احتساب کا یہ عمل اب تھمے گا نہیں‘ ایک کے بعد دوسرے گروہ کے لوگ زد میں آئیں گے۔ ہر چہ بادا باد‘ اب جو بھی ہو!
آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے دلائل بے معنی ہیں ‘ سطحی اور مضحکہ خیز۔ کون سی اٹھارہویں ترمیم‘ کون سا ون یونٹ اور سندھ سے کون سا امتیازی سلوک؟ آصف علی زرداری اور ان کے ساتھی لوٹ مار کے مرتکب ہوئے یا نہیں؟مجرم ہیں انہیں سزا ملنی چاہئے۔ اگر نہیں تو عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کریں!
اٹھارہویں ترمیم کا کھٹ راگ کیا ہے؟ ایسے کوئی آثار نہیں کہ اس ترمیم کو ختم کرنے کی تیاری کی جا رہی ہو۔ کی بھی کیسے جا سکتی ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت درکار ہوگی۔ فرض کیجئے کچھ لوگ آرزو رکھتے ہوں ‘تو یہ اکثریت ہے کہاں؟ رہا ون یونٹ کا الزام تو یہ سرے سے مضحکہ خیز ہے۔ بالفرض کسی مرحلے پر اٹھارہویں ترمیم میں کچھ تبدیلیاں کر دی جائیں... تو ون یونٹ کیونکر وجود پائے گا۔
دستور کے بنیادی ڈھانچے کو بدلا نہیں جا سکتا۔ پارلیمان اجازت نہیں دے گی‘ وگرنہ سپریم کورٹ سدّ ِراہ ہو گی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ قوم یہ گوارا نہ کرے گی۔ یہ رجحان ہی کہیں موجود نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ‘ حکومت یا کسی بھی سیاسی پارٹی نے کبھی یہ مطالبہ کیا ہی نہیں۔سندھ سے امتیازی سلوک بھی محض ایک نعرہ ہے۔ مقدمہ چند لوگوں کے خلاف ہے۔ اتفاق سے ان کا تعلق اگر سندھ کے ساتھ ہے تو یہ کیسے ثابت ہو اکہ مرکزی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ اس کے خلاف کارفرما ہے۔
پی ٹی آئی کی حکومت یا عسکری قیادت نے تو یہ مقدمہ قائم کیا ہی نہیں۔ سپریم کورٹ نے از خود نوٹس کے تحت کارروائی کی۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم‘ جے آئی ٹی بنانے کا حکم بھی اسی نے صادر کیا۔
بینکوں کے جعلی کھاتے کیا اس نے کھولے؟ بیمار صنعتوں کی اس انداز میں نیلامی کا کارِ خیر کیا اس نے انجام دیا؟زرِاعانت کس نے دیا؟بینکوں کے قرضے کس نے جاری کیے؟
دہشت گردی اس عروج کو پہنچی کہ معاشرے کی ساری توانائی اس سے نمٹنے میں صرف ہو رہی تھی۔ حالات سے فائدہ اٹھا کر‘ شریف اور زرداری خاندان نے لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا۔ تخریب کاری سے اب کچھ نجات ملی ہے۔ دریں اثناعمران خان اور میڈیا کی پیہم کاوشوں سے کرپشن کا موضوع اجاگر ہوتا گیا۔ ملک بھر میں عشروں سے جاری چیخ و پکار کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ آخر کار مگر مچھوں پہ ہاتھ ڈال دیا گیا۔ ابھی کل تک جن کی باز پرس کا امکان نہ تھا۔
ہر مجرم یہ سمجھتا ہے کہ وہ بچ نکلے گا۔ ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ جرم اپنے نشان چھوڑتا ہے۔ بھانڈا ایک دن پھوٹ جاتا ہے۔ بات ایک دن نکل جاتی ہے۔ قدرتِ کاملہ کا یہ ابدی قانون ہے اور اس میں کوئی استثنیٰ نہیں۔ سرکارؐ کے فرامین میں سے ایک یہ ہے کہ : کوئی اس دنیا سے اٹھے گا نہیں‘ جب تک اس کا باطن بے نقاب نہ ہو جائے۔
یہ ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ فعال طبقات‘ میڈیا اور رائے عامہ پر بھی نتائج کا انحصار ہے۔ اخبار نویسوں کی ایک بڑی تعداد کنفیوژن کا شکار ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو جائے‘ کہیں ایسا نہ ہو جائے۔ عدالتیں اگر ڈٹ کر کھڑی رہیں اور قرائن یہ ہیں کہ ڈٹی رہیں گی۔ حکومت اگر پسپا نہ ہوئی اور بظاہر کوئی اندیشہ نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے آگے بڑھ کر مجرموں کو بچانے کی کوشش نہ کی اور کیوں کرے گی تو جلد یا بدیر مجرم اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ ادبار میں گھری قوم کے لیے یہ نجات کا آغاز ہوگا۔
پیچھے ہٹنے کی گنجائش موجود نہیں۔ کسی نے ایسا کیا تو ذلت اور رسوائی کو دعوت دے گا۔ جرم واضح ہے اور شواہد موجود۔
ماہرین بتا سکتے ہیں کہ مقدمہ کس طرح آگے بڑھے گا۔ بظاہر یہ ہے کہ سپریم کورٹ معاملہ نیب کو سونپے گی۔ یہاں فکر مندی کا ایک پہلو ہے۔نیب کی استعداد کم ہے۔ بہترین دماغوں کی معاونت اسے حاصل نہیں۔ اکثر اس کے وکلاء بھی کمزور ہوتے ہیں۔ پوری طرح گاہے تیاری نہیں کی جاتی۔بہترین حکمتِ عملی شاید یہ ہوگی کہ مقدمہ مختلف حصّوں میں تقسیم کر دیا جائے‘ مثلاً بینکوں کے جعلی کھاتے‘ کالا دھن‘ قرضے اور ٹیکس چوری۔ گواہوں کی تعداد بھی زیادہ نہ رکھی جائے کہ مقدمہ لٹکتا رہے گا۔نیب کی مدد کی جانی چاہئے۔ اس مرحلے پر کوتاہی خطرناک ہو سکتی ہے‘ جیسے میدانِ جنگ کا تذبذب یا نالائقی۔ کاہل اور عافیت پسند لشکر جنگیں نہیں جیتا کرتے۔
یہ ملک و قوم کی بقا کا سوال ہے۔ اس میں کامل یکسوئی اور پوری ریاضت درکار ہے۔ہم تاریخ سے سبق سیکھتے ہیں‘ رسول اکرمؐ کے ارشاداتِ گرامی اور سب سے بڑھ کر اللہ کی آخری کتاب سے۔ مغرب کی نمو اور افزائش کا راز کیا ہے؟ قانون کی حکمرانی۔ ایسے اداروں کی تعمیر‘ سفارش جن میں راہ نہیں پا سکتی۔ کوئی برطانوی‘ جرمن‘ فرانسیسی وزیراعظم یا امریکی صدر قانون توڑ کر آسودہ نہیں رہ سکتا۔ ہماری اشرافیہ من مانی کا لائسنس چاہتی ہے۔ تین عشروں تک الطاف حسین نے کراچی کو یرغمال بنائے رکھا۔ کراچی کیا‘ ایک حد تک اسلام آباد اور ملک بھر کے میڈیا کو بھی۔ کسی معاشرے میں مجرم آزاد اور طاقتور ہوں تو اخلاق و کردار کی فصل اجڑنے لگتی ہے۔ لوگ بادشاہوں کے نقش قدم پر ہوتے ہیں۔ بھتہ خوری اور لوٹ مار کیا‘ الطاف حسین کو قتل و غارت کی آزادی ملی۔ نتیجہ کیا نکلا؟ ملک سے سرمایہ فرار ہونے لگا‘ ہمّتیں ٹوٹ گئیں۔ اخبار نویسوں‘ دانشوروں میں ایسے لوگ پیدا ہو گئے‘ بے حیائی کے ساتھ جو قاتل کے لیے جواز تراشنے لگے۔
ظلم مٹ جانے کے لیے ہوتا ہے۔ فریب کا پردہ ایک دن چاک ہونا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود کہ بھارت اور برطانیہ اب بھی الطاف حسین کی پشت پر ہیں‘ وہ اب رسوا ہے۔ عبرت کا ایک نمونہ ہے۔اب زیادہ سے زیادہ وہ یہی کر سکتا ہے کہ سوشل میڈیا پہ انتقام کا درس دے۔ اپنے کارندوں کے ذریعے فساد پھیلانے کی کوشش کرے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ کمزور سے کمزور تر ہوتا جائے گا۔ تحلیل ہوتی ہوئی ایم کیو ایم کا بالآخر نام و نشاں مٹ جائے گا۔ ایم کیو ایم کے عروج پر‘ اس کی مزاحمت کرنے والے گنتی کے چند اخبار نویسوں کا مذاق اڑایا جاتا۔ اب اس کی حمایت کرنے والے منہ چھپاتے ہیں۔ اس کا نام تک لینے کے روادار نہیں۔
آصف علی زرداری اور نواز شریف کے حامیوں کا انجام بھی آخر کار یہی ہوگا۔ اگر اس ملک کو زندہ رہنا ہے تو مجرم کو سزا دینا ہوگی، خواہ وہ کتنا ہی طاقتور ہو۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے ‘معاشرے وہی زندہ رہتے ہیں‘ جو قصاص لینے کی سکت رکھتے ہوں۔ یہ اللہ کے آخری رسول ؐ کا فرمان ہے کہ : وہ قومیں مٹ جاتی ہیں‘ جو بالاتر اوربا رسوخ لوگوں سے باز پرس نہ کر سکیں۔
چند ایک نہیں‘ ہزاروں لوگ ہیں‘ جنہوں نے کھرب پتی لیڈروں اور ان کے شریک کار پراپرٹی کے شعبدہ بازوں سے فوائد حاصل کیے۔ اخبار نویس اور دانشور ہی نہیں کہ ان میں بعض آسان شکار ہوتے ہیں‘ اعلیٰ سرکاری افسر بھی ان میں شامل ہیں۔ یہ ایک مشکل جنگ ہوگی لیکن جیتنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔
بقا کی انسانی جبلّت بہت طاقتور ہے۔ جان پہ بن آتی ہے تو سب کچھ کر گزرنے کو آدمی تیار ہو جاتا ہے۔ فعال طبقات میں زرداری اور نواز شریف کی مگر پذیرائی نہ ہوگی۔ پیروکاروں میں سے بھی کم ہی میدان میں نکلیں گے۔ بدعنوانوں کے لیے خلق خود کو خطرے میں نہیں ڈالا کرتی۔ امریکیوں کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت آن پڑی ہے۔ مجرموں کیلئے وہ بروئے کار نہیں آئے گی۔ نواز شریف کیلئے ترک تھوڑے سے فکر مند ہوں گے اور زرداری کیلئے شاید امارات والے۔ مگر وہ ایک حد سے آگے نہ جائیں گے۔ وقت کا دھارا ان کے حق میں نہیں۔
ظاہر ہے کہ سیاسی کشمکش ‘ معیشت پہ برے اثرات مرتب کرے گی۔ نقصانات کو محدود کرنے کے لیے کاروباری طبقات کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ پسپائی بہر حال ممکن نہیں۔آصف علی زرداری اور نواز شریف کی کرپشن کے باب میں پسپائی کا مطلب انصاف کی موت ہوگا۔ انصاف کی امید ختم ہو جائے تو اقوام ایسی دلدل میں گرتی ہیں کہ ابھر نہیں سکتیں۔
احتساب کا یہ عمل اب تھمے گا نہیں‘ ایک کے بعد دوسرے گروہ کے لوگ زد میں آئیں گے۔ ہر چہ بادا باد‘ اب جو بھی ہو!