موسم نا مہرباں ہے۔ دل کا موسم‘ اس سے بھی زیادہ نا مہربان۔ کوئی موج نہیں اٹھتی‘ کوئی لہر نہیں جاگتی۔ خیال ابھرتا ہے‘ مگر متشکل نہیں ہوتا۔
حسرتیں دل کی مجسّم نہیں ہونے پاتیں
خواب بننے نہیں پاتا کہ بکھر جاتا ہے
سیاست سے وحشت ہونے لگی ہے۔ وہی لوگ‘ وہی موضوعات‘ وہی تیور۔ نتیجہ یہ ہے کہ تقریبات سے جی گھبراتا ہے۔ وہی چبائے ہوئے لفظ‘ وہی پامال جملے۔ خلق پریشان ہے کہ قافلہ کدھر جاتا ہے۔ امید کی جو کرن جاگی تھی وہ بجھ رہی ہے۔ خان صاحب کیلئے حسنِ ظن رکھنے والوں میں سے ایک نے کل کہا: بھٹو نے ایک نسل کو دھوکہ دیا تھا‘ کپتان نے دوسری کو۔ پیمان بہت کئے‘ مگر تعبیر کسی ایک کی نہیں۔
عزیزم محسن جعفر کی دعوت ولیمہ میں‘ ڈرتے ہوئے گیا۔ معلوم نہیں کیوں‘ معاشرے کا مزاج ایسا ہے کہ ہنسنے ہنسانے کی آرزو میں گفتگو بازاری ہو جاتی ہے۔ کیا لوگ اپنے آپ سے ڈرتے ہیں؟
اللہ کا شکر ہے کہ شاہد محمود ندیم کی موجودگی میں کچھ قرینے کی گفتگو رہی۔ اتنے میں ایک نوجوان نمودار ہوا۔ جامہ زیب‘ خوش اطوار۔ ایک کتاب اس نے آگے بڑھائی‘ رحمن فارس نام۔ کہا: میری شاعری کا اولین مجموعہ ہے۔ جس طرح کی کتابیں‘ آج کل چھپ رہی ہیں‘ گھبراہٹ ان سے ہوتی ہے۔ اس پہ تبصرے کا تقاضا۔ سوچا‘ کوئی طالب علم ہوگا یا شاید کالج کا استاد۔ وہ ایک افسر نکلا۔ خوش کلام‘ شاد کام۔ کتاب حوالے کی اور شائستگی سے راہ لی۔کتاب کھولی تو فلیپ پر لکھے شعر نے چونکا دیا۔
دیکھنے والا تھا منظر جب کہا درویش نے
کج کلاہو! بادشاہو! تاجدارو! تخلیہ
جستہ جستہ دیکھنا شروع کیا تو کئی چمکتے ہوئے مصرعے۔ یہ ''عشق بخیر‘‘ کے عنوان سے چھپنے والے اس مجموعے سے چند اشعار ہیں۔ انتخاب نہیں بس وہ جو پہلی نظر میں اچھے لگے۔ اللہ اس نوجوان کو برکت دے‘ زعم سے محفوظ رکھے اور ریاضت کی توفیق بخشے۔
اطلاعات کی یلغار نے معاشرے کو اور بھی سستا اور سطحی کر دیا ہے۔ عرق ریزی اور پتہ ماری پہلے بھی کم تھی‘ اب اور بھی سطحیت‘ اب اور بھی سنسنی خیزی... تو یہ ہیں‘ وہ چند اشعار۔
کہانی ختم ہوئی اور ایسے ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے‘ تالیاں بجاتے ہوئے
پھر اس کے بعد زمانے نے مجھ کو روند دیا
میں گر پڑا تھا‘کسی اور کو اٹھاتے ہوئے
............
عشق ٹوٹا تو استخارہ کیا
اور پھر عشق ہی دوبارہ کیا
............
عشق وہ علمِ ریاضی ہے کہ جس میں فارس
دو سے جب ایک نکالیں تو صفر بچتا ہے
............
زمانہ تو ہے ازل سے ستم شعار مگر
تجھے بھی رحم نہ آیا مجھے ستاتے ہوئے؟
............
کوشش کریں تو لوٹ ہی آئے گا ایک دن
وہ آدمی ہے‘ گزرا زمانہ تو ہے نہیں
............
خاک اڑتی ہے رات بھر مجھ میں
کون پھرتا ہے در بدر مجھ میں
مجھ کو خود میں جگہ نہیں ملتی
تو ہے موجود‘ اس قدر مجھ میں
بے گھری اب مرا مقدّر ہے
عشق نے کر لیا ہے گھر مجھ میں
موسمِ گِریا اک گزارش ہے
غم کے پکنے تلک ٹھہر مجھ میں
حوصلہ ہو تو بات بن جائے
حوصلہ ہی نہیں مگر مجھ میں
آنکھ سوتی ہے خواب جاگتے ہیں
کہیں شب ہے کہیں سحر مجھ میں
............
جب خزاں آئے تو پتے نہ ثمر بچتا ہے
خالی جھولی ہے ویران شجر بچتا ہے
نکتہ چیں! شوق سے دن رات مرے عیب نکال
کیونکہ جب عیب نکل جائیں‘ ہنر بچتا ہے
سارے ڈر اس ڈر سے ہیں کہ کھو جائے نہ یار
یار کھو جائے تو پھر کون سا ڈر بچتا ہے
غم وہ رستہ ہے کہ شب بھر اسے طے کرنے کے بعد
صبح دیکھیں تو اتنا ہی سفر بچتا ہے
روز پتھرائو بہت کرتے ہیں دنیا والے
روز مر مر کے مرا خواب نگر بچتا ہے
بس یہی سوچ کے آیا ہوں تری چوکھٹ پر
در بدر ہونے کے بعد ایک ہی در بچتا ہے
............
زندگی بھی ہے بڑی ڈھیٹ سی اک محبوبہ
چھوڑجائے تو کہاں بارِ دگر آتی ہے
............
تم ملاتے ہو بچھڑے لوگوں کو
اک میرا بھی یار ہے سائیں
روز آنسو کما کے لاتا ہوں
غم مرا روزگار ہے سائیں
ایک کشتی بنا ہی دیجے مجھے
کوئی دریا کے پار ہے سائیں
وسعتِ رزق کی دعا دیجے
درد کا کاروبار ہے سائیں
............
جہاں بھر میں کسی چیز کو دوام ہے کیا؟
اگر نہیں ہے تو سب کچھ خیالِ خام ہے کیا؟
............
تو اگر جھانکے تو مجھ اندھے کنویں میں شاید
کوئی لو ابھرے، کوئی نقش سجھائی دیوے
............
لعل و گہر کہاں ہیں دفینوں سے پوچھ لو
سینوں میں کافی راز ہیں‘ سینوں سے پوچھ لو
............
فنا کی رہگزر پہ منزلِ بقا حسینؓ ہے
یہی ہے قصّہ مختصر‘ یزید تھا‘ حسینؓ ہے
اور نعت رسولِ اکرمؐ!
جان سے جائوں تو ہونٹوں پہ ثنا ہو‘ آمین
آخری نعت مدینے میں عطا ہو‘ آمین
پھڑپھڑا کر مرے سینے سے نکل جائے دل
یہ کبوتر اُسی روضے پہ رہا ہو‘ آمین
میرے آنگن میں کھلیں‘ آپ کی سیرت کے گلاب
میرا گھر آپ کی خوشبو میں بسا ہو‘ آمین
حاضری اور حضوری میں مرے ماتھے کا نور
نبی پاکؐ کا نقشِ کف پا ہو‘ آمین
میری بستی سے اندھیروں کے یہ بادل چھٹ جائیں
ہر طرف روشنیِ صلِّ علیٰ ہو‘ آمین
چشمۂ چشم کا پانی اسے سیراب کرے
نخل مدحت کو میں جب دیکھوں‘ ہرا ہو‘ آمین
حرف کے پھول کھلانے کا مجھے فن مل جائے
اور اس فن کو کبھی نہ فنا ہو‘ آمین
بات بن جائے کسی طور میری نعت کی بات
لفظ کم بھی ہوں تو اشکوں سے ادا ہو‘ آمین