تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     15-04-2013

عوام یا اللہ کی حاکمیت

تین ایسی علامتیں ہیں جو اللہ نے اپنی خاص حکمت سے ان انتخابات سے پہلے ان لوگوں پر واضح کردیں جو اس ملک میں جمہوری راستے سے اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کے گزشتہ پینسٹھ سال سے دعویدار ہیں۔ یہ لوگ ہر اس اتحاد کا حصہ رہے جو جمہوری نظام کی بالادستی کے لیے قائم کیے گئے۔ اس دوران خواہ جلسے ہوتے یا جلوس نکلتے، سب کی زبان پر آئین، جمہوریت اور عوام کی حکمرانی کے نعرے ہوتے۔ اللہ کی حکمرانی اور شریعت کا نفاذ نجی مجالس کی تقریروں اور لٹریچر تک محدود ہوجاتا۔ جیلیں، تشدد، پولیس سے ہاتھا پائی اور دربدری صرف اور صرف جمہوریت کی بقا کے لیے کی جاتی۔ مختلف وقفوں میں جمہوریت اپنا چہرہ دکھاتی تو الیکشن منعقد ہوتے۔ ان الیکشنوں میں انتخابی اتحاد بنتے۔ پارلیمنٹ توڑ دی جاتی تو ہر وہ پارٹی جو اسلام کے نفاذ کی علم بردار تھی اپنے اتحادیوں سے گلے شکوے کرتی کہ ہم سے دھوکہ ہوا۔ ہم سے اس ملک میں شریعت کے نفاذ اور تمام قوانین کو شرعی بنانے کا جو وعدہ کیا گیا تھا وہ پورا نہ ہوا۔ دوبارہ الیکشن آتے اور رسول اللہﷺ کی اس حدیث کہ ’’مومن ایک سوراخ سے دوبار ڈسا نہیں جاتا‘‘ کے بالکل برعکس دوبارہ انہیں لوگوں کے ساتھ اتحاد کرلیا جاتا۔ ان کی حکومتیں ختم ہوتیں تو اپنے ان کارکنوں کو جو دین کے متوالے اور جانثار تھے سڑکوں پر نکالا جاتا۔ ان تمام لوگوں کو بخوبی علم تھا کہ ان کی اس جدوجہد کے نتیجے میں جو لوگ مسند اقتدار پر آئیں گے وہ اپنے عمل اور رنگ ڈھنگ میں، اپنی اخلاقیات اور بے ایمانی میں کسی آمر، ڈکٹیٹر یا فوجی حکمران سے کم نہ ہوں گے۔ پینسٹھ سال کے بعد اور آٹھ الیکشنوں کے تلخ تجربے سے بھی شاید ان لوگوں کو اس بات کا ادراک تک نہ ہوسکا کہ اس پورے جمہوری نظام میں ان کی جو حیثیت ہے وہ اتنی ہی ہے کہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ یہ سب کچھ آزادانہ ہورہا ہے اور ہر کسی کو الیکشن لڑ کر عزت حاصل کرنے یا ذلیل ہونے کی پوری آزادی ہے۔ لیکن موجودہ الیکشن کی گہما گہمی میں تین ایسی علامتیں ہیں جو ان صالحین ِملت پر کھول دی گئی ہیں۔ ایک تو اتنی واضح اور خوش آئند ہے کہ عقل و ہوش رکھنے والوں کے لیے یہی ایک دھچکا ہی کافی ہے۔ یہ پہلی دفعہ ہے کہ ہر بڑی سیاسی پارٹی نے انہیں اپنے دروازے سے اس طرح لوٹایا ہے کہ انہیں اپنی گزشتہ مشترکہ جدوجہد پر شرمندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آسکا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ کے ووٹوں کی انہیں ضرورت اسی وقت تھی جب اس ملک میں نظریاتی سیاست ہوتی تھی یا پھر اس کا ڈھونگ رچایا جاتا تھا۔ دائیں بازو یا اسلام پسند اور بائیں بازو یا سوشلسٹ، اس کے بعد سیکولر اور اسلام پسندوں کا دور آگیا۔ لیکن ان الیکشنوں میں تمام بڑی پارٹیوں کا منشور اٹھا کر دیکھ لیں سب کے سب سرمایہ دارانہ معیشت کے اہداف اور اللہ کے بجائے عوام کی حاکمیت کے قائل ہیں۔ اس لیے ان تمام پارٹیوں نے ان صالح جماعتوں کو مکھی کی طرح نکال کر باہر پھینک دیا ہے کہ اب انہیں ایسے ووٹوں کی کوئی ضرورت یا حاجت نہیں ہے‘ جو ایک ایک ووٹ گنتے ہیں‘ انہوں نے کس قدر تکبر سے ہر اس پارٹی کو واپس لوٹا دیا جو کسی بھی صورت میں اسلام کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے۔ دوسری اہم علامت یہ کہ پارلیمنٹ میں چیخ چیخ کر، شور مچا مچا کر تمام اسلامی پارٹیوں نے 62 اور 63 کی شقوں کو سات اسمبلیوں میں بحال رکھوایا۔ یہ ان کی نگاہ میں سب سے بڑی کارکردگی تھی۔ لیکن ان الیکشنوں میں میڈیا سے لے کر عدالتوں تک سب نے اس کے بخیئے ادھیڑ دیئے۔ اب اس اسمبلی میں شرابی، زانی، بددیانت اور منکرِ خدا بھی اسلامی قوانین کی تشکیل کے لیے الیکشن لڑ سکتا ہے اور آپ کے ساتھ برابر ووٹ رکھتا ہے۔ وہ آئین جس کے مطابق ہر قانون کو اسلامی بنایا جانا ضروری ہے اس کی اسمبلی میں ایک نیک و پارسا اور فاسق و فاجر دونوں برابر ہوں گے۔ تیسری علامت وہ سروے ہیں جو اس وقت پوری مغربی دنیا کی نیندیں اڑائے ہوئے ہیں۔ عوامی رائے کے ان تمام جائزوں کا تفصیلی ذکر کرنے کے لیے کئی کالم درکار ہیں اور میں نے کئی کالموں میں ان کا ذکر بھی کیا ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں مسلم اُمہ میں ہونے والے عوامی رائے کے جائزوں نے بار بار یہ ثابت کیا ہے کہ لوگ شریعت چاہتے ہیں۔ جبکہ بی بی سی کے تازہ سروے نے ان تمام اسلامی جماعتوں کے سامنے یہ حقیقت کھول دی کہ نوّے فیصد پاکستانی نوجوان جمہوریت سے مایوس ہیں اور ان میں اکثر اسلامی نظام چاہتے ہیں۔ اس سب کے باوجود بھی اگر کوئی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ جمہوریت کے راستے کہیں اللہ کے قوانین کو نافذ کرسکتا ہے تو یہ اس کی سب سے بڑی بھول ہے۔ جمہوریت جس کی بنیاد اور ترغیب عوام کی حاکمیت اور معاشی خوشحالی ہے وہاں آپ ان تمام پارٹیوں کے منشور اٹھا لیں جو اسلام کی دعوت لے کر اُٹھی ہیں اور پھر رسول اللہﷺ کی دعوت کو دیکھ لیں تو حیرت میں ڈوب جائیں۔ کیا سیدنا بلالؓ کو یہ دعوت دی گئی تھی کہ تم اسلام قبول کر لو تمہارے تمام معاشی مسائل حل ہوجائیں گے۔ اگر جمہوریت کے ذریعے مکّے کا اقتدار حاصل کرنا ہوتا تو مکہ کے تمام سردار جو تین پیشکشیں لے کر آپؐ کے پاس حاضر ہوئے تھے ان میں ایک یہ بھی شامل تھی کہ ہم آپ کو مکّے کا متفقہ سردار قبول کر لیتے ہیں۔ میثاق مدینہ کی بہت بات کی جاتی ہے۔ اگر وہاں الیکشن ہوتے تو منافقین کا سردار عبداللہ بن ابی جیت جاتا۔ اللہ‘ قرآن میں بار بار اکثریت کی نفی کرتا ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ اکثریت سے دین کے نفاذ کی بات کرتے ہیں۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ پھر راستہ کون سا ہے۔ راستہ وہی ہے جو جمہوریت کے نظام کے مقابل ہمیشہ کامیاب رہا۔ انقلاب ہمیشہ ایک منظم گروہ لے کر آتا ہے۔ فرانس میں انقلاب سے پہلے الیکشن کرائے گئے تھے تاکہ لوگوں کا غصہ کم ہو لیکن عوام کی ایک محدود تعداد تھی جو سیلاب کی طرح باہر نکلی اور پھر عوام کے دل کی آواز بن گئی۔ انقلاب میں کروڑوں لوگ سڑکوں پر نہیں نکلا کرتے۔ چند لاکھ لوگ عوام کی آواز بن کر میدان میں کودتے ہیں۔ روس، فرانس، چین اور ایران میں ایسا ہی ہوا۔ لیکن ان چند لاکھ لوگوں کو دانشوروں کی تحریریں میدان میں لے کر آتی ہیں۔ روس اور چین کے انقلاب میں کارل مارکس، انقلابِ فرانس میں والٹیئر اور روسو اور انقلابِ ایران میں ڈاکٹر شریعتی اور علامہ اقبال کی تحریریں ایک ہجوم کو باہر لے کر آئیں۔ ایسے حالات میں ایک منظم گروہ، یا پارٹی ایسی موجود ہوتی ہے جو عوام کے اس ہجوم میں قیادت کے خلاء کو پورا کرتی ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ یہ گروہ یا پارٹی انقلاب پر یقین رکھتی ہو، اس کے لیے اپنے کارکنوں کو بھی تیار کرتی ہو اور کارکنوں کو انقلاب کے لیے تیار کرنے کا مواد ترتیب دیتی ہو۔ اس کا تمام لٹریچر انقلابی راستے کی طرف رہنمائی کرے۔ جمہوریت کی چوسنی اور الیکشن کی لوریوں سے نہ وہ پارٹی ورکر جنم لیتا ہے اور نہ ہی لوگوں کو نظام کو بدلنے کیلئے سڑکوں پر نکلنے کا خیال آسکتا ہے۔ سب کے سب الیکشن کے امیدوار اور وزارتوں کے شوق میں سرگرداں ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سات الیکشنوں میں بلوچستان کی وزارت خزانہ یا پلاننگ کی وزارت جمعیت العلمائے اسلام کے پاس رہی اور سرحد میں جماعت اسلامی کے پاس۔ یہ وزراء ان تمام معاہدوں پر دستخط کرتے رہے جو ورلڈ بنک، آئی ایم ایف اور ایشیائی بنک کے سود والے قرضوں پر مبنی تھے۔ وہ تمام شرائط اُن کی مرضی سے طے ہوتی تھیں۔ سٹیٹ بینک ہر ماہ صوبائی حکومت سے سود کی مد میں لاکھوں روپے وصول کرتا ہے اور یہ سب اس نظام کاحصہ ہونے کی وجہ سے صوبائی وزیر خزانہ کو کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں کسی کو یاد تک نہیں آتا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے کمر بستہ ہیں۔ ایسی قیادت اور ایسی مفاہمت صرف عوام کی حاکمیت میں ہو سکتی ہے، اللہ کی حاکمیت میں نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved