کراچی میں یکے بعد دیگرے ٹارگٹ کلنگ کے دو واقعات رونما ہوئے ہیں اور لوگ خوف محسوس کر رہے ہیں۔ کراچی ایک زمانے تک خرابی کی نذر رہا ہے۔ ایک دور وہ بھی تھا کہ قدم قدم پر موت کے سائے منڈلاتے دکھائی دیتے تھے۔ کیفیت یہ تھی کہ ؎
اجنبی خوف فضاؤں میں بسا ہو جیسے
شہر کا شہر ہی آسیب زدہ ہو جیسے
ہرے بھرے شہر کو جیسے کسی کی نظر لگ گئی تھی۔ شہریوں کا جینا محال ہوگیا تھا۔ حواس مختل تھے اور اعصاب شکست سے دوچار۔ لاکھ کوشش کرنے پر کسی چیز کا کوئی سرا ہاتھ نہ آتا تھا‘ کوئی کچھ بھی سمجھ نہ پاتا تھا۔ لوگ سوچتے کچھ تھے اور ہوتا کچھ تھا۔ اہلِ شہر کرنے نکلتے تھے کچھ اور نتیجہ برآمد ہوتا تھا کچھ اور گویا ع
پاؤں رکھتا ہوں کہیں اور کہیں پڑتا ہے!
والی کیفیت تھی کہ ہر معاملے کی جڑوں میں بیٹھ گئی تھی۔ اہلِ شہر کا حال یہ تھا کہ بے حال تھے۔ گزرا ہوا زمانہ اِتنا دُھندلا دکھائی دیتا تھا کہ کچھ سمجھ ہی میں نہ آتا تھا۔ اور آنے والا زمانہ تو خیر سُجھائی دینے کے حوالے سے صفر کی منزل میں تھا۔ ایسے میں حال کا دور دور تک پتا نہ تھا۔ صد شکر کہ وہ دور لد گیا۔ بے امنی ختم ہوئی۔ لوگ بلا خوف کہیں بھی آنے جانے کے قابل ہوئے۔ ایک دور تھا کہ گھر سے نکلتے وقت بھی کئی بار اِدھر اُدھر دیکھنا پڑتا تھا۔ شام کو کام ختم کرکے گھر واپسی پر متعلقہ فرد اور گھر کے تمام افراد سکون کا سانس لیا کرتے تھے۔ آج شہر کا سکون دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوتی ہے۔ معاشی سرگرمیاں پورے زور و شور اور آب و تاب سے جاری ہیں۔ اب اہلِ شہر زندگی یوں بسر کر رہے ہیں کہ جینے کا لطف آنے لگا ہے۔
پہلے پاک سرزمین کے سرکردہ کارکنوں اظہر اور نعیم اور پھر متحدہ کے سابق ایم این اے سید علی رضا عابدی کے بہیمانہ قتل نے ایک بار پھر پورے شہر میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ لوگ یہ سوچ سوچ کر پریشان ہیں کہ ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ دراز ہوا تو کیا ہوگا۔ دلوں میں یہ خدشہ پیدا ہوا ہے کہ روشنی کے شہر کو ایک بار پھر ظلمت کی نظر نہ لگ جائے۔ ایک زمانے کے بعد امن بحال ہوا ہے اور کاروبار کا ماحول بنا ہے۔ اندرونی ہی نہیں‘ بیرونی سرمایہ کاری بھی ممکن ہو پائی ہے۔ شہر کے کئی علاقوں میں ترقیاتی کام تیزی سے مکمل کیے گئے ہیں اور چند منصوبوں کو تیزی سے مکمل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ شہر مہنگا ہوگیا ہے‘ جس کے نتیجے میں لوگوں کے لیے زیادہ اور بہتر کام کرنا بھی لازم ہوگیا ہے۔ معاشی سرگرمیوں میں تیزی آگئی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ شہرِ قائد کے مکینوں کو وقت کم اور مقابلہ سخت والی کیفیت کا سامنا ہے۔ شہر ایک بار پھر ٹریک پر ہے۔ کامیابی کی طرف بڑھتے وقت جس حوصلے اور ولولے کی ضرورت ہوا کرتی ہے وہ شہریوں میں بہ درجۂ اتم پایا جارہا ہے۔
تعلیمی سرگرمیاں ایک زمانے سے ماند پڑی تھیں۔ امتحانات کے زمانے میں بھی خون خرابے سے شیڈول بگڑ جایا کرتے تھے اور پرچے دینے والوں کی ساری تیاری اور جاں فشانی دھری کی دھری رہ جاتی تھی۔ یہ مکروہ کھیل کم و بیش ڈیڑھ عشرے تک اِس طور جاری رہا کہ حوصلے شکست و ریخت کی منزل سے گزرتے گزرتے دم توڑنے کے مرحلے تک پہنچ گئے۔ مقامِ شکر ہے کہ اب تعلیمی سرگرمیاں بھی اِس طور جاری ہیں کہ پڑھنے والوں کو پڑھنے میں اور پڑھانے والوں کو پڑھانے میں لطف محسوس ہو رہا ہے۔
اقتدار و اختیار کے اعلیٰ ترین ایوانوں کے مسند نشینوں نے شہرِ قائد کے لیے کیا سوچا ہے‘ یہ تو اللہ ہی جانے مگر دکھائی یہ دے رہا ہے کہ اِس معمورے کو بربادی کی طرف دھکیلنا اب کسی بھی سطح پر اجتماعی حکمتِ عملی کا حصہ نہیں۔ اِس معمورے کی تقدیر شاید یوں بدلی ہے کہ علاقائی و عالمی حالات بھی بدل گئے ہیں۔ کل تک جو طاقتیں اِس شہرِ بے مثال کو نظر انداز کیا کرتی تھیں‘ اب وہ ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ بظاہر طے کرلیا گیا ہے کہ سمندر کے کنارے آباد انسانوں کے اِس سمندر کو امن و آشتی کے ساحل سے ہم کنار رکھا جائے گا۔ جس ماسٹر پلان کے تحت شہر کو نیا رنگ و روپ دینے کی تیاری کی جارہی ہے‘ اُس کا بنظرِ غائر جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کراچی کو خرابی کی طرف جانے دینا فی الحال اندرونی طاقتوں کو پسند نہ بیرونی طاقتوں کو۔ علاقائی و عالمی سیاسی حرکیات کا تقاضا یہ ہے کہ اِتنے وسیع اور وقیع شہر کو بے لگام نہ چھوڑا جائے‘ خرابیوں کی دلدل میں دھنسنے نہ دیا جائے۔
دبئی سمیت خلیجِ فارس کے تمام اہم شہری مراکز اب saturation point تک پہنچ چکے ہیں۔ دبئی میں اب بڑے پیمانے پر مزید سرمایہ کاری جذب کرنے کی سکت نہیں رہی۔ وہاں کاروبار کرنے والوں اور ملازمت کے ذریعے بہتر آمدنی کا اہتمام کرنے والوں کو یکساں نوعیت کی مشکلات کا سامنا ہے۔ معیشت کو سہارا دینے کے نام پر غیر ملکی سرمایہ کاروں اور محنت کشوں سے محاصل کی مد میں لوٹ کھسوٹ میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جارہی۔ ایسے حالات پیدا کیے جارہے ہیں کہ غیر ملکی محنت کشں خود ہی رختِ سفر باندھ لیں۔ ایسے عالم میں کراچی علاقائی سطح پر منظورِ نظر کیوں نہ ٹھہرے؟ کراچی اچھا خاصا پھیلا ہوا ہے اور مزید پھیلنے کی بھی گنجائش ہے۔ شہر کے اندر ایسے کئی وسیع و عریض علاقے موجود ہیں جو بھرپور ترقیاتی عمل شروع کیے جانے کے منتظر ہیں۔ شہرِ قائد کئی شہروں کا مجموعہ ہے۔ اولڈ سٹی ایریا تو نام ہی سے یہ بتاتا ہے کہ اُسے ایک الگ شہر قرار دیا جائے۔ نارتھ کراچی بھی ایک الگ اور منفرد نوعیت کا معمورہ ہے۔ اورنگی ٹاؤن کا بھی یہی عالم ہے۔ کورنگی انوکھے رنگ ڈھنگ کی ایک الگ دنیا ہے۔ لانڈھی کی وسعت اور نیرنگی دیکھ کر کون کہے گا کہ یہ محض علاقہ ہے‘ شہر نہیں ہے؟ یہی عالم ملیر کا بھی ہے۔ لیاقت آباد سے آگے سہراب گوٹھ تک اور پھر دائیں ہاتھ پر صفورہ گوٹھ اور اُس سے آگے تک ایک الگ دنیا دکھائی دیتی ہے۔ گلستانِ جوہر کی تو منصوبہ سازی اِس طور کی گئی ہے کہ اِسے باضابطہ شہر کی حیثیت سے قبول کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہونی چاہیے۔
کراچی کو نئی زندگی بخشنے کا عمل جاری ہے۔ ایک دنیا اِس کی طرف متوجہ ہو رہی ہے۔ ایسے میں سیاست کے نام پر ایک بار پھر خرابیاں پیدا کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اب اندرونی ہی نہیں‘ بیرونی سٹیک ہولڈرز بھی ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تناظر میں بھی کراچی ایک کلیدی گزر گاہ ہے جسے نظر انداز کرکے خطے میں ''پُرامن بقائے معیشت‘‘ کے خواب کو شرمندۂ تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ شہر میں امن برقرار رکھنا جن کی ذمہ داری ہے اُنہیں یہ بات یقینی بنانی چاہیے کہ اہلِ شہر کسی طور دوبارہ خوف و وحشت کی طرف نہ جائیں۔ سیاسی اختلافات کی بنیاد پر قتل و غارت کے نئے سلسلے کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ کتنی ہی مَنّتوں اور دعاؤں کے نتیجے میں ملک کی معاشی و معاشرتی تمکنت کا مرکز اپنی جَون میں واپس آیا ہے۔ یہ واپسی مستقل بنیاد پر ہونی چاہیے۔ شہر کے کسی علاقے میں کسی کے کسی بھی غدار کا داخلہ منظور ہو یا نہ ہو‘ اب یہاں خوف کی واپسی مکمل طور پر نامنظور ہے۔ جو امن و آشتی کے ساتھ جینا چاہتے ہیں اُنہیں اِس کا موقع دیا جانا چاہیے۔ ایسے میں خرابیاں پیدا کرنے والوں کو برداشت کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔