جموں کشمیر اسمبلی کی طرف سے انصافِ اطفال اور بچوں کے تحفظ (Juvenile Justice and Protection of Children) کا قانون منظور کیے جانے کے باوجود ریاست میں نابالغوں کی نظربندی کا سلسلہ جاری ہے۔حال ہی میں سرینگر کے دو کم عمر لڑکوں کو بدنام زمانہ قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیل بھیجا گیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق شمالی قصبہ سوپور کے ایک سترہ سالہ لڑکے کو بھی گرفتار کرکے گھر سے سینکڑوں میل دورجموں کی کوٹ بلوال جیل بھیج دیا گیا۔ عالمی تنظیم نے کشمیر میںنابالغوں کی نظربندی کے رجحان کو عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ان گرفتاریوں کے علاوہ سینکڑوں بچے مقامی پولیس اور حفاظتی دستوں کے کیمپوں میں بھی زیرِ حراست ہیں۔ یاد رہے کہ 2010ء کے سرمائی ایجی ٹیشن اور اس کے بعد سری نگر اور ریاست کے دوسرے علاقوںسے متواتر ایسی خبریں آرہی تھیں کہ پولیس نے پتھر مارنے کے جرم میں نہ صرف لاتعداد نابالغ لڑکوں کو حراست میں لے لیا بلکہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت انہیں جیلوں میں بھی بند کر دیا گیا۔ اگرچہ سرکاری طور پر پولیس ہمیشہ سے نا بالغوں کی حراست میں موجودگی سے انکار کرتی آئی ہے مگر بھلا ہو الیکٹرانک میڈیا کا‘ پوری دنیا نے یہ نظارہ دیکھا کہ کس طرح پولیس کے سپاہی تیسری سے آٹھویں جماعت تک کے بچوں کو ہتھکڑیوں میں جکڑ کر امتحانی مراکز میں پرچے حل کرانے کیلئے لارہی ہے۔ ذرائع ابلاغ میں ہائے وائے مچنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان بچوں کی رہائی کے بجائے پولیس نے فوٹو گرافروں کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔ اس کے باوجود مختلف غیر سرکاری اداروں نے حکومت پر دبائو برقرار رکھا کہ وہ ایک مؤثر اور جامع قانونِ اطفال اسمبلی میں پیش کرے۔ خصوصی آئینی حیثیت کے پیش نظر بھارت کے جو وینائل جسٹس قانون کا اطلاق ریاست جموں کشمیر پر نہیں ہوتا ۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ کے ذریعے سماجی ، اقتصادی اور تعلیمی حقوق کیلئے وضع کئے جانے والے قوانین کا اطلاق پورے ملک پر ہوتا ہے مگر کشمیر کو ان سے مبرّا رکھا جاتاہے۔ اس کے برعکس سکیورٹی سے متعلق قوانین جیسے آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ، یو ایل پی اے، فوجی کمک میں اضافہ اور ماضی کے ٹاڈا یا پوٹا کے لیے ریاست کی خصوصی حیثیت کبھی آڑے نہیں آئی۔ حق ِاطلاعات، دیہی حقِ روزگار اور حقِ تعلیم جیسے قوانین کو کشمیر تک لانے کے لیے سماجی کارکنوں کو خاصے پاپڑ بیلنے پڑے اور جب اسمبلی نے یہ قوانین پاس کیے تو حکومت کی شہ پر انہیں اس قدر مسخ کر دیا گیا کہ حق دلانا تو دور کی بات، یہ اذیت رسانی کا ایک اور ذریعہ بن گئے۔ بہر حال اسمبلی کے ذریعے پاس کیے گئے نئے قانون کی رُو سے اب جووینائل جسٹس بورڈ یعنی نابالغوں کے لیے ’مشاہداتی گھر‘ بنائے جائیں گے۔ اس کے علاوہ جووینائل پولیس مراکزبھی قائم کیے جائیں گے جو بچوں کو حوالات میں بند کرنے کے بجائے مذکورہ بورڈ کے سامنے پیش کریں گے۔ ہر ضلعے میں چائلڈ ویلفیئر کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی جن میں سماجی کارکنوں کے علاوہ خواتین کی نمائندگی لازمی ہوگی۔ اس قانون کی ضرورت اس لیے بھی کشمیر میں شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی تھی کہ گزشتہ سال ہالینڈ کے ایک نوبل انعام یافتہ عالمگیر نیٹ ورک نے ریاست میں حقوق انسانی کے بارے میں بڑی خوفناک اور تشویشناک تصویر پیش کی تھی ۔ اس نے یہاں تک دعویٰ کیا تھا کہ دنیا میں اس وقت جتنے بھی شورش زدہ اور جنگ زدہ علاقے ہیں ان میں کشمیر میںبچوں کے خلاف تشدد اورعورتوں کی بے حرمتی کے واقعات کی صورت حال نہایت تشویشناک ہے۔ ہالینڈ کے ادارے (MSF) Medecins Sans Frontieres نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ وادی میں گذشتہ چھ سال کے دوران میں دماغی حالت اور نفسیاتی عارضے جیسے مسائل میں ہوش ربا اضافہ ہوا اور اس کا شکار خاص طور پر بچے ہورہے ہیں۔ MSF کے جائزے کے مطابق بچوں میں خوف کی نفسیات کا عنصر غالب ہے۔ اس کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ تقریباً پچیس فیصد بچے خوف کے سائے میں جی رہے ہیںجبکہ تقریباً سولہ فیصد سکول سے متعلق مسائل سے دوچار ہیں۔ انہیںسکول کی نصابی کتب اور دوسری ضروری چیزوں کے علاوہ اہل اساتذہ بھی دستیاب نہیں ہیں ۔ جائزے میں بچوں کی عادات اور معمولات میں آنے والی تبدیلیوں کا بھی تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے جن کے مطابق آٹھ فیصد سے زیادہ بچے منشیات کی لت کا شکار ہیں ‘چھ فیصد بچے اپنے بڑوں کا احترام نہیں کرتے ہیں ، تقریبا ًچار فیصد اخلاقی اقدار سے نابلد ہوگئے ہیں اور پانچ فیصد بچے مایوسی اور بد دلی کا شکارہیں۔ اس کے نتیجے میں ان کے اندر انتہا پسندی اور مار دھاڑ کا رجحان پنپ رہا ہے۔ حقوق انسانی کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیم ایشین سنٹر فار ہیومن رائٹس نے بھی حال ہی میں جاری کردہ اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت کے شورش زدہ علاقوں میں بچوں کو ہراساں کرنے کے واقعات میں ہوش ربا اضافہ ہورہاہے۔ ان میںپر تشدد طریقے سے گرفتار کرنا ، ماورائے عدالت قتل اور جنسی تشدد وغیرہ شامل ہیں ۔ ملک کے دیگر حصوں میں بچوں کو جو حقوق اور تحفظ حاصل ہے ان متاثرہ علاقوں کے بچے اس سے محروم ہیں۔آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ کے تحت آسام ،منی پور، تری پورہ ، اروناچل پردیش ، ناگالینڈ اور جموں و کشمیر کے 71اضلاع کو ’ شورش زدہ‘ قرار دیا گیا ہے۔ باقی 106 اضلاع لفٹ ونگ اکسٹریمز م یا بائیں بازو کی انتہاپسندی سے متاثرہ نو ریاستوں جھاڑکھنڈ، اڑیسہ، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، مہاراشٹر، اتر پردیش، آندھر پردیش ، بہار اور مغربی بنگال میں واقع ہیں ۔ رپورٹ میں غیر قانونی طریقے سے حراست میں لینے اور اذیت دینے کے پندرہ واقعات اور جموں و کشمیر کے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت چھ بچوں کی حراست کے معاملات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اسی طرح ماورائے عدالت قتل کے پندرہ کیسوں اور سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے جنسی تشدد کے چھ واقعات کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں ۔ رپورٹ میں سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے بچوں کے حقوق کی پامالی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس کا ارتکاب کرنے والے اکثر رہا ہو جاتے ہیں۔ ان سے کوئی باز پرس نہیں ہوتی نہ ان کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی ہوتی ہے ۔ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے سنٹر نے حکومت ہند ، خواتین او ر اطفال کی وزارت اور صوبائی حکومتوں کو متعد د سفارشات پیش کی ہیں ۔ ان میں جووینائل جسٹس ایکٹ کے تحت ان تمام متاثرہ 197اضلاع میں بچوں کے تحفظ اور ترقی کے لئے متعلقہ ادارے قائم کرنے کے لئے مالی وسائل فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ ان اضلاع کے بارے میں بچوں کے ایکٹ کے نفاذ کے حوالے سے ضلع مجسٹریٹ ، ریاستی پولیس اور مرکز کے نیم فوجی دستوں کے افسروں کو ماہانہ رپورٹ دینے کا پابند بنایا جائے ۔ اس کے علاوہ جمو ں و کشمیر کی حکومت یہ حکم نامہ جاری کرے کہ بچوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار نہ کیا جائے ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved