ہم نے جو کام کیے‘ تاریخ اُن پر لکھے گی: آصف علی زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''ہم نے جو کام کیے‘ تاریخ اُن پر لکھے گی‘‘ جبکہ اتنی بڑی منی لانڈرنگ کا کیس ویسے بھی تاریخی نوعیت کا ہے اور ایک ریکارڈ کی حیثیت رکھتا ہے اور چند دنوں میں جو کچھ ہونے والا ہے‘ وہ ذرا جغرافیائی نوعیت کا ہوگا کہ ہمارا اپنا محل وقوع خاصا تبدیل ہو جائے گا‘ جبکہ اصل تبدیلی تو یہ ہوگی‘ کیونکہ یہ عمران خان کی تبدیلی کو بھی بہت پیچھے چھوڑ جائے گی اور یہ آگے پیچھے ہی کا کھیل ہے کہ ایسے کارناموں میں اور نواز شریف ہی آگے پیچھے ہوتے رہتے ہیں‘ جیسا کہ میں آج اُن سے بہت آگے نکلا جا رہا ہوں؛البتہ وہ مجھ سے صرف اس لحاظ سے آگے ہیں کہ اُن کی ساری فیملی ہی ماخوذ ہے‘ جبکہ میرے ساتھ صرف بلاول اور تالپور ہیں؛ البتہ ملک ریاض کو بھی ہمارا فیملی ممبرہی سمجھنا چاہئے کہ لاہور والا بلاول ہاؤس اُنہی سے یادگار ہے اور ابھی اور بہت کچھ باقی تھا کہ اوپر سے بلاوا آ گیا ہے۔ آپ اگلے روز گھوٹکی کے علاقے خان گڑھ میں جلسۂ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
لاہور کی طرز پر دیگر شہروں میں مویشی منڈیاں لگائیں گے: علیم خاں
پنجاب کے سینئر وزیر علیم خاں نے کہا ہے کہ ''لاہور کی طرز پر دیگر شہروں میں بھی مویشی منڈیاں لگائیں گے‘‘ کیونکہ مویشیوں کا حق ہم پر انسانوں سے بھی زیادہ ہے‘ کیونکہ انسان تو اپنے لیے ہاتھ پاؤں مار لیتے ہیں‘ مویشی بیچارے تو کچھ بھی نہیں کر سکتے‘ جبکہ انسانوں کا کام ویسے بھی اور اپنے آپ ہی چل رہا ہے‘ جیسے ہماری حکومت چل رہی ہے ‘کیونکہ جنہوں نے ہمیں اس آزمائش میں ڈالا ہے‘ حکومت چلانا بھی اُنہی کا دردِ سر ہے‘ جنہیں سالہا سال کا تجربہ بھی حاصل ہے‘ جبکہ ہم ابھی سیکھ ہی رہے ہیں ‘بلکہ سیکھنے کی نسبت حیران زیادہ ہو رہے ہیں کہ یہ تو ہمارا کام ہی نہیں تھا‘ جس پر ہمیں لگا دیا گیا ہے اور ہم صرف قائدؒکے اس فرمان کے مطابق کہ کام‘ کام اور صرف کام‘ پر لگے ہوئے ہیں‘ ورنہ ہمیں آتا جاتا کچھ نہیں ‘ تاہم لوگوں کو کام کرتے دیکھتے رہنا بھی ایک طرح کا کام ہے‘ لہٰذا یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم بیکار ہی بیٹھے رہتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں بریفیگ لے رہے تھے۔
اپوزیشن‘ حکومت کو گرا سکتی ہے: رانا ثناء اللہ
مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن حکومت کو گرا سکتی ہے‘‘ لیکن فی الحال گرا اس لیے نہیں رہی کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی مقدمات اور انکوائریوں کے سلسلے میں ذرا مصروف ہیں اور ان کے منطقی انجام کو پہنچنے کے بعد‘ یعنی مکمل فراغت حاصل ہونے کے بعد ہی اس کارِ خیر کو سرانجام دیں گے اور جن کارہائے خیر کے ضمن میں یہ پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے‘ ہماری اور پیپلز پارٹی کی عاقبت سنوارنے کیلئے وہی کافی تھے اور یہ جو لائن لگی ہوئی ہے اور جس میں خاکسار بھی شامل ہونے والا ہے۔ اس میں تو لگتا ہے کہ سب کے سب ہی بخشے جائیں ‘کیونکہ رفتہ رفتہ ہم اس سکور سے بھی انشاء اللہ آگے نکل جائیں گے‘ اول تو ہمارا قائد ہی سوا لاکھ کے برابر ہے اور ساری کمیاں پوری کر رہا ہے‘ جبکہ ابھی اس نے متعدد مزید مقدمات میں سرخرو ہونا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
آج تک اپنی بیوی کا پرس چیک نہیں کیا: شاہ رُخ خان
بالی وڈ کنگ شاہ رخ خان نے کہا ہے کہ ''آج تک اپنی بیوی کا پرس چیک نہیں کیا‘‘ ایک بار کوشش کی تھی‘ لیکن کئی روز تک ٹکوریں کرتا رہا؛ حتیٰ کہ ضروری شوٹنگ کیلئے بھی نہیں جا سکا‘ اس کے بعد کبھی اس ارتکاب کا سوچا تک نہیں‘ کیونکہ اسے تو یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ میں سوچ کیا رہا ہوں؛ حتیٰ کہ گھر میں آتا ہوں تو سوچنا یکسر ترک کر دیتا ہوں ‘کیونکہ آدمی کو اپنی عزت بھی پیاری ہوتی ہے اور جان بھی‘ جبکہ کسی ہیروئن کے بارے میں سوچنا تو آ بیل مجھے مار ہی کے مترادف ہوتا ہے‘ اس لیے گھر میں ہر کام بے سوچے سمجھے ہی کرنا پڑتا ہے؛ اگرچہ گھر میں کوئی سوچنے سمجھنے والا کام ہوتا بھی نہیں اور دماغ تو ویسے بھی ماؤف رہتا ہے؛البتہ باہر نکلتا ہوں تو سوچ بچار کا سلسلہ ‘پھر وہی سے شروع ہو جاتا ہے‘ جہاں سے گھر میں داخل ہوتے وقت کٹا تھا۔ آپ اگلے روز بمبئی میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
اور اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
دُور تک جو نہیں موجود فضا کافی ہے
جہاں بیٹھا ہوں وہاں تنگیٔ جا کافی ہے
کھل کے میں سانس بھی چاہوں تو نہیں لے سکتا
اور‘ مجھ کو ترے ہونے کی ہوا کافی ہے
آپ کے پاس کوئی نسخۂ شافی ہو اگر
ورنہ تو کب سے دوا ہے‘ نہ دُعا کافی ہے
ابھی جانا نہیں ہم نے تری جانب‘ ورنہ
یہ جو لکھا ہوا ہے تیرا پتا کافی ہے
سامنے سب کے ہے یہ کار گزاری اپنی
عمر بھر میں جو نہیں ہم نے کیا‘ کافی ہے
ہے یہی اہلِ قناعت کا طریقہ‘ یعنی
جو مرے ساتھ ہوا یا نہ ہوا‘ کافی ہے
باندھ رکھی ہیں بُتوں سے بھی اُمیدیں کیا کیا
وہ جو کہتے تھے ہمیں اپنا خدا کافی ہے
اور تو اور‘ مجھی تک بھی پہنچ پائی نہیں
پھر بھی میرے لیے یہ میری صدا کافی ہے
فیصلہ یہ بھی ابھی کر نہ سکے ہیں کہ ظفرؔ
کیا ہمارے لیے کافی نہیں‘ کیا کافی ہے
آج کا مطلع
تری امید ترے انتظار میں گم ہے
یہ وہ سفر ہے کہ جو رہگزار میں گم ہے