بغیر کسی مناسب تیاری کے نہایت عجلت میں قبائلی علاقوں کو خیبر پختون خوا میں ضم کرنے کے بعد پیدا ہونے والی آئینی و قانونی پیچیدگیوں کو نظر انداز کر کے وفاقی و صوبائی حکومتیں، ریاست اور خود قبائلیوں کیلئے لا ینحل مسائل پیدا کرنے کا وسیلہ بن رہی ہیں۔ مسلم لیگ نواز کی گورنمنٹ نے آخری ایام میں صرف پانچ دنوں کے اندر آئین کے آرٹیکل 247، جس کے تحت قبائلی جرگہ نے صدر مملکت کو فاٹا انضمام کا اختیار تفویض کرنا تھا، کو ختم کر کے آرٹیکل 155, 106, 62, 59, 51, 1 اور 246 میں آٹھ ترامیم کر کے قبائلی علاقوں کو خیبر پختون خوا کا حصہ بنا دیا، بغیر کسی بار آور بحث و تمحیص کے 25 مئی کو قومی اسمبلی نے فاٹا ریفارمز بل منظور کر لیا‘ 26/27 مئی کو سینیٹ نے منظوری دے دی، 30 مئی کو خیبر پختون خوا کی صوبائی اسمبلی نے بغیر دیکھے اصلاحات بل کی دو تہائی اکثریت سے منظوری دی اور 31 مئی کو صدر پاکستان نے پچیسویں آئینی ترمیم کی توثیق کر کے فاٹا انضمام کو نوٹیفائی کر دیا۔
آئین کا آرٹیکل 247/246، جو صدر پاکستان کو فاٹا میں اختیار استعمال کرنے کا حق دیتا تھا، جب ختم ہو گیا تو اس کے بعد صدر پاکستان نے ''فاٹا عبوری گورننس ریگولیشن‘‘ جاری کیا۔ یہاں الجھن یہ پیدا ہوئی کہ آرٹیکل 247/246 کی خاتمہ پہ جب صدر کے پاس فاٹا کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار ہی نہیں رہا تو وہ فاٹا عبوری گورننس ریگولیشن کیسے جاری کر سکتا تھا۔ پھر اسی ایف آئی جی آر، کے تحت پولیٹیکل ایجنٹ کو ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کو اسسٹنٹ کمشنر بنا کر انہیں ٹرائیل کورٹ کی جوڈیشل پاور بھی تفویض کر دی گئی۔ اکتوبر کے تیسرے عشرہ میں پشاور ہائی کورٹ نے، ایف آئی جی آر کو انتظامیہ اور عدلیہ کی علیحدگی کے آئینی اصول سے متصادم قرار دے کر کالعدم کر دیا۔ عدالت عالیہ نے صوبائی حکومت کو 30 نومبر تک فاٹا کے تمام اضلاع میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی سطح کے ٹرائل کورٹ قائم کرنے کا حکم دیا، لیکن صوبائی حکومت فاٹا اضلاع میں ضابطہ فوجداری کے تحت سیشن کورٹس کے قیام سے ہچکچاتی رہی۔ صوبائی حکومت نے اگرچہ ہائی کورٹ کے متذکرہ بالا حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی‘ لیکن عدالت عظمیٰ نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کو معطل کیا نہ ہی اپیل کی سماعت کی؛ چنانچہ فاٹا میں غیر معمولی قانونی خلا پیدا ہو گیا‘ جو اس حساس خطہ میں عدم استحکام کا سبب بن سکتا ہے۔ فاٹا انضمام بارے قانون سازی کرنے والے پارلیمنٹیرینز نے پرانے قوانین ختم کرتے وقت متبادل قانونی راستہ متعین کیا‘ نہ آرٹیکل 270 کے تحت کسی قانونی تسلسل کی گنجائش رکھی، اگر ہمارے قانون ساز فاٹا ریفارمز بل میں اتنا شامل کر دیتے کہ جب تک مجاز فورم کوئی متبادل قانونی نظام تشکیل دے نہیں دے لیتا اس وقت تک فاٹا اضلاع میں ایف سی آر کے تحت ٹرائل کورٹس سسٹم کام کرتا رہے گا تو صورتحال مختلف ہوتی۔ لیکن اب ایف سی آر کو ختم کرنے کے بعد حکومت نے وہاں سیشن کورٹس بنانے کی بجائے، فاٹا عبوری گورننس ریگولیشن، کے ذریعے کام چلانے کی جسارت کی جسے عدالت عالیہ نے انتظامیہ سے عدلیہ کی علیحدگی کے آئینی نظام سے متصادم قرار دے کر معطل کر کے تیس نومبر تک فاٹا ڈسٹرکٹ میں ضابطہ فوجداری کے تحت سیشن کورٹس بنانے کا حکم دیا‘ لیکن صوبائی حکومت معاملے کی حساسیت کو سمجھ سکی‘ نہ ہی موجودہ لیڈرشپ میں متبادل قانونی نظام تشکیل دینے کی اہلیت پائی جاتی ہے، اس لئے قبائلی اضلاع میں پیدا ہونے والا قانونی خلا بد نظمی اور انتشار پہ منتج ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ انضمام سے قبل ملک کے بندوبستی اضلاع میں ضابطہ فوجداری کے تحت سیشن کورٹس اور ایف سی آر قوانین کے تحت قبائلی علاقوں میں پولیٹیکل ایجنٹس کی ٹرائل کورٹس کام کر رہی تھیں، اب جب ایف سی آر کا نظام ختم ہوا تو وہاں پولیٹیکل ایجنٹ کا ٹرائل کورٹ سسٹم معدوم ہو گیا؛ چنانچہ آئین کی رو سے وہاں کے فوجداری مقدمات سیشن ججز کی عدالت کو منتقل ہو جانا چاہیے تھے‘ لیکن وفاقی حکومت نے فاٹا عبوری گورننس ریگولیشن کے تحت فوجداری مقدمات کی سماعت کا اختیار ڈپٹی کمشنرز کو تفویض کر دیا، جسے جوڈیشری نے قبول نہیں کیا۔ حیرت ہے کہ حکومت کے سامنے ماضی قریب کے تجربات موجود تھے مگر کسی نے ان سے سبق لینے کی زحمت گوارا نہیں کی، اس سے قبل 1969ء میں حکومت نے دیر، سوات اور مالا کنڈ کی ریاستوں کو این ڈبلیو ایف پی (اب خیبر پختون خوا) میں ضم کر کے وہاں پاٹا ریگولیشنز نافذ کیں تو مقامی آبادی مزاحمت پہ اتر آئی۔ پاٹا ریگولیشن کے خلاف دائر رٹ درخواستوں کی طویل سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے 1996 میں پاٹا ریگولیشن کو بنیادی انسانی حقوق کے منافی کہہ کر کالعدم قرار دے دیا۔ دیر، سوات اور مالا کنڈ میں بھی قانونی خلا پیدا کر دیا گیا، جس سے خطے میں بد ترین عدم استحکام پیدا ہوا، جس کی کوکھ سے مولوی فضل اللہ اور صوفی محمد جیسے کئی وار لارڈز پیدا ہوئے، صورت حال کو سنبھالنے کی خاطر حکومت کو سوات، دیر اور مالاکنڈ میں تین بار شرعی قوانین نافذ کرنا پڑے،پہلی بار 1988 میں بے نظیر بھٹو دور میں، دوسری بار 1996 میں اور تیسری بار دو ہزار آٹھ میں اے این پی کی سیکولر حکومت نے اسلامی قوانین نافذ کر کے صورت حال کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اب تو حکمران اشرافیہ میں نہ کوئی سردار مہتاب جیسا بالغ النظر سیاست دان ہے نہ آفتاب شیرپائو جیسا ایڈمنسٹریٹراور نہ ہی نصیراللہ بابر جیسا جرأت مند لیڈر دکھائی دیتا ہے، جو ایسے حساس معاملات میں ہاتھ ڈال سکے؛ چنانچہ یہ مسائل دن بدن پیچیدہ ہوتے جائیں گے۔ حکومت فاٹا ریفارمز کے نفاذ میں ایک تو مناسب قانونی طریقہ کار مرتب نہ کر سکی‘ دوسرا‘ قبائلیوں کے ساتھ کئے گئے وعدے نبھانے میں بھی ناکام رہی۔ سرتاج عزیز کمیٹی نے قبائلی عمائدین سے تین بنیادی وعدے کئے تھے، پہلا یہ کہ ادغام کی صورت میں حکومت عمائدین کی مشاورت سے فاٹا اضلاع میں رواج ایکٹ نافذ کرکے قبائلی روایات اور جرگہ سسٹم کو تحفظ دے گی، دوسرا،انضمام کے عمل کو پانچ سالوں میں پایا تکمیل تک پہنچایا جائے گا اور تیسرا، قبائلی اضلاع کی ترقی کے ہموار دھارے سے ہم آہنگ رکھنے کی خاطر یہاں دس سالوں میں گیارہ سو ارب روپے خرچ کرے گی، لیکن ہماری حکمراں اشرافیہ ابھی تک فاٹا کے بندوبستی اضلاع کو نیشنل ایوارڈ سے تین فیصد دینے پہ متفق نہیں ہو سکی۔ بد قسمتی سے تینوں میں سے کوئی ایک وعدہ بھی ایفا نہیں ہو سکا، حکومت نے رواج ایکٹ نافذ کیا‘ نہ ادغام کے عمل کو پائیدار بنانے کی خاطر اسے پانچ سالوں پہ محیط کر سکی۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں نے صرف چھ دنوں کے اندر فاٹا کو خیبر پختون خوا میں ضم کر کے غیر فطری طریقہ اپنایا جس کے مضمرات دیر تک ہمیں ستاتے رہیں گے۔ اب حکومت دس سالوں میں ترقیاتی کاموں کے لئے گیارہ سو ملین روپے مختص کرنے کے وعدہ سے بھی انحراف کر رہی ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ حکومتی اقدامات ٹھیک ہیں یا غلط لیکن فیصلہ سازی کا یہ پورا عمل عوامی امنگوں کے منافی ہونے کی وجہ سے رائے عامہ کی حمایت سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ افغانستان میں تیزی سے بدلتے حالت کا تقاضا ہے کہ فاٹا میں اجتماعی حیات کو جلد معمول پہ لایا جائے، اگر امریکہ افغانستان سے نکل گیا تو وہاں ایک بار طالبان اور شمالی اتحاد کے درمیان تصادم ناگزیر ہو جائے گا۔ تزویری امور کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ شمالی اتحاد والے وادیٔ پنج شیر میں سلام ٹنل پہ مورچہ زن ہو کے طالبان کو طویل مزاحمت دے سکتے ہیں، شمالی اتحاد کے علاوہ پاک افغان بارڈر کے اس پار داعش سمیت درجنوں جنگجو گروہ بھی سرگرم عمل ہیں، اگر مسلح کشمکش بھڑک اٹھی تو افغانستان ایک بار پھر طویل خانہ جنگی کے جہنم میں ڈوب جائے گا، جس کے براہ راست اثرات قبائلی علاقوں پہ پڑیں گے۔