بد ترین مخالف اور سخت ترین ناقد بھی انکار نہیں کرتے کہ وہ ایک نڈر اور جرأت مند خاتون تھیں۔ لیاقت باغ میں اپنے آخری جلسے میں بھی کہہ رہی تھیں: ''میں اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اس لئے آئی ہوں کہ میں محسوس کرتی ہوں ، میرا وطن خطرے میں ہے، لیکن ہم مل کر ملک کو اس بحران سے نکالیں گے‘‘۔
ہیرالڈ ٹریبیون کے منیٰ الطحاوی نے لکھا : اس سال اکتوبر میں ، ہیگ میں ایک کانفرنس کے موقع پر پاکستان کے ایک سابق وزیر خارجہ نے ہمیں بتایا تھا کہ اس نے حال ہی میں بے نظیر بھٹو کو اس خطرے سے آگاہ کیا ، جو وطن واپسی پر انہیں در پیش ہو گا۔ ''ہو سکتا ہے ، وہاں خود کش بیلٹ پہنے کوئی شخص آپ کے ''خیر مقدم‘‘ کے لیے موجود ہو‘‘۔ انہوں نے اپنے خیر خواہ سے استفسار کیا : ''کیا آپ کو پاکستانی عوام میں میری مقبولیت پر شبہ ہے؟‘‘ '' نہیں ‘‘ اس نے جواب دیا ''لیکن آج کا پاکستان وہ نہیں، جسے آپ چھوڑ کر گئی تھیں، اب یہ پہلے سے بہت مختلف ہے‘‘۔ پھر 18 اکتوبر کی شب وطن واپسی پر ایک کی بجائے 2 خود کش افراد نے ان کا ''خیر مقدم‘‘ کیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں ، اس نوعیت کے بھیانک ترین سانحات میں سے ایک تھا، جس میں 135 افراد مارے گئے۔ بے نظیر نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ ان 8 برسوں میں پاکستان واقعی کتنا بدل چکا ہے۔
عرب دانشور امیر طاہری نے ٹائمز آف لندن میں لکھا: '' ایک حالیہ ملاقات میں بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ انہیں تقریباً ایک درجن گروپوں کی طرف سے سنگین دھمکیاں ملی ہیں، جو انہیں پاکستان کو ''اسلامی ریاست‘‘ بنانے کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں‘‘ ۔ امیر طاہری کے مطابق بے نظیر بھٹو کو معلوم تھا کہ وہ اپنی جان خطر ے میں ڈال رہی ہیں ۔ آکسفورڈ اور ہارورڈ سے تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود وہ مقدر پہ پختہ یقین رکھتی تھیں کہ قسمت میں جو لکھا جا چکا ، وہ ہو کر رہے گا۔ ایک ملاقات میں، جس میں عام انتخابات کی بات ہو رہی تھی، انہوں نے کہا تھا ''آپ دیواروں کے پیچھے رہ کر جمہوری زندگی میں حصہ نہیں لے سکتے۔ میں اسامہ بن لادن اور ملا عمر کی طرح کسی غار میں نہیں چھپ سکتی۔ مجھے اپنے لوگوں کے ساتھ رہنا ہے‘‘۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ محترمہ نے اپنی موت سے چند گھنٹے قبل افغان صدر حامد کرزئی کو بھی اپنی زندگی کو لاحق خطرات سے آگاہ کیا تھا۔ حامد میر کے مطابق بے نظیر بھٹو کو یہ انتباہ بھی کر دیا گیا تھا کہ الیکشن سے صرف چند روز قبل حامد کرزئی کے سا تھ ملاقات ان کے لئے مزید مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ اس سے کچھ انتہا پسندوں کو یہ کہنے کا موقع مل سکتا ہے کہ یہ ایک ''پاکستانی امریکی ایجنٹ‘‘ کی '' افغان امر یکی ایجنٹ ‘‘ سے ملاقات تھی ، لیکن انہوں نے ان خدشات اور تحفظات کو مسترد کر دیا ۔ کرزئی نے اس ملاقات میں بے نظیر بھٹو کے لئے زندگی کی دعا کی تو محترمہ کا جواب تھا : '' زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، میں کسی خوف کو خاطر میں لائے بغیر موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی ہمت رکھتی ہوں‘‘۔ ( حامد کرزئی نے نواز شریف کے ساتھ ملاقات کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا، لیکن انہوں نے انتخابی مصروفیات کی بنا پر معذرت کر لی) حامد میر نے چند روز قبل محترمہ کے ساتھ ناشتے پر ہونے والی گفتگو کا ذکر بھی کیا ''انہیں در پیش خطرات کا احساس تھا، لیکن ان کی کہنا تھا کہ ایک سیاست دان اور ایک لیڈر میں یہی فرق ہوتا ہے کہ سیاست دان قربانیاں مانگتا ہے جبکہ لیڈر قربانیاں دیتا ہے‘‘۔
تقدیر پرست ہونے کے باوجود وہ احتیاطی اقدامات اور حفاظتی انتظامات سے انکاری نہیں تھیں۔ اپنے آخری ورکنگ لنچ میں بھی، وہ اپنے سکیورٹی ایڈوائزر رحمن ملک سے گفتگو کرتی رہیں۔ رحمن ملک اس پر تشویش کا اظہار کر رہے تھے کہ حکومت کی طرف سے محترمہ کے لئے اس وقت تک سگنل جامرز (Signal Jammers) فراہم نہیں کیے گئے تھے۔ انہوں نے وزارت داخلہ کو خط بھی لکھا‘ جس میں مزید سکیورٹی کی درخواست کی گئی تھی۔ وہ جلسے سے قبل آئی جی پولیس پنجاب سے رابطے کی کوشش بھی کرتے رہے (لیکن ناکام رہے)۔
محترمہ نے چند روز قبل امریکہ میں اپنے دوست مارک سیگل کو ای میل میں لکھا تھا، ''اگر میں قتل ہو جاؤں تو اس کا ذمہ دار پرویز مشرف کو سمجھا جائے، جنہوں نے بار بار طلب کرنے پر بھی مطلوبہ سکیورٹی آلات مہیا نہیں کئے‘‘۔ مارک سیگل نے اس رات سی این این پر یہ بات کہی۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں محترمہ کے آخری لمحات کی تصاویر اگرچہ اس سانحہ کی منہ بولتی کہانی تھیں لیکن موت کے سبب کے حوالے سے سرکاری حکام کے تضادات سے بھرپور بیانات نے اس سنگین المیے میں ایک مضحکہ خیز پہلو کا اضافہ کر دیا تھا۔
ان میں وزارت داخلہ کے ترجمان بریگیڈیئر (ر) جاوید اقبال چیمہ کا وہ بیان بھی تھا‘ جس میں وہ اصرار کر رہے تھے کہ محترمہ کی موت فائرنگ یا بم دھماکے سے نہیں، بلکہ کنپٹی پر گاڑی کے سن روف کا لیور لگنے کی وجہ سے ہوئی۔ انہوں نے محترمہ پر قاتلانہ حملے کا ماسٹر مائنڈ بیت اللہ محسود کو قرار دیا اور ان کی مبینہ ٹیلی فونک گفتگو کا ٹیپ بھی جاری کیا، جسے پیپلز پارٹی کی قیادت کے علاوہ عام آدمی نے بھی ایک ڈرامہ قرار دیا۔ سن روف کے لیور کو موت کا سبب بتانا ایک ایسی مضحکہ خیز بات تھی، جس پر کوئی نیم پاگل شخص بھی شاید ہی یقین کرے (مکمل پاگل کی بات الگ تھی) ۔
ان متضاد بیانات ہی کی وجہ سے عالمی حلقوں میں بھی شکوک و شبہات کے سائے گہرے ہوتے جا رہے تھے۔ '' نیو یارک ٹائمز‘‘ نے بھی اس حوالے سے نئے سوالات اٹھائے کہ اس نہایت ہائی پروفائل کیس میں پوسٹ مارٹم کیوں نہیں کیا گیا، جو موت کے اصل سبب تک پہنچنے کے لیے ضروری تھا۔
جناب آصف زرداری کو اس اعتراف میں عار نہ تھی کہ خود انہوں نے پوسٹ مارٹم کرنے سے منع کر دیا تھا۔ پریس کانفرنس میں ان کا استدلال تھا: ''یہ میری بیوی کی توہین ہوتی، قوم کی بہن کی توہین ہوتی، قوم کی ماں کی توہین ہوتی‘‘۔ انہوں نے مزید کہا ''میں جانتا ہوں ، ان کی فرانزک رپورٹس کا کوئی فائدہ نہیں؛ چنانچہ میں نے محترمہ کی آخری باقیات انہیں دینے سے انکار کر دیا‘‘۔
زرداری صاحب کی حکومت نے لاکھوں ڈالر خرچ کر کے یو این او کی خصوصی ٹیم سے بھی تحقیقات کرائیں۔ اس کے علاوہ پنجاب حکومت کی طرف سے ایڈیشنل آئی جی چودھری مجید کی سربراہی میں جے آئی ٹی نے اور وفاقی حکومت کی طرف سے ڈائریکٹر خالد قریشی کی سربراہی میں ایف آئی اے کی ٹیم نے اپنی الگ الگ رپورٹوں میں طالبان رہنما بیت اللہ محسود کے ایما پر 8 رکنی گروپ کو محترمہ کے قتل کا ذمہ دار قرار دیا جس کی سازش صدر مشرف نے تیار کی تھی۔ یہ کیس ٹرائل کورٹ کی فائلوں میں کہیں گہرا دفن ہو چکا ہے۔
نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش، دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو، تنِ داغ داغ لٹا دیا
مرے چارہ گر کو نوید ہو، صفِ دشمناں کو خبر کرو
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر، وہ حساب آج چکا دیا
کرو کج جبیں پہ سرِ کفن، مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن، پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا
جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
(فیض احمد فیض)