تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     29-12-2018

سکھ ریفرنڈم سے پہلے

'' سکھ کسی بھی جگہ‘ کہیں بھی ہوں‘ اپنے گردواروں میں ارداس کرتے ہوئے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کی فریاد کرتے ہیں اور یہ ہر سکھ کی ہمیشہ سے ہی عبا دت کا حصہ ہوتی ہے ۔اندرا گاندھی کے قتل کے چند گھنٹوں بعد دہلی اور اس کے ارد گرد سکھ دھرم کے ماننے والوں پر ہندو انتہا پسند غنڈوں نے جو شرمناک اور سفاکانہ مظالم کئے وہ اس وقت تک سکھوں کی عبا دت کا حصہ رہیں گے جب تک یہ دنیا قائم ہے‘‘۔ یہ اس تقریر کے الفاظ ہیں جو سردار ترلوک سنگھ نے بھارتی پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر ایوان کے سامنے کہے۔ 31 اکتوبر1984ء صبح ساڑھے نو بجے اپنے سکھ محافظوں کے ہاتھوں بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے چند گھنٹوں بعد دہلی اور اس سے ملحقہ شہروں اور قصبوں میں سکھوں کا انتہائی منظم طریقے سے قتل عام شروع ہو گیا۔ 46 ریل گاڑیوں کو دہلی اور غازی آباد کے درمیان روک کر ان میں سوار سکھ مردوں‘عورتوں اور بچوں کو اتار کر ذبح کیا گیا۔ بلکہ یہاں تک ہوا کہ آج بھی دنیا بھر کی چھائونیوں اور بیرکوں میں اس بات کا انتہائی حیرت سے ذکر کیا جاتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ کسی بھی ملک کی مسلح ا فواج میں الگ دھرم سے تعلق رکھنے والے فوجیوں کو ٹرین سے اتار کر باقی فوجیوں سے الگ کرتے ہوئے بلوائی غنڈوں کے ہاتھوںان کا قتل کرا دیا جائے اور باقی فوجی یہ سب خاموشی سے دیکھتے رہیں؟
جس طرح انڈین آرمی کی سپیشل ٹرینوںکو روک کر پگڑی باندھے ہوئے سکھ فوجیوں کو دہلی سے باہر ٹرینوں سے اتاراتار کر قتل کیا گیا‘ یہ خوفناک مناظر بھاگ کر زندہ بچ جانے والے یا شدید زخمی ہونے والے سکھ فوجی‘ جنہیں جلد ہی فوج سے جبری ریٹائر کر کے گھروں کو بھیج دیا گیا تھا ‘یاد کرتے ہوئے شدید کرب سے تڑپ اٹھتے ہیں ۔ کانپور میں300 سے زائد سکھوں کو سٹیل ملوں کی بھٹیوں میں پھینک کر زندہ جلا دیا گیا۔ جب دہلی میں سکھوں کا قتل عام ہو رہا تھا تو جنرل جگجیت سنگھ اروڑا اور ایئر مارشل ارجن سنگھ جیسے بھارتی فوج کے مہان جرنیل ہوم منسٹر کے پاس بھاگے بھاگے گئے کہ سکھوں کو بچا ئو‘ لیکن انہیں یہ کہہ کر ٹرخا دیا گیا کہ ہم اندر اگاندھی کی آخری رسومات کے انتظامات میں مصروف ہیں؟ کیا سکھوں کو قائد اعظم محمد علی جناح کی پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کی پیشکش قبول نہ کرنے کی سزا دی جارہی تھی؟
براہمن اور انتہا پسند ہندو'' سکھ فار جسٹس ‘‘کے تحت2020 ء میں سکھوں کے ریفرنڈم سے سخت خوفزدہ ہو چکا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ اس سے پہلے بھارت کی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کے خلاف کوئی خطرناک قدم اٹھانے سے گریز نہیں کرے گی‘ اس کیلئے نریندر مودی کی حالیہ تقریر سامنے رکھیں جس میں وہ ڈائس پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے کہتا ہے: کانگریس کی اس غلطی کی سزا بھارت آج بھی بھگت رہا ہے کہ اس نے ہندوستان کی تقسیم کے فارمولے کو تسلیم کرتے وقت کرتار پور کو پاکستان کا حصہ کیوں تسلیم کیا؟ نہرو اور گاندھی کو چاہئے تھا کہ کرتار پور کو بھارت کا حصہ بناتے‘ تاکہ آج اس کی راہداری کیلئے ہمیں پاکستان کا احسان نہ لینا پڑتا ۔ یاد رکھئے یہ الفاظ نہیں پچھتاوا ہے۔مودی کی اس تقریر سے دو دن بعد بھارتی جنرل راوت کہتا ہے کہ پاکستان خالصتان کی تحریک کو ہوا دینے کیلئے اس کے مردہ ایشو کو ایک بار پھر اٹھانے کے علا وہ آسام کے علیحدگی پسندوں کی مدد کر رہا ہے ۔ جنرل راوت نے پاکستان کوRAW کے A PUBLICATION OF BUREAU OF POLITICAL RESEARCH AND ANALYSISکے تحت ہونے والے سیمینار سے خطاب میں پاکستان کودھمکیاں دیںکہ وہ اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کر دے۔مودی بھارت کی ریا ستی اسمبلیوں کے انتخابات میں اپوزیشن کے ہاتھوں بری طرح شکست کھاتا جا رہا ہے اور اگلے سال اپریل میں ہونے والے عام انتخابات میں اپنی متوقع شکست کو دیکھتے ہوئے وہ پاکستان کو نشانہ بناکر یا اس کے کسی خاص حصے پر سٹرائیک کرتے ہوئے ہندوئوں کے ووٹ اور ہمدرد یاں حاصل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے کیونکہ نریندر مودی کے بچپن سے لڑکپن تک اور پھر اس کی جوانی سے اب تک کی پاکستان سے نفرت اور مجموعی طور پر مسلم دشمنی کی تاریخ سامنے رکھنے کے ساتھ ساتھ جنرل راوت کی بطور آرمی چیف عہدہ سنبھالنے سے متواتر کسی انتہا پسند ہندو سے بھی بڑھ کر مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکیوں کو سامنے رکھیں تو ان سے کچھ بھی بعیدنہیں۔ مودی اور راوت کی ذہنی حالت کسی نفسیاتی مریض کی طرح ہوتی جا رہی ہے‘ کیونکہ جب نریندر مودی نے بھارت کا اقتدار سنبھالا تھا تو چاروں جانب ایک ہی آواز گونجتی سنائی دیتی تھی کہ مودی سرکار کا اقتدار اگلے آٹھ برسوں تک چلے گا‘ لیکن حالیہ ریا ستی انتخابات کے نتائج نے اس کے ہوش اڑا کر رکھ دیئے ہیں‘ جس سے وہ بائولا سا ہو کر رہ گیا ہے ۔
یہ اتفاق بھی ہو سکتا ہے یا بھارت کا اندرونی یا عارضی انتظامی سلسلہ بھی ہو سکتا ہے‘ لیکن پاکستان سے نریندر مودی کی طرح دلی نفرت اور اسے ختم کرنے کیلئے دن رات ایک کرنے والی بھارت کی پولیس اور انٹیلی جنس سروس کے اہم ترین ادارے‘ جن میں بھارت کی RAW اور طاقتور IB کے سربراہان جو بالترتیب دسمبر کے آخر میں ریٹائر ہو رہے تھے‘ مودی سرکار نے ان کی مدت ملازمت میں چھ چھ ماہ کی توسیع کر دی ہے۔ آئی بی کے ڈائریکٹر راجیو جین‘ جو جاڑ کھنڈ کے رہنے والے ہیں‘ ان کا تعلق IPS کے 1980 ء بیچ سے ہے ۔انہیں مودی سرکار نے تیس نومبر2016ء میں تعینات کیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر ڈیسک پر کام کرتے رہے ‘بلکہ سابقہNDA کے ایڈوائزر بھی رہے۔ RAW کے سیکرٹری مدھیہ پردیش سے تعلق رکھنے ولاے انیل کے دھسمن1981ء بیچ سے ہیں اور گذشتہ23 برسوں سے را ء کے انتہائی حساس شعبوں میں کام کرتے رہیں ‘ بلکہ کئی برس تک پاکستان ڈیسک کے انچارج بھی رہے ہیں۔ جنرل راوت برطانیہ میں سکھ فار جسٹس(SFJ) International Advocacy Group کے حوالے سے خالصتان کے قیام اور سکھوں کو بھارت سے آزادی حاصل کرنے کیلئے نکالی جانے والی ریلی کو بھی پاکستان کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان بھر پور مدد فراہم کر رہا ہے۔ بھارت کے اس جنرل سے کوئی پوچھے کہ سالہا سال سے برطانیہ امریکہ اور کینیڈا میں رہنے والے سکھ کیا دودھ پیتے بچے ہیں کہ پاکستان انہیں ورغلا کر لندن کی سڑکوں پر لے آتا ہے؟ اگر ترلوک سنگھ بھارت کی پارلیمنٹ میں چیخ رہا ہے تو دنیا بھر کے سکھ اپنے پیاروں کے قتلِ عام پر کیسے خاموش رہ سکتے ہیں۔
ہندوستان کی تقسیم کے کچھ عرصہ بعد ہی کانگرس اور اب ا س کی کوکھ سے جنم لینے والی بی جے پی نے سکھوں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا جو سلوک کیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ ہے؟ براہمنوں نے سکھوں کو کبھی بھی اپنے برا بر نہیں‘ بلکہ کمتر ہی سمجھا ہے۔2020ء میں پنجاب کی آزادی کے نام سے خالصتان کی علیحدہ اور خود مختار ملک کے قیام کے حق یا مخالفت میں ہونے والے ریفرنڈم کی آمد سے دو برس قبل ہی جنرل راوت کا شور شراباکہ اس کے پیچھے برطانیہ اور امریکہ میں مقیم کچھ سکھ ہیں‘ جو آئی ایس آئی کی وساطت سے یہ سب پلان کر رہے ہیں‘اس خوف کا حصہ ہے‘ جس میں پنجاب سمیت ہریانہ اور دنیا بھر کے سکھ اپنی علیحدہ پہچان کیلئے ایک ہونے جا رہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved