دل چاہے کہہ لیں‘ باعث ِملال ہے۔ فی الوقت متحدہ عرب امارات جو سات چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے مجموعے کا نام ہے؛ ابوظہبی‘ دبئی‘ شارجہ‘ راس الخیمہ‘ اُم القرین‘ عجمان اور الفجیرہ۔ ان میں سے سمجھیں کہ صرف ابوظہبی ہے‘ جسے ان ریاستوں میں دو طرح کی فضیلت حاصل ہے؛ ایک تو یہ کہ متحدہ عرب امارات کے کل رقبے 83600 مربع کلو میٹر میں سے 67,340 مربع کلو میٹر صرف ابوظہبی کا ہے ‘جو امارات کے کل رقبے کا 86.7 فیصد ہے‘ جبکہ بقیہ چھ ریاستوں کا کل رقبہ ملا کر 13.3 فیصد ہے۔ یہ اکیلی ریاست دیگر چھ ریاستوں سے ساڑھے سات گنا بڑی ہے اور دوسری یہ کہ تیل کی آمدنی صرف اسی ریاست کی معیشت کا بنیادی ستون ہے اور امارات کی کل تیل کی پیداوار کا شاید 80 فیصد صرف ابوظہبی میں ہے‘ لیکن اس کے باوجود دبئی کی معیشت 2010ئ‘ 2007ء والی بدترین مندی کے علاوہ شاندار ہے۔ دبئی کا رقبہ 3885 کلو میٹر ہے ‘جو امارات کے کل رقبے کا محض پانچ فیصد ہے۔ ساری ریاست ایک شہر پر مشتمل ہے اور یہاں سالانہ ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ سیاح آتے ہیں۔ وجہ؟ صرف قانون کا نفاذ ‘ اداروں کی مضبوطی‘ امن و امان کی صورتحال اور بہترین معاشی پالیسیاں۔ آج امارات ہمیں تین ارب ڈالر کی خیرات (قابلِ واپسی) دے رہا ہے۔
ہماری معیشت خراب ہے۔ قرضوں کا طومار ہے۔ ترقیاتی کام رک گئے ہیں۔ موٹر وے پر کام سست ہو رہا ہے۔ نشتر ہسپتال کی دوائیوں کے لیے رقم نہیں ہے۔ کارڈیالوجی کے توسیعی منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے فی الوقت حکومت کے پاس دینے کے لیے دس کروڑ روپے بھی نہیں ہیں۔ ان سب کاموں کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے اور پیسے ہی نہیں ہیں‘ لیکن کیا ہم وہ کام بھی نہیں کر سکتے ‘جن کے لیے پیسوں کی قطعاً ضرورت نہیں‘ مثلاً: اداروں کی بہتری۔ یہ بہتری عمارتوں کی تعمیر‘ نئے فرنیچر‘ رنگ روغن اور لش پش سے متعلق نہیں ہے۔ صرف کام کی بہتری سے متعلق ہے۔ کسی دفتر میں ان سو دنوں میں کام بہتر نہیں ہوا۔ کسی دفتر میں فائل کی رفتار میں اضافہ نہیں ہوا۔ کسی ٹھیکے میں کرپشن کا عنصر ختم تو ایک طرف کم نہیں ہوا۔ کسی افسر کی حاضری بہتر نہیں ہوئی۔ کسی سرکاری ادارے کی کارکردگی میں رتی برابر بہتری نہیں آئی۔ ان ایک سو بیس پچیس دن میں کیا بہتر ہوا ہے؟صرف ٹیکس چوری میں کمی آ جائے تو ہمیں چین‘ سعودی عرب اور امارات وغیرہ سے مالی امداد کے لیے ذلیل و خوار نہ ہونا پڑے۔ صرف ٹیکس کے نظام کی بہتری سے ہمارے سارے دلدّر دُور ہو سکتے ہیں‘ لیکن یہ بہتری کون لائے گا؟ موجودہ ٹیکس اکٹھا کرنے پر مامور اداروں میں کام کرنے والوں کو صرف اپنے لیے مال بٹورنے سے غرض ہے۔ سب کو پتا ہے کہ کہاں کیا ہو رہا ہے؟ کون سا صنعتکار اور کاروباری ادارہ ٹیکس چوری کر رہا ہے‘ سب کو معلوم ہے‘ لیکن اپنی جیب گرم کرنے کے چکر میں ریاست کو مسلسل چونا لگایا جا رہا ہے۔ کس ڈاکٹر کی کتنی پریکٹس ہے؟ سارے شہر کو معلوم ہوتا ہے‘ لیکن صرف اس کے متعلقہ زون کے ٹیکس افسر کو ہی پتا نہیں ہوتا۔ لبرٹی مارکیٹ کے ایک بڑے سٹور پر دس بارہ تو سیلز مین ہیں اور ان کو گاہک بھگتانے سے فرصت نہیں ملتی‘ مگر وہ سٹور سالانہ چند ہزار روپے ٹیکس دیتا ہے۔ بڑے بڑے ہوٹلوں کو دیکھ لیں۔ اندر جائیں تو بیٹھنے کی جگہ نہیں ملتی۔ کھانے کی رسید پر ٹیکس کا اندراج بھی ہوتا ہے‘ لیکن ٹیکس آفس جا کر معلوم کریں تو پتا لگے گا کہ اس ہوٹل نے تو سالانہ اپنی ایک ماہ کی آمدنی پر واجب الادا ٹیکس بھی ادا نہیں کیا۔ یہ صرف ایک محکمے کا حال ہے۔ باقی ہر جگہ بھی یہی حال ہے۔ کیا ان اداروں کو ٹھیک کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی ضرورت ہے؟ کیا ان بے ایمان افسروں کا قبلہ درست کرنے کے لیے سعودی عرب سے پیسے مانگنے کے لیے منتیں کرنے کی کوئی ضرورت ہے؟ کیا اداروں کی سمت ٹھیک کرنے کے لیے سی پیک منصوبہ مکمل ہونے کا انتظار کیا جائے گا؟ تھانہ‘ کچہری اور محکمہ مال کا نظام ٹھیک کرنے کے لیے متحدہ عرب امارات سے قرضہ لینے کی کوئی ضرورت ہے؟سب افسر اور ملازم تنخواہ لے رہے ہیں۔ گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں۔ حسب ِضابطہ سرکاری گھروں میں رہ رہے ہیں یا حسب ِضابطہ گھروں کا کرایہ وصول کر رہے ہیں۔ دیگر سہولتیں استعمال کر رہے ہیں‘ اب صرف انہیں کام کرنے پر لگانا ہے۔ سرکاری ملازم اس ملک میں کا م نہ کرنے کی تنخواہ اور کام کرنے کے لیے رشوت لیتا ہے۔ اب اسے کام کرنے کے عوض تنخواہ لینے کی پٹڑی پر لانا ہے۔ اس کام کے لیے کسی مزید رقم کی ضرورت نہیں اور اگر یہ کام ہو جائے تو مزید خیرات‘ صدقات اور ادھار لینے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔
ٹریفک کا نظام درست کرنے کے لیے ٹریفک پولیس موجود ہے۔ قوانین موجود ہیں۔ اب ان قوانین پر عملدرآمد کروانے کی راہ میں کونسی معاشی تنگی حائل ہے؟ دور کیا جائوں؟ ملتان میں بوسن روڈ کو ٹریفک کیلئے ماڈل روڈ قرار دیا گیا ہے۔ماڈل روڈ کا یہ عالم ہے کہ ہر یو ٹرن پر(اس سڑک پر نو نمبر چونگی سے لیکر ناردرن بائی پاس چوک تک کل پانچ یوٹرن ہیں) صرف چند گز بچانے کیلئے موٹرسائیکل والے تو ایک طرف رہے‘ اچھے بھلے پڑھے لکھے اور گاڑیوں پر سوار لوگ‘ ون وے کی خلاف ورزی کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک دو نہیں‘ لاتعداد اور بے شمار۔ ٹریفک پولیس والے ایک ایک ‘دو دو کی شکل میں ان یوٹرنز پر ڈیوٹی دینے کی بجائے چار چھ کے جتھوں کی صورت معروف چوکوں کے کنارے پر کھڑے خوش گپیوں میں‘ موبائل پر کھیلنے میں یا پھر دیہاتیوں کے چالان کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کی بنیادی ذمہ داری ٹریفک کا نظام ٹھیک رکھنا ہے‘ مگر ان کا خیال ہے کہ ان کی اصل ڈیوٹی چالان کرنا ہے یا پھر کچھ نہیں کرنا۔ کیا ون وے کی خلاف ورزی روکنے کیلئے ایک ایک موٹرسائیکل پر چار چار سواریوں کا سدباب کرنے میں‘ گردن اور کان کے درمیان موبائل پھنسا کر ‘ گردن ٹیڑھی کر کے مسلسل موٹرسائیکل چلانے والے کے کان کھینچنے اور کم عمر ڈرائیوروں پر سختی کرنے کیلئے وزیراعظم کو چین جا کر مالی امداد کی اپیل کرنے کی کوئی ضرورت ہے؟ کسی کام کے لیے اضافی نفری‘ مزید رقم یا قانون سازی کی بھی ضرورت نہیں۔ ہر شے موجود ہے‘ صرف کمی ہے تو ایمانداری سے کام کرنے کی ہے اور اگر کرپشن کے خلاف احتساب کا نعرہ لگانے والے حکمران سرکاری محکموں سے ایمانداری اور دیانتداری سے کام نہیں لے سکتے‘ تو یہ بھی بے ایمانی ہے اور بے ایمانی کرپشن کا ہی دوسرا نام ہے۔حکمرانوں کا کام کیا ہوتا ہے؟ حکومت چلانا اور حکومت چلانا کیا ہے؟ دیئے گئے‘ نظام کو احسن طریقے سے چلانا ‘حکومت کی پہلی اور آخری ذمہ داری ہے۔ اگر ایف آئی اے‘ نیب اور اینٹی کرپشن والے ٹھیک کام کرنا شروع کر دیں تو حکومت کو اپنی ساری توجہ میڈیا پر بڑھکیں لگانے میں نا صرف کرنی پڑے‘ لیکن موجودہ قانون میں رہتے ہوئے کسی سرکاری افسر کو دوبارہ پٹڑی پر چڑھانا تقریباً نا ممکن ہے۔جس ملک میں ہر چور‘ ڈاکو‘ نکمے‘ نا اہل‘ بے ایمان‘ کام چور اور کرپٹ سرکاری افسر کو عدالتیں حکم امتناعی جاری کر دیں۔ ثبوت اور گواہوں کا فرسودہ نظام مددگار بن جائے۔ تفتیشی اور منصف برائے فروخت ہوں‘ بھلا وہاں بلا تخصیص احتساب کہاں ممکن ہے اور قانون کی عملداری کیسے ہو سکتی ہے؟
اس نظام قانون کو اور نظام عدل کو مکمل اوور ہالنگ کی ضرورت ہے۔ اس اوور ہالنگ کے لیے کسی کو قرض لینے‘ خیرات مانگنے‘ زکوٰۃ اکٹھی کرنے اور صدقات وصول کرنے کے لیے آئی ایم ایف‘ چین‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جانے کی ضرورت نہیں۔ صرف عدلیہ اور مقننہ کو ان کے اصل کام پر توجہ دینے کی ضرورت ہے؛ اگر نظام درست ہو جائے تو کسی کو اپنا کام چھوڑ کر ہسپتالوں سے لیکر سکولوں کی فیس تک اور ڈیم سے لیکر کوڑا اٹھوانے تک کے کام نہ کرنے پڑتے‘ لیکن کیا کریں؟ اس ملک میں ہر محکمہ‘ ہر اداروں اور ہر شخص وہ کام کر رہا ہے‘ جو اس کا کام نہیں اور وہ وہی کام نہیں کر رہا‘ جو دراصل اس کا کام ہے۔ سسٹم ون وے ٹریفک کی طرح ہے‘ اپنی اپنی لین میں چلے تو ٹھیک‘ ورنہ انجام صرف ایکسیڈنٹ ہوتا ہے‘ جلد یا بدیر۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved