الطاف حسن قریشی، الف سے ی تک ایک بھرپور کہانی ہیں۔ جس طرح اِن کا نام الطاف کے الف سے شروع ہو کر قریشی کی ی پر رُکتا ہے، اِسی طرح اِن کی قلمرو بھی الف سے ی تک پھیلی ہوئی ہے۔ اِن کے ہاں وہ سب کچھ ہے جو الف سے ی تک موجود ہوتا ہے۔ نقط بے نقط، دائرے، شوشے، ایک ہی صوتی تاثر کے کئی متبادلات۔ وہ ''ص‘‘ سے کام لینا جانتے ہیں، ''س‘‘ سے بھی اور ''ث‘‘ سے بھی۔ ''ض‘‘ سے بھی اور ''ظ‘‘ سے بھی۔ ''آ‘‘ سے بھی اور الف سے بھی۔ زبر بھی اِن کے ہاں ہے، اور زیر پر بھی نظر ہے۔ پیش اِن کے آگے کسی کی چلے یا نہ چلے، کسی کے آگے اِن کی چلے یا نہ چلے، اِس کی سر مستیوں کو بھی نظر انداز نہیں کرتے۔ حرفوں کے بنے ہوئے نہیں ہیں، لیکن ایک ایک حرف کے پس منظر اور پیش منظر سے واقف ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ کہاں تین حرف سے کام لینا ہے اور کہاں انہیں بچا کر رکھ لینا ہے۔
الطاف صاحب کو ڈائجسٹ کہانی بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو اِس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ وہ ڈائجسٹ کہانی نہیں خود ڈائجسٹ ہیں۔ ''نقوش‘‘ کے ایڈیٹر محمد طفیل اور نقوش، اِس طرح ایک دوسرے میں جذب ہو گئے تھے کہ محمد طفیل کو ''محمد نقوش‘‘ کہا جانے لگا تھا۔ الطاف حسن قریشی کو اُردو ڈائجسٹ قریشی بھی کہا جا سکتا ہے اور اُردو ڈائجسٹ کا نام ''الطاف ڈائجسٹ‘‘ رکھا جا سکتا ہے۔ وہ سب کچھ الطاف صاحب میں موجود ہے، جو اُردو ڈائجسٹ میں ہے۔ رنگا رنگ سرورق، مضبوط اور محفوظ جلد، المیہ، طربیہ، چونکا دینے والے واقعات، گنگ کر دینے والے معاملات، معانی کا شکوہ، افسانے سے دِلچسپ حقائق، اور حقیقت سے دلچسپ افسانے، حال کا انبوہ، مستقبل کے خواب۔
وہ سیاست دان ہوتے تو ذوالفقار علی بھٹو کی بے تابیوں کو سید مودودیؒ کا سوز مل جاتا۔ ناول نگار ہوتے تو نسیم حجازی اور قرۃ العین حیدر کو یک جان کرنا پڑتا۔ شاعر ہوتے تو اقبالؒ کی آرزوئیں داغ کے لہجے میں ڈھل جاتیں۔ صنعت کار ہوتے تو میرا خیال ہے اتفاق فائونڈری کے سریے سے مضبوط سریا بنا کر دکھا دیتے۔ انہوں نے صحافت کو چُن لیا، یا یوں کہیے کہ صحافت نے اِن کو چن لیا۔ اِس میدان میں قدم رکھا تو سونے کے زیور بناتے تھے، بڑھتے بڑھتے لوہے کے گرز ڈھالنے لگے۔ ''اُردو ڈائجسٹ‘‘ کی ''ایجاد‘‘ سے انہوں نے ادب کو عام آدمی تک پہنچایا، حقائق کہانی کے انداز میں سنائے اور گھر گھر ان کے ذریعے سکہ جمایا۔ دیمک زدہ ادبی رسالوں کے ایڈیٹروں نے انہیں اپنا حریف جانا اور یہ بھول گئے کہ جارج ہفتم اور ایڈورڈ ہشتم کے دور کے سکے جیب میں رکھ کر پولکا آئس کریم تو کجا بندو خان کے کباب بھی نہیں خریدے جا سکتے۔ الطاف صاحب نے یہ بات منوا لی کہ عوام کی زبان میں دِل کی بات کی جائے تو اس کا راستہ نہیں روکا جا سکتا، ''اُردو ڈائجسٹ‘‘ اُردو کا پہلا رسالہ تھا، جو ایک لاکھ سے زیادہ چھپنے لگا‘ جس کے ہر شمارے کو پڑھنے کے بعد دوسرے شمارے کا انتظار شروع ہو جاتا تھا... الطاف صاحب کے ہاں جنس تھی، نہ بد اخلاقی، جذبات کا کاروبار تھا، نہ الفاظ کا بیوپار۔ وہ دِل میں اِس طرح جا اُترتے کہ آہٹ تک نہ ہو پاتی۔ کانوں کان خبر نہ ہوتی اور دِل اِن کی مٹھی میں آ جاتا۔ انہوں نے انٹرویو کا ایک خاص اسلوب اپنایا جو اِن سے پہلے نہ اِن کے بعد کسی کے حصے میں آیا۔ سخت سے سخت بات تلخ سے تلخ حقیقت اس طرح نقرئی ورق میں چھپاتے اور کڑوی کسیلی گولیوں پر خمیرہ گائو زبان کی یوں تہیں جماتے کہ نہ کھانے والا بد مزہ ہوتا اور نہ پہرے دار کو پتا چلتا کہ مریض کے تنِ مردہ میں جان پیدا ہونے کا ''خدشہ‘‘ پیدا ہو گیا ہے۔
الطاف صاحب زندگی سے قریب ہوتے ہوتے مختلف امراض کی نشاندہی کرتے کرتے وہاں پہنچ گئے کہ جو اُم الامراض ہے جسے سیاست کہتے ہیں۔ اِس صحرا میں اُتر کر اُنہیں لہجہ تبدیل کرنا پڑا۔ میدانِ جنگ میں کام آنے والے ہتھیار اٹھانا پڑے۔ سقوط ڈھاکہ کے المیے نے ان کے دِل میں چنگاریاں سی بھر دی تھیں۔ وہ بھٹو اقتدار کے معتوب ٹھہرے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ زندان اِن کا گھر بن گیا۔ جناب بھٹو کا عہدِ رسوائی ختم ہوا تو اِن کی اسیری بھی ختم ہوئی۔ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ سو الطاف صاحب جنرل ضیاء الحق کے دوستوں میں شمار ہونے لگے۔ جنرل صاحب کا اولین انٹرویو اِس دوستی کی اولین اور ناقابلِ فراموش یادگار ہے۔ پھر ایک لمحہ ایسا آیا کہ الطاف صاحب ایک ایڈیٹر اور جنرل صاحب ایک حکمران بن گئے۔ ایڈیٹر نے اپنی طاقت کا احساس دلایا۔ جنرل نے اپنی طاقت کا اظہار کر دیا۔ کوٹ لکھپت جیل میں ایک بار پھر بسیرا ہوا، لیکن جلد ہی معاملہ سنبھل گیا۔ ایک میان میں دو تلواریں تو نہیں آتیں، لیکن ایک قلم اور ایک تلوار تو آ ہی سکتے تھے، سو آ گئے، تلوار نے قلم کو اپنے حال پر چھوڑ دیا اور قلم نے تلوار کے ساتھ فرینک ہونے کا خیال چھوڑ دیا۔
الطاف صاحب بہت سوں کے لئے سونگھنے کی، بہت سوں کے لئے چکھنے کی، اور بہت سوں کے لئے دیکھنے کی چیز ہیں، لیکن میرے لئے وہ سب سے الگ ہیں اور سب سے مختلف ہیں۔ میں ان کا قاری ہوں، ان کا مداح ہوں، ان کا نیاز مند ہوں اور ان سے فیض اٹھانے کا دعویٰ بھی رکھتا ہوں۔ میں نے ان سے تحتِ ادارت کے اسرار و رموز سیکھے۔ اپنی ذات کو الگ رکھ کر لکھنے کا ڈھنگ معلوم کیا۔ اس طرح بات کہنے کی عادت ڈالی کہ مخالف پڑھے تو وہ بھی سوچنے پر مجبور ہو جائے۔ اس میں کیا شک ہے کہ الطاف صاحب صحافت میں ایک مکتب فکر کے، ایک سکول آف تھاٹ کے امام ہیں۔ اِن پر پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جائیں گے۔ ان پر جامعات کے شعبہ ہائے صحافت کو تحقیق کا سلسلہ دراز کرنا پڑے گا۔ انہوں نے اُردو صحافت کو وہ کچھ دیا ہے جو کسی ماہنامے کے ایڈیٹر نے آج تک نہیں دیا۔ ہفت روزہ '' زندگی‘‘ کے ذریعے بھی دھاک بٹھائی، روزنامہ ''جسارت‘‘ کے ذریعے بھی لوہا منوایا، وہ آگے تو بہت بڑھے، لیکن پھر لوٹ آئے۔ صحافت کے کوچے میں وہ آج اسی طرح اُردو ڈائجسٹ کے مدیر ہیں‘ جس طرح آج سے نصف صدی پہلے تھے۔ ان کی نئی محبت کا نام ادارہ امورِ پاکستان (پائنا) ہے۔
بلا کا حافظہ رکھنے اور قومی تاریخ کی ایک ایک کروٹ، ایک ایک سلوٹ کو از بر کرنے والے، الطاف صاحب کے مرتبے اور اثر کا کوئی اخبار نویس پاکستان کیا پوری دنیا میں شاید ہی گزرا ہو۔ وہ دُنیا کے واحد اخبار نویس ہیں، جو مہینے میں ایک بار لکھتے تھے۔ اور سوچنے والوں کو متاثر کر گزرتے تھے۔
الطاف صاحب کا ایک امتیاز، ان کے برادرِ بزرگ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی ہیں۔ ان کے ساتھ مل کر وہ قریشی برادران، بن جاتے اور ''علی برادران‘‘ کی یاد دلاتے ہیں۔ جنرل ضیاء کے آخری دنوں میں الطاف صاحب کو ستارۂ امتیاز دیا گیا تھا۔ محترمہ بے نظیر نے یہ امتیاز حاصل کیا کہ اسے ضبط کر لیا۔ ان کا اقتدار ضبط ہوا، تو یہ پھر الطاف صاحب کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ باقاعدہ امتیاز یافتہ ہیں، لیکن ان کا اصل امتیاز یہ ہے کہ ان کے قاری کا اعتماد آج بھی ان پر باقی ہے۔ الطاف صاحب کی ذات، میرے لئے کسی بزرگ کے آستانے کی طرح ہے کہ جہاں ہر وقت زائرین کا ہجوم رہتا ہے، لنگر تقسیم ہوتا، اہلِ دِل مست رہتے ہیں اور مجھے خواجہ اجمیرؒ کے ان الفاظ کے سوا کچھ اور سجھائی نہیں دیتا، سنائی نہیں دیتا اور دکھائی نہیں دیتا کہ:
گنج بخش فیض عالم، مظہرِ نورِ خدا
ناقصاں را پیر کامل، کاملاں را رہنما
(...ڈاکٹر طاہر مسعود کی تازہ تالیف ''الطاف صحافت‘‘ میں شامل میرے چند الفاظ۔...)
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)