تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     27-12-2018

بند دروازے

جنون سے نہیں ، فقط جوش و خروش سے نہیں ۔ بند دروازے حکمت، عرق ریزی اور جفا کشی سے کھلتے ہیں ، خود احتسابی سے!
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم 
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
کوئی شارٹ کٹ نہیں ۔ جذباتیت کی ماری اس قوم کی تعمیرِ نو کے لیے کوئی مختصر راستہ نہیں ۔ جس معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہوں ، جو اب بھی آصف علی زرداری اور نواز شریف کے لیے جواز ڈھونڈیں، راہِ راست پہ اسے گامزن کرنے کے لیے ایک ہمہ گیر اور طویل جدوجہد درکار ہے ۔ 
مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا 
بحرانوں سے مواقع پھوٹتے ہیں ۔ انسانوں پہ ایسا کوئی بوجھ نہیں ڈالا جاتا ، جسے وہ اٹھا نہ سکتے ہوں ۔لازم یہ ہوتا ہے کہ ٹھنڈے دل سے تجزیہ کر کے لائحۂ عمل طے کیا جائے ۔ 
افسوس ، حکومت کو ادراک نہیں ۔ کرپشن بے شک مسئلہ ہے اور سنگین مسئلہ ۔ اتنی ہی بڑی مشکل مگر یہ ہے کہ حکمران معاشرے کے مزاج، سیاست اور معیشت کی حرکیات سے نا آشنا ہیں ۔ بازار ٹھنڈا پڑا ہے ۔ سرمایہ کار وںنے روپیہ روک لیا یا بیرونِ ملک منتقل کر رہے ہیں۔ معاشی سرگرمیاں فروغ نہ پائیں گی تو نوکریاں کیسے پیدا ہوں گی۔ مہنگائی بڑھتی جائے تو بھوک اور مایوسی بڑھتی رہے گی۔ پہلے سے بے دل قوم اور بھی بے دل ہوتی جائے گی ۔ 
چینیوں کا کہنا ہے کہ پاکستانی مزدور سستا ہے مگر کارگر نہیں ۔ وہ کاہل اور لاپروا ہے ؛چنانچہ چینی لیبر پر انہیں انحصار کرنا ہوگا۔ 
دوسری عالمگیر جنگ سے تباہ حال اقوام کی تعمیرِ نو کس طرح ممکن ہوئی؟ معاشرے ہوتے ہیں ، جو سپر ڈال دیتے ہیں اور اقوام ہوتی ہیں ، جن میں جذبۂ عمل بروئے کار رہتا ہے ۔ ناکام اور کامیاب اقوام میں شاید یہی ایک بنیادی فرق ہے ۔ 
جوشِ کردار سے شمشیرِ سکندر کا طلوع 
کوہِ الوند ہوا جس کی حرارت سے گداز
صدیوں کی غلامی کے اثرات۔ شہنشاہیت اور جاگیرداری بھی کہ ایک قوم تاریخ کے چوراہے پہ سو رہی تھی۔ آزادی کا ولولہ پیدا ہوا تو جذبات جاگ اٹھے۔ ایک بلند ہمت، صاحبِ حکمت اور صداقت شعاررہنما کی قیادت میں نیا وطن ہم نے حاصل کر لیا۔ اس کے بعد پھر سے سو گئے۔ 
نئے پاکستان کی تعمیر کے لیے اسی جذبے کو جگانے کی ضرورت ہے۔ پیہم امید کے پیغام اور اس سے زیادہ عملی اقدامات سے۔ 
شریفوں اور زرداریوں کے جو کارنامے سامنے آئے ہیں ، ان سے واضح ہوا کہ سیاسی پارٹیاں نہیں یہ مافیا ہیں۔ اتنی بے دردی سے ملک کو لوٹا گیا کہ فاتح دشمن بھی ایسی بے رحمی کا شایدمرتکب نہ ہو ۔ جعلی کمپنیاں ، جعلی کھاتے اور سرکاری زمینوں پہ قبضے۔ احتساب عدالت کے جج نے لکھا ہے کہ دولت کی سمندر پار منتقلی شریف خاندان کی پرانی عادت ہے ۔ میاں محمد شریف کا حوالہ دیا کہ 1970ء کے عشرے میں گلف سٹیل مل اسی طرح قائم کی گئی۔ پھر جدّہ میں ہل میٹل اور العزیزیہ۔ شریف خاندان کو ذرا سی شرمندگی بھی اس پر نہیں۔ ادھر اخبار نویسوں اور خوشامدی لیڈروں کی ایک پوری فوج ہے، عمران دشمنی میں جو ثابت کرنے پہ تلی ہے کہ احتساب دراصل انتقام ہے۔ عمران خان کی غلطیاں اپنی جگہ، احتساب کی خامیاں اپنی جگہ، لوٹ مار کا جواز کیا؟ 
قومیں جب دھڑوں میں بٹ جاتی ہیں تو ان کی توانائی خودشکنی میں ضائع ہونے لگتی ہے۔ راہِ راست اور حسنِ عمل کا اگر کوئی آرزومند ہے تو سب سے بڑھ کر اسے جذباتی توازن اور خود احتسابی درکارہوتی ہے ۔ اپنے موقف پہ جو نظرِ ثانی نہیں کر سکتا، وہ اپنی زندگی ردّعمل اور وحشت میں بتا دیتا ہے ۔ 
اندر خانہ کی اطلاعات یہ ہیں کہ شریف اور زرداری خاندان تھکن کا شکار ہیں۔ میڈیا کے لیے بیان بازی الگ، نواز شریف اس بارے میں سوچتے رہے کہ ایک دو بلین ڈالر دے کر جان چھڑالیں۔ بتایا گیا ہے کہ ان کے صاحبزادے حسن نوا ز اور حسین نواز اس پر آمادہ نہیں۔ آدمی کو دولت سے محبت ہوتی ہے ۔ بیشتر زندگیاں اسی لیے کھنڈر ہوتی ہیں ۔ 
سندھ میں ، جہاں ششدر کر دینے والی لوٹ مار ہوئی ، معاملات شاید گورنر راج کی طرف بڑھیں۔ دعویٰ کرنے والے تو یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ نون لیگ میں بھی فارورڈ بلاک کی ابتدا ہو چکی ۔ پیپلزپارٹی میں امکانات اور بھی زیادہ ہیں۔ ہاریوں کا خون چوسنے والے، اخلاقی اعتبار سے کھوکھلے وڈیرے ، دبائو کی تاب نہیں لا سکتے ۔ با خبر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ عمل تیزی سے بروئے کار نہیں آئے گا۔ حریف جلدی میں نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ سہج پکے سو میٹھا ہو ۔ برق رفتاری سے پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ 
پاکستان اب عالمی طاقتوں کی آویزش گاہ ہے۔ اغلباًایم کیو ایم کے متحارب دھڑوں میں قتل و غارت کے واقعات میں بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کاہاتھ کارفرما ہے۔ الطاف حسین کے باقی ماندہ کارکنوں کی مدد سے۔ کرایے کے قاتل، جنہیں کوئی بھی برت سکتاہے ۔ نا خوش امریکہ نے، ''را‘‘ اور افغان خفیہ ایجنسی ''خاد‘‘ کی طرف سے آنکھیں بند ہی نہیں کر رکھیں۔ چین کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے ہوئے مراسم کی بنا پہ ، عملاً وہ ان کی حوصلہ افزائی کا مرتکب ہے ۔ برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس بھی ۔ جس کے سربراہ نے قسم کھا کر پاکستان کے ایک سابق آرمی چیف سے کہا تھا کہ الطاف حسین سے وہ ہاتھ اٹھا چکے۔ بلوچستان کے باقی ماندہ علیحدگی پسندوں اور پشتون تحفظ موومنٹ کو یقینی طور پہ بیرونی سرپرستی حاصل ہے ۔ امریکی پریشان ہیں کہ خطے میں چینی رسوخ بڑھ رہا ہے ؛چنانچہ انتقامی جذبے کا شکار ہیں ۔ 
ہوش مندی سے کام لیتے تو پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا کر وہ ایک توازن قائم کر سکتے تھے ۔ طاقت کی مگر اپنی نفسیات ہوتی ہے۔ غور و فکر سے تجزیہ کرنے کی بجائے ، حکم دینے کی طرف مائل ہوتی ہے ۔ ریاست ہائے متحدہ کے بارے میں لکھی جانے والی بہترین کتابوں میں سے ایک کا نام ہے: "American Hubris"۔ امریکی گھمنڈ ۔ 
پاکستان کے لیے قدرت نے ان گنت مواقع پیدا کر دیے ہیں مگر ریاست کی بنیادی کمزوری اس کی معیشت ہے ۔ مالی امداد کے لیے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے ۔ ایسے میں آزادیٔ عمل کا راستہ وہ کیونکر اختیار کرے۔ 
ہوائیں ان کی، فضائیں ان کی، سمندر ان کے، جہاز ان کے 
گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر، بھنور ہے تقدیر کا بہانہ 
احتساب لازم اور برحق ۔ عمران خان کو سمجھنا چاہئے کہ معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے کاروباری طبقات کی حوصلہ افزائی لازم ہے۔ سب سے بڑھ کر کراچی لیکن لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور پشاور ڈویژن کے صنعت کاروں اور تاجروں سے بھی اسے ملنا چاہئے۔ ممکن ہے تو ترغیبات بھی دینی چاہئیں۔ مہاتیر محمد اور چینی لیڈروں نے اسے بتایا کہ معاشی نمو کی کلید کاروبار کی آزادی ہے۔ملک میں یہ کبھی تھی ہی نہیں ۔ 
کاروباریوں میں بہت سے ٹیکس چور ہیں ۔ دوسرا پہلو مگر یہ ہے کہ افسر شاہی ان کے سروں پہ چڑھ کے ناچتی ہے ۔ 
کاروباری لوگوں کو اگر وہ تھپکی دے۔ سرکاری محکمے ، بالخصوص ایف بی آر والے بے جا انہیں تنگ نہ کریں ۔ اگر وہ بروئے کار آئیں تو چند ماہ میں معیشت سانس لینے لگے ، پٹڑی پہ چڑھ جائے۔ اسد عمر اچھے آدمی ہیں مگر معاملات سنبھال نہیں سکے۔ ان کی مدد کے لیے ماہرین متعین کیے جانے چاہئیں ۔ ہمہ وقت احتساب کا راگ الاپنے سے وزیرِ اعظم کو گریز کرنا چاہئے۔ 
جنون سے نہیں ، فقط جوش و خروش سے نہیں ۔ بند دروازے حکمت، عرق ریزی اور جفا کشی سے کھلتے ہیں ، خود احتسابی سے!
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم 
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved