تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     30-12-2018

کون یادوں کو زنجیر پہنائے گا؟

پرانے دشمنوں اور پرانی عادتوں میں ایک قدر مشترک ہے ؛ یہ کہ دونوں سے آسانی سے جان نہیں چُھوٹتی۔ انسان بار بار ایسے دو راہے پر آجاتا ہے‘ جہاں اُس کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے‘ ذہن الجھ کر رہ جاتا ہے۔ یہ مرحلہ ہوتا ہے ‘ یاد رکھنے اور بھول جانے کا۔ ؎ 
محبت میں کیا کیا نہ صدمے اُٹھائے 
کسے یاد رکھوں‘ کسے بھول جاؤں؟
ہم انفرادی سطح پر بھی یاد رکھنے اور بھولنے سے متعلق ترجیحات کے تعین میں شدید مشکلات محسوس کرتے رہتے ہیں۔ زندگی بار بار ہمیں ترجیحات کے تعین کے امتحان میں ڈالتی ہے۔ ہم چاہیں کہ نہ چاہیں‘ یہ مرحلہ آتا جاتا رہتا ہے اور ہم اس مرحلے سے کب کتنے سُرخرو گزرتے ہیں ‘اس کا مدار ہمارے فیصلوں پر ہے۔ ہمیں درست وقت پر طے کرنا ہوتا ہے کہ ہمارے لیے کیا اور کون اہم ہے؟اگر اس حوالے سے فیصلے میں تاخیر ہو جائے ‘تو معاملات خرابی کی طرف بڑھنے لگتے ہیں۔ 
اجتماعی زندگی میں بھی بہت کچھ رکھنا اور بہت کچھ چھوڑنا پڑتا ہے۔ ہر معاشرہ اس آزمائش سے دوچار رہتا ہے اور اُسے طے کرنا ہوتا ہے کہ اُس کے لیے کیا اہم ہے اور کیا اہم نہیں۔ تاریخ پر نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ وہی معاشرے کچھ بن پائے‘ کچھ کر پائے جنہوں نے حالات کے تقاضوں کے مطابق تبدیل ہونے کی کوشش کی‘ یعنی کچھ رکھا اور کچھ چھوڑا‘ کام کی ہر بات کو گلے لگایا اور ہر بے سود و لایعنی معاملے کو کچرے کے ڈبے میں ڈال دیا۔ 
ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں ‘جس میں انفرادی اور اجتماعی دونوں ہی سطح پر غیر معمولی مسابقت کا سامنا ہے۔ بہت کچھ قبول کرنے اور دوسرا بہت کچھ مسترد کرنے کے مرحلے سے بار بار گزرنا پڑتا ہے۔ دل چاہے کہ نہ چاہے ‘ایسا تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ آج کی دنیا ہے ہی ایسی؛ اگر ایک قدم غلط پڑا تو دوسروں سے میلوں پیچھے رہ جانا مقدر ہو جاتا ہے۔ انفرادی سطح پر لوگ اگر ایسا کریں تو سمجھ میں آتا ہے ‘مگر اجتماعی سطح پر ایسی کسی بھی کیفیت کو تادیر برداشت یا گوارا نہیں کیا جاسکتا۔ عبرت کی گھڑی ہے کہ ہم نے اجتماعی سطح پر بھی کچھ ایسا ہی کیا ہے ‘یعنی بہت کچھ ایسا بھی گلے سے لگا رکھا ہے ‘جسے کسی بھی طور اپنایا نہیں جاسکتا تھا۔ 
ہم یادوں سے ڈرتے ہیں۔ اچھی ہوں تب بھی اور تلخ ہوں تب بھی۔ ماضی کے خوش گوار لمحات اور معاملات کو یاد کرنے سے زمانۂ موجود کی تلخیاں کم تو کیا ہوں گی‘ اور بڑھ جاتی ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی بھی حسین یاد کے دامن سے لپٹ کر خوش ہوں یا مزید آنسو بہائیں۔ عمومی سطح پر تو یہی ہوتا ہے کہ ہر دل کش اور حسین یاد زمانۂ موجود کی خرابی کو مزید دکھ دینے والے عذاب میں تبدیل کردیتی ہے۔ گزرا ہوا اچھا وقت جب دکھ دے سکتا ہے تو سوچیے کہ گزرا ہوا بُرا وقت دل و دماغ پر کس نوعیت کے اثرات مرتب کرتا ہوگا‘ جذبات کی کیا کیفیت ہو جاتی ہوگی‘ اعصاب پر کس نوعیت کا دباؤ پڑتا ہوگا اور ذہن کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہوگا۔ 
یہ دور ‘چونکہ مسابقت سے عبارت ہے‘ اس لیے قدم قدم پر آزمائش درپیش ہے۔ ہم چاہیں کہ نہ چاہیں‘ دنیا تو یہی چاہتی ہے کہ آزمائش ہوتی رہے‘ معاملات کو نئے سِرے سے سمجھنے کی کوشش کی جاتی رہے اور ہم خود کو کھرا یا سچا ثابت کرتے رہیں۔ یہ سب کچھ اچھا خاصا اعصاب شکن ہے۔ دل و دماغ میں طوفانوں کا اٹھتے رہنا فی زمانہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ‘بلکہ سچ یہ ہے کہ جس کے دل و دماغ میں طوفان نہ اٹھیں‘ وہ ابنارمل سمجھا جاتا اور کہلاتا ہے۔ 
پاکستانی معاشرہ انفرادی اور اجتماعی ہر دو طرح کے معاملات میں شدید پیچیدگیوں سے دوچار ہے۔ یہ الجھنیں راتوں رات ابھر کر سامنے نہیں آگئیں‘ بلکہ عشروں میں پروان چڑھی ہیں۔ آج عام پاکستانی اپنے انفرادی معاملات میں اور پوری قوم اجتماعی معاملات میں قدم قدم پر شش و پنج میں مبتلا رہ جانے کی آزمائش سے دوچار ہے۔ بہت کچھ ہے ‘جو ہماری زندگی میں خود بخود واقع ہوتا چلا جاتا ہے اور ہم اُس ریلے کے آگے بند باندھنے کے قابل نہیں رہے۔ مسائل موج در موج اٹھتے اور امڈتے آتے ہیں۔ خرابیاں انفرادی سطح پر پائی جائیں یا اجتماعی سطح پر‘ خرابیاں ہی ہوتی ہیں‘ یعنی ہماری زندگی کو مزید الجھاکر ہی دم لیتی ہیں۔ 
اس وقت پاکستانی قوم کو قدم قدم پر ایسے معاملات کا سامنا ہے‘ جو زندگی کو مزید الجھانے کا سبب بن رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پیچیدگیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ ہم بہت سی الجھنوں کا سامنا کرتے ہیں ‘مگر اُن کا تدارک سوچنے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ کیفیت محض اس لیے ہے کہ ہم سوچنے کے نام پر محض پریشان رہتے ہیں۔ ہر مسئلہ کوئی نہ کوئی حل چاہتا ہے۔ ہم کسی بھی مسئلے کا سامنا کرنے کے دوران اور تو سب کچھ کرتے ہیں‘ حل سوچنے پر ذرا بھی متوجہ نہیں ہوتے۔ کانوں کو ٹھیک ٹھیک اندازہ ہو کہ خطرے کا گھنٹہ بج رہا ہے‘ تب بھی ہم چاہتے ہیں کہ یہ آواز جلترنگ سی محسوس ہو! زمینی حقیقت خواہ کچھ ہو‘ ہم اپنی خواہشات کے دائرے میں گھومتے رہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سب کچھ ہماری مرضی کے مطابق چلتا رہے۔ سب کچھ یا بہت کچھ ہماری مرضی کے مطابق ‘اُسی وقت چل سکتا ہے جب ہم ایسا کرنے کی پوری تیاری کریں‘ ذہن بنائیں‘ عمل کا محض سوچنے تک نہ رکیں ‘مگر عمل کی منزل تک پہنچیں بھی۔ 
انفرادی اور اجتماعی سطح پر جو کچھ بھی کیا جاتا ہے‘ وہ یادوں کے ذخیرے میں تبدیل ہوتا جاتا ہے ‘یعنی یادوں کا ذخیرہ توانا تر ہوتا جاتا ہے۔ بہت کچھ ہے ‘جو ہمارے دل کی خواہش کا حصہ ہے ‘مگر عمل کی دنیا میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اعلیٰ معیار کی زندگی بسر کرنا ہر انسان کا خواب ہے‘ مگر یہ خواب از خود نوٹس کے تحت کماحقہ شرمندۂ تعبیر نہیں ہو پاتا۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہم خود کو کسی بھی بڑی تبدیلی کے لیے حقیقی مفہوم میں تیار ہی نہیں کرتے۔ محض سوچنے یا خواہش کرلینے سے کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ 
آج کا پاکستان عجیب دو راہے پر کھڑا ہے۔ ویسے تو خیر ہر دو راہا ایک بڑی آزمائش ہی کے مانند ہوتا ہے‘ کیونکہ غلط فیصلہ منزل سے بہت دور لے جاتا ہے‘ مگر اس وقت علاقائی اور عالمی سطح پر جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ غیر معمولی احتیاط کا متقاضی ہے۔ ہماری قیادت کو ایسا بہت کچھ کرنا ہے‘ جو بالکل درست اور بروقت ہو۔ ذرا سی لاپروائی سرزد ہوئی اور کام بگڑا۔ تین چار عشروں کے دوران دنیا اِتنی تبدیل ہوئی ہے کہ اب ہمارے پاس تبدیل ہونے کے سوا چارہ نہیں رہا۔ قدم قدم پر حالات یہی کہتے ہیں کہ کچھ نیا کرو‘ دوسروں سے الگ دکھائی دو‘ مگر ہم اس آواز پر دھیان اور کان نہیں دھرتے۔ 
ہم متوجہ نہ ہوئے تو فیصلے غلط ہوتے جائیں گے ‘جو ہمیں منزل سے دور لے جاتے رہیں گے اور تلخ یادوں کا ذخیرہ توانا تر ہوتا جائے گا۔ آج پاکستانی معاشرے کو بہت بڑے پیمانے پر تبدیلی درکار ہے۔ ہماری قیادت کو ایسا کچھ کرنا ہی ہوگا‘ جس کے نتیجے دل و دماغ پر مرتب ہونے والا دباؤ گھٹے۔ بڑی غلطی کا تو ذکر ہی چھوڑیے‘ اب چھوٹی چھوٹی غلطیوںکی بھی گنجائش نہیں رہی۔ حالات کا تقاضا ہے کہ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر سوچیںکہ کچھ بھی ایسا ویسا ہوگیا اور حالات بالکل ہی بے قابو ہوگئے تو ع
کون یادوں کو زنجیر پہنائے گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved