تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     30-12-2018

Unattainable

ہم چار دوست تھے۔ چاروں زندگی کی دوڑ میں دوسروں سے آگے نکلنے کے لیے بے تاب ‘ شدید جدوجہد کرتے ہوئے ۔ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد ہم میں سے دو بیرونِ ملک چلے گئے ۔ ایک نے اپنا کاروبار شروع کیا اور آخری‘ قربان علی نے ایک اچھی کمپنی میں نوکری کر لی ۔ کئی برس گزر گئے ۔ آخر وہ وقت آیا‘ جب امتیاز کی شادی پر ہم چاروں ایک بار پھر دارالحکومت میں اکھٹے ہوئے ۔شادی کی بھاگ دوڑ سے فرصت ملی‘ تو ایک بار پھر ہم اپنے پرانے ٹھکانے پر اکھٹے ہوئے ۔ حسب ِ معمول ہم اپنی کامیابیاں اور مستقبل کے منصوبے ایک دوسرے کو بتانے لگے ۔ 
ہم میں سے جو دو دوست بیرونِ ملک منتقل ہو چکے تھے۔ وہ ڈالر میں پیسے جمع کر رہے تھے ۔ظاہر ہے کہ جب وہ مقامی کرنسی میں تبدیل ہوتے تو ایک بہت بڑی رقم بن جاتی۔ انہوں نے بتایا کہ پھر اس رقم سے وہ پاکستان میں ایک بہت بڑا کاروبار کریں گے ؛حتیٰ کہ ایک دن وہ بیرونِ ملک تک پھیلنا شروع ہو جائے گا۔ دائود جو کہ کامیابی سے اپنافاسٹ فوڈ کا کاروبار کر رہا تھا‘اپنی تین شاخیں کھولنے کے بعد ملک بھر میں ان شاخوں کا جال بچھانے کے لیے بے چین تھا۔ہم تینوں جن منصوبوں پر کام کر رہے تھے‘ ان کے لیے مزید پیسوں کی ضرورت تھی۔ 
آخر سب بول چکے تو قربان علی کی باری آئی ۔ اس نے جب بات شروع کی تو ہمیں ایک جھٹکا سا لگا ۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ وہ جس کمپنی میں نوکری کر رہا تھا ‘ اس سے مطمئن تھا ؛ اگر اسے وہاں سے فارغ کر دیا جائے تو وہ اتنی رقم جمع کر چکا ہے ‘ جس سے ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کیا جا سکے ۔ اس کاروبار سے وہ اپنی موجودہ تنخواہ کے برابر‘ بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی کما سکے گا ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی زندگی سے بالکل مطمئن تھا۔ 
ہم تینوں دم بخود بیٹھے تھے۔ وہ تو ہم میں سے سب سے زیادہ ambitiousہوا کرتا تھا۔ آخر اسے ہوا کیا؟ وہ رک رک کے بات کر رہا تھا۔ اس کے لہجے میں گہری طمانیت تھی ۔ ہم تینوں مضطرب تھے ۔ وہ انتہائی پرسکون نظر آ رہا تھا ۔ہمیں اس کی باتیں سمجھ نہیں آ رہی تھیں؛البتہ یہ صاف ظاہر تھا کہ وہ بے وقوفی کا مرتکب تھا۔ اس کے پاس کوئی بڑا منصوبہ نہیں تھا۔ 
پھر بھی ہم نے اس سے پوچھا کہ اس میں یہ تبدیلی کیسے آئی ۔ وہ سوچتا رہا۔ اس نے کہا کہ میں نے ایک تصویر دیکھی تھی۔ مختلف ممالک کے کھلاڑی دوڑ کے ایک مقابلے میں شریک تھے اور finish lineکے قریب پہنچ چکے تھے۔ مداحوں کا ایک ہجوم اپنے اپنے پسندیدہ کھلاڑی کی ویڈیو اور تصاویر بنا رہا تھا۔ سب اپنے اپنے موبائل سے وہ خاص لمحہ captureکرنے میں مصروف تھے ؛البتہ ایک بوڑھی عورت بغیر کسی کیمرے یا موبائل کے ‘ اپنی آنکھوں سے اپنے پسندیدہ کھلاڑی کو دیکھتے ہوئے مسکرا رہی تھی ۔
یہ تصویر دیکھ کر مجھے ایک جھٹکا سا لگا۔اس نے مجھ پر ایک جہانِ حیرت کھول دیا۔یہ تصویر بتاتی ہے کہ یا تو آپ اپنے موجودہ لمحے سے بھرپور طور پر لطف اندوز ہو سکتے ہیں یاپھر آپ مستقبل کے لیے اس لمحے کو محفوظ بنا سکتے ہیں ۔ دونوں چیزیں اکھٹی نہیں ہو سکتیں؛ اگر آپ مستقبل میں اس سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو حال کی قربانی دینا ہوگی ۔ آپ نے شادیوں میں دیکھا ہو گا کہ ایک ایک لمحہ captureکرنے کی کوشش میں ‘ لوگ اپنی شادی کے لمحات سے liveلطف اندوز ہونے سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ یہ نہیں کہ تصاویر لینا ہی غلط ہے ۔ مستقبل کے لیے بھی کچھ momentsریکارڈ کرنا ضروری ہیں‘ لیکن ایک balanceضروری ہے۔وہ بیلنس ختم ہو چکا ہے ۔ 
اس نے کہا : تم تینوں مضطرب ہو۔ اس اضطراب میں تم اپنی زندگی کے موجودہ لمحات کو enjoyنہیں کر سکتے ۔ جب تک تم اپنی خواہش کے مطابق ‘رقم اکھٹی کرنے اور کاروبار پھیلانے میں کامیاب ہوگے‘ تمہارے قیمتی مہ و سال گزر چکے ہوں گے ۔ بال سفید ہونا شروع ہو جائیں گے ‘لیکن اس کا بدترین پہلو یہ ہے کہ جیسے جیسے تم ترقی کرتے جائوگے‘ تمہاری خواہشات بھی ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جائیں گی ۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ تم اپنے بہترین لمحات سے لطف اندوز ہونے سے محروم رہ جائو گے ۔یہ نہیں کہ بندہ مستقبل کے لیے کچھ اکھٹا نہ کرے‘ لیکن ایک توازن createکرنا انتہائی ضروری ہے ؛ اگر یہ توازن نہیں ہوگا‘ تو تمہاری پوری زندگی اچھے مسقبل کے بارے میں سوچتے ہوئے گزر جائے گی ‘ جبکہ حال سے تم کبھی بھی لطف اندوز نہیں ہوسکو گے ۔ 
اس نے کہا: سب سے زیادہ لطف ‘ ہمارا جسم جس کے لیے ترس رہا ہوتا ہے ‘ وہ جسمانی کام (Physical exercise)ہے ۔ اس دوران سانس پھولتا ہے ‘ دل کی دھڑکن تیز ہوتی ہے ‘ دماغ کو زیادہ آکسیجن ملتی ہے ۔انسان کو انتہائی آسودگی نصیب ہوتی ہے ‘لیکن تم تینوں کبھی بھی دوڑ نہیں لگائو گے ۔ تمہاری تمام تر دلچسپی پیسہ اکھٹا کرنے تک محدود ہوگی۔ 
ہم منہ کھولے اس کی باتیں سنتے رہے ۔ اس نے کہا : میں ایک آزاد شخص ہوں ۔ہم نے اس سے پوچھا کہ وہ آزاد کیسے ہوا؟ اس نے کہا کہ میں روزانہ کچھ دیر خدا کو یاد کرتا ہوں۔ دو وقت تھوڑا سا کھانا کھاتا ہوں ۔ روزانہ تین چار پھل اور شہد ۔ کچھ دیر دوڑ لگا تا ہوں ۔ میرے پاس ایک اچھی گاڑی ہے ۔ مجھے آسودہ رہنے کے لیے ایک کھلا کمرہ‘اٹیچ باتھ‘ گرم پانی ‘آرام دہ بستر درکار ہے‘ جو کہ میرے پاس موجود ہے ۔ میں روزانہ کچھ دیر عبادت کرتا ہوں ۔ تھوڑا سا غور و فکر ‘ کچھ دیر مطالعہ ۔ مجھے کوئی بڑی بیماری نہیں ہے ۔ میں لمحہ ٔ حال کے دوران ایک آسودہ زندگی گزار رہا ہوں ‘ جبکہ تم مستقبل secureکرنے کی لامتناہی اور بے کراں خواہش میں جکڑے ہوئے ہو ‘ جو کہ کسی صورت secureہو ہی نہیں سکتا۔ ہمیں کیا پتا کہ مستقبل میں کیا درپیش آنا ہے ؟ ہو سکتاہے کہ انسان پارکنسن کا شکار ہو جائے اور ساری دولت اکھٹی کر کے بھی باقی زندگی بیمار ہی رہے ۔
اس نے کہا : سب سے بڑی بات ‘ گو کہ میں نے مستقبل کی بھی کچھ منصوبہ بندی کر رکھی ہے ‘لیکن میں لمحہ ٔ حال میں زندگی گزارنے والا شخص ہوں ۔ مجھے یہ ڈر نہیں کہ میری نوکری چلی گئی تو کیا ہوگا ؟ اگر ایسا ہوا تو میرے پاس ایک متبادل منصوبہ موجود ہے ۔ میں اپنے موجودہ معیارِ زندگی کو برقرار رکھ سکتا ہوں ۔ میں اپنی موجودہ زندگی سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہو رہا ہوں ۔ میں نے ایک توازن حاصل کر لیا ہے ۔ تم لوگ شدید خوف اور خواہش کے زیر اثر ایک obsessedزندگی گزار رہے ہو۔ تمہارا لاشعور ہمیشہ اس خوف اور خواہش تلے دباہو ا کراہتا رہتا ہے ۔تم کبھی اپنے لمحہ ٔ موجودہ سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے ۔ تمہارے جسم جسمانی کام کے لیے ترستے رہتے ہیں ۔ زندگی میں جو کچھ تم حاصل کرنا چاہتے ہو‘ وہ پایا جا سکتا ہی نہیں ۔ تمہاری حالت اس گدھے کی طرح ہے ‘ جس پر سوارآدمی نے ایک چھڑی پر کچھ چارا باندھ کر اس کے منہ سے کچھ دور ‘ اس کی رسائی سے باہر لٹکا رکھا ہو اور وہ اسے نگلنے کے لیے ہمیشہ بھاگتا ہی رہے ۔ 
اس بات کو کئی سال گزر چکے ۔ وہ آج بھی اتنی ہی پرسکون زندگی گزار رہا ہے ۔ ہم تینوں آج بھی اسی بے چینی میں جی رہے ہیں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved