تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     27-12-2018

فلیگ سٹاف ہاؤس کی ویرانی اور ہم

میں کراچی میں عموماً ریجنٹ پلازہ ہوٹل میں قیام کرتا ہوں۔ ہوٹل سے صدر کی طرف جائیں تو محض ایک کلو میٹر دور بائیں ہاتھ پر شاہراہ فیصل کے خاتمے پر اور کلب روڈ اور شارع فاطمہ جناح کے سنگم پر ایک نہایت پرشکوہ، خوبصورت اور دلآویز عمارت ہے، اسے گھر، کوٹھی یا وِلا کہنے سے بات نہیں بنتی۔ چاروں طرف لان ہے اور درمیان میں یہ دو منزلہ عمارت ہے‘ کراچی کی پرانی روایتی عمارتوں کی طرح پیلے پتھر سے بنی ہوئی شاندار عمارت۔ اس کے داخلی دروازے شارع فاطمہ جناح پر ہیں اور ایک عقبی دروازہ بیولے سٹریٹ کی طرف کھلتا ہے۔ میں بارہا اس عمارت کے سامنے سے گزرا ہوں۔ ہر بار کسی افراتفری میں اور کسی عجلت میں۔ بارہا دل بے چین بھی ہوا اور دیکھنے کے لیے مچلا بھی لیکن ہر بار دل کو یہی کہہ کر تسلی دی کہ ''اگلی بار‘‘۔ یہ آئندہ، اگلی بار، پھر کبھی اور بشرط زندگی جیسے الفاظ ہمیں ہمیشہ جھوٹی تسلی دیتے اور گمراہ کرتے ہیں۔ ایمانداری کی بات ہے کہ یہ الفاظ اکثر و بیشتر ہم اپنی ترجیحات کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔ نیت کے کھوٹ اور ارادے کی کمزوری کو ہم ان الفاظ میں لپیٹ کر اپنے لیے جواز ڈھونڈتے ہیں۔ یہی کچھ شاید میں بھی کرتا رہا لیکن اس بار ملتان سے روانہ ہوتے وقت یہ فیصلہ کر لیا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے اس بار یہاں جانا ہے۔
میںناشتے کے فوراً بعد ہوٹل سے نکلا اور سب سے پہلے تو وہ کام نپٹایا جس کے لیے کراچی آیا تھا۔ پھر واپس ہوٹل آیا اور دس بارہ منٹ کے بعد اپنے دیرینہ ارادے کی تکمیل کی غرض سے ہوٹل سے پیدل روانہ ہو گیا۔ اس بار تو ریجنٹ پلازہ میں ٹھہرنے کا بنیادی مقصد ہی اس عمارت کو اندر سے دیکھنا تھا۔ جب میں نے ریجنٹ پلازہ میں کمرہ بک کروانے کے لیے اس کے جنرل منیجر شیخ خالد کو فون کیا تھا تو میری بیٹی پاس ہی بیٹھی تھی۔ ریجنٹ پلازہ کا سن کر ہنسنے لگ پڑی اور کہنے لگی: بابا جان! آپ کو اس ہوٹل میں ٹھہرتے ہوئے ڈر نہیں لگتا؟ اب میں ہنسا اور کہا کہ ڈر کیسا؟ Law of Probability یعنی قانون امکان کے حساب سے جس ہوٹل میں ایک بار آگ لگے دوبارہ وہاں آگ لگنے کے امکانات بہت معدوم ہوتے ہیں۔ اب یہ مکمل محفوظ ہوٹل ہے۔ میری بیٹی دراصل اس حوالے سے بات کر رہی تھی جب قریب دو سال قبل پانچ دسمبر 2016کو اس ہوٹل میں آگ لگ گئی تھی اور میں پانچویں منزل پر کئی گھنٹے پھنسے رہنے کے بعد بڑی مشکل سے باہر نکلا تھا۔
ہوٹل سے یہ عمارت ایک کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لیکن درمیان میں ایک دو جگہوں پر تو فٹ پاتھ ہی موجود نہیں۔ کبھی ان جگہوں پر فٹ پاتھ ہوتا تھا مگر اب سکیورٹی کے نام پر رکھنے جانے والے ریت کے حفاظتی پشتوں کے باعث فٹ پاتھ غائب ہو چکا ہے۔ یہ دو سو میٹر کے لگ بھگ فاصلہ طے کرنا پڑا مشکل ثابت ہوا۔ پیچھے سے آنے والی کراچی کی ٹریفک سے ہمہ وقت دھڑکا لگا رہا کہ کوئی پیچھے سے اب ٹکر مارتا ہے کہ اب مارتا ہے۔ خیر گزری اور میں بارہ پندرہ منٹ میں اپنی مطلوبہ جگہ پہنچ گیا۔ عمارت کے باہر ایک بورڈ تھا جس پر لکھا تھا ''قائداعظم ہاؤس و میوزیم‘‘ یہ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ذاتی رہائش گاہ تھی۔ قائداعظم آخر تک اسی عمارت میں مقیم رہے۔ یہ فلیگ سٹاف ہاؤس بھی کہلاتی ہے۔
میں جب پہلے دروازے پر پہنچا تو لوہے کا بلند و بالا دروازہ اندر سے بند تھا۔ عمارت میں کوئی ذی روح نظر نہیں آ رہا تھا۔ مجھے لگا کہ شاید عمارت بند پڑی ہے۔ دروازے کے ساتھ عمارت کے کھلنے کے اوقات کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ میں نے بورڈ پڑھنا شروع کیا: روزانہ علاوہ جمعہ نو بجے تا چار بجے، درمیان میں ایک تا دو بجے تک وقفہ۔ بروز جمعہ صبح نو تا دوپہر بارہ بجے تک اور بروز بدھ چھٹی۔ مجھے لگا شاید آج بدھ ہے۔ جیب سے موبائل فون نکال کر دن دیکھا، منگل تھا۔ میں دوسرے دروازے کی طرف گیا۔ یہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا اور سامنے اندر دو تین لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ قائداعظم ہاؤس کا سٹاف تھا اور ایک ہَٹ میں بیٹھے لذتِ کام و دھن میں مصروف تھے۔ یہ وقفے کا وقت تھا۔ میں تھوڑی دیر لان کے درمیان لگے ہوئے فوارے کے پاس بنچ پر بیٹھا رہا تاوقتیکہ وہ فارغ ہو گئے اور ایک گائیڈ مجھے اپنے ساتھ لے کر چل پڑا۔ عمارت میں سامنے سے داخل ہونے والے سارے دروازے بند تھے۔ باہر تالے لگے ہوئے تھے جن پر سیل لگی ہوئی تھی۔ داخل ہونے کے لیے عقبی دروازہ استعمال ہو رہا ہے۔ عمارت کے تین حصے ہیں۔ مرکزی عمارت، نوکروں کے کوارٹرز اور اصطبل۔
مرکزی عمارت کے بھی تین حصے ہیں۔ ایک درمیانی رہائشی عمارت، عقبی دروازے کے پیچھے باورچی خانہ ہے جو ایک برآمدے کے ذریعے رہائشی عمارت سے ملا ہوا ہے اور عمارت کے دائیں ہاتھ پر انیکسی یا مہمان خانہ ہے۔ مرکزی عمارت تو جوں کی توں اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ نوکروں کے کوارٹرز تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ عمارت کے سٹاف کے زیر استعمال ہیں۔ اصطبل کو لائبریری میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور انیکسی ،جو کبھی چار کمروں پر مشتمل تھی جس میں دو بیڈ روم، ایک بیٹھنے کا کمرہ اور ایک کھانے کا کمرہ تھا ،اب آڈیٹوریم بن چکا ہے۔ رہائشی عمارت میں اگر عقبی دروازے سے داخل ہو کر جائزہ لیں تو بائیں ہاتھ پہلا چھوٹا کمرہ ''پینٹری‘‘ ہے جہاں برتن رکھے ہوئے ہیں۔ باورچی خانے سے کھانا اس کمرے میں آتا تھا اور پھر سجا کر ساتھ والے کمرے میں، جو ڈائننگ روم ہے پہنچا دیا جاتا تھا۔ دائیں طرف تین کمرے ہیں، دو بڑے اور ایک چھوٹا۔ ان میں سے ایک ڈرائنگ روم ہے، اوپر والے حصے میں سیڑھیاں چڑھ کر جائیں تو بائیں ہاتھ یعنی ڈائننگ روم کے اوپر محترمہ فاطمہ جناح کا کمرہ ہے اور پینٹری کے اوپر ان کا ڈریسنگ روم ہے۔ ڈرائنگ روم کے عین اوپر قائداعظم کی سٹڈی ہے۔ ساتھ ان کا بیڈ روم اور ڈریسنگ روم ہے اور ایک چھوٹا سا ناشتے کا کمرہ۔
یہ عمارت غالباً 1867ء میں تعمیر ہوئی تھی۔ اس کا پہلا مالک رام چند تھا۔ اس عمارت کا ڈیزائن موسس سومکے نے بنایا تھا۔ بعد ازاں یہ عمارت کراچی کے تب کے میئر سہراب کاؤس جی نے خرید لی اور اس سے قائداعظم محمد علی جناح نے 1943ء میں مبلغ ایک لاکھ پندرہ ہزار روپے میں خرید لی۔ اب اس عمارت کے باہر ایک طرف شیشے کے بند شوکیس نما کمرے میں محترمہ فاطمہ جناح کی مرسیڈیز بینز200ماڈل 1965ء اور کیڈیلک سیریز 62 ماڈل 1955ء کھڑی ہیں۔ گائیڈ نے بتایا کہ صبح سکول کے بچوں کے دو ٹرپ آئے تھے۔ ان کے علاوہ آپ اکلوتے وزیٹر ہیں۔ اصطبل میں بنی لائبریری میں ایک ملازم کرسی پر بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس لائبریری میں بھی صرف بچے آتے ہیں اور الماریوں کو دیکھ کر واپس چلے جاتے ہیں۔ عرصہ ہو گیا کبھی کسی نے الماری سے کتاب نکال کر نہیں پڑھی۔ باہر نکلا تو دروازے سے نکلتا دیکھ کر ایک صاحب رک گئے اور پوچھنے لگے: یہ عمارت کھلی ہوئی ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں کھلی ہے۔ وہ کہنے لگا :میں وہاں پیچھے دفتر میں ملازمت کرتا ہوں، انیس سال سے روزانہ یہاں سے گزرتا ہوں، کئی بار سوچا اندر سے دیکھوں مگر کبھی نہیں لگا کہ یہ عمارت کھلی ہوئی ہے، ہمیشہ ایسے لگا جیسے بند پڑی ہے۔
محترمہ فاطمہ جناح قائداعظم کی وفات کے بعد سولہ سال اس عمارت میں مقیم رہیں۔ پھر 1964ء میں وہ مہوٹہ پیلس شفٹ ہو گئیں۔ 1985ء تک یہ عمارت بند رہی اور اس پر بہت سے لوگوں نے، بلڈرز نے اور اداروں نے قبضہ کرنے اور یہاں پلازہ بنانے کی کوشش کی مگر خوش قسمتی سے یہ عمارت بچ گئی۔ پھر اسے ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے طفیل حکومت پاکستان نے باقاعدہ طورپر سنبھالا، مرمت کی اور عجائب گھر میں بدل دیا، لیکن اس کی ویرانی دور نہ ہو سکی۔
مجھے برطانیہ میں لیک ڈسٹرکٹ کے گاؤں گراس میئر میں ولیم ورڈزورتھ کی رہائش گاہ Dove Cottage میوزیم اور لائبریری یاد آئی جہاں ساڑھے سات پاؤنڈ ٹکٹ ہے اور روزانہ کم و بیش سینکڑوں سیاح اسے دیکھتے ہیں۔ وہاں کی سووینئر شاپ سے خریداری کرتے ہیں اور لائبریری میں بیٹھ کر کتابیں پڑھتے ہیں۔ یہی حال شیکسپیئر کے گاؤں سٹیٹفورڈ آپان آوون کا ہے۔ یہاں بلامبالغہ ہزاروں لوگ روزانہ آتے ہیں۔ ادھر ہمارا یہ حال ہے کہ پچیس دسمبر ہمارے لیے محض ایک چھٹی کا دن ہے اور چھٹی کا دن بھی ایسا جس میں نہ ہم قائداعظم کو یاد کرتے ہیں اور نہ اس بات پر غور کہ قائداعظم نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا وہ کیسا تھا؟ حتیٰ کہ ہم چھٹی کے روز اس عمارت کی ویرانی کم کرنے کے لیے دو گھنٹے نہیں نکال سکتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved