تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     31-12-2018

امن و امان…الامان الامان

قارئین!2018ء کا سورج اپنی آخری کرنیں بکھیرکر آج شام اپنے وقت پر غروب ہوجائے گا۔کل نئے سال کا سورج حسب ِمعمول طلوع ہوگا ۔سال کے اختتام پر سرکاری سطح پر محکموں کی طرف سے سالانہ کارکردگی اور اہدارف کے حصول پر مبنی اعداد وشمار کا گورکھ دھندا جاری ہے۔ہر محکمہ اس امر کا دعویدار ہے کہ اس نے امسال وہ کام کردکھایا جو شاید گزشتہ سالوں میں نہ ہوسکا۔خیر دعوے تو دعوے ہی ہوتے ہیں۔ کارکردگی تو وہ ہوتی ہے‘ جو عوام خود بے اختیار کہہ اٹھیں ۔اس کے لیے کاغذوں کے دستوں پہ دستے کالے کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور اس کارکردگی کے نام پر کالے کیے جانے والے کاغذوں کے دستے بھی اس ''کالک‘‘پر سراپا احتجاج ‘ سرکاری فائلوں کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں۔کارکردگی کے خوش کن اعداد وشمار پر مبنی ان کاغذات کے یہ پلندے بھی جانتے ہیں کہ شاباش‘مبارک اور تعریفی کلمات سمیٹنے والے اس ستائش کے حقیقی حقدار نہیں ہیں۔جن اہداف سے مشروط ساری مراعات ‘پروٹوکول‘ تام جھام اور ریل پیل انجوائے کی جاری ہے۔ جب وہی نہ ہوسکا تو یہ شاباش اور ستائش باہمی کا مقابلہ کیسا؟
جھوٹوں نے جھوٹوں سے کہا ہے کہ سچ بولو۔
سرکار ی اعلان ہوا ہے کہ سچ بولو۔
سرکاری سچ کا ڈھول اس قدر زور وشور سے پیٹا جاتا ہے کہ بس ہر سو ڈھول ہی ڈھول نظر آتا ہے ۔اورمزے کی بات یہ کہ ڈھول کا پول کھلنے کے باوجود بھی یہ ڈھول بند نہیں ہوتا۔
تحریک ِانصاف نے اقتدار میں آنے سے پہلے دعووں اور وعدوں کا ایسا ڈھول پیٹا کہ عوام سچ سمجھ بیٹھے کہ اگر واقعی تحریک انصاف برسر اقتدار آگئی تو ہمارے دن پھر جائیں گے۔سیاسی جلسے ہوں یا طویل ترین دھرنے یا پھر کوئی اورموقع۔عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر قائدین نے پنجاب پولیس کو ہمیشہ آڑے ہاتھوں لیے رکھا ۔کبھی پنجاب کو پولیس سٹیٹ قرار دیا جاتاتو کبھی پنجاب پولیس کو شہباز فورس کہا جاتا۔اور پولیس میں سیاسی مداخلت کو ایشو بنا کر سابقہ حکمرانوں سمیت پولیس افسران کو بھی ہدف تنقیدبنایا جاتا۔پنجاب پولیس پر سخت تنقید کے ساتھ یہ دعویٰ کیا جاتا کہ تحریک ِانصاف برسر اقتدار آکر پنجاب پولیس کو سیاسی مداخلت سے آزاد کرکے خود مختار اور عوام دوست فورس بنائے گی‘ جس کا سربراہ میرٹ پر آزادانہ کام کرسکے گا۔پولیس ریفارمز ہوں گی اور عوام کو تھانوں میں ذلت اور دھکے نہیں ملیں گے۔آئی جی کو طاقتور کیا جائے گا ‘وہ سیاسی مداخلت اور مصلحت سے بالاترہوکر فیصلے کرسکے گا۔آپریشنل اٹانومی کے تحت پولیس فورس کام کرے گی۔ حکومت کسی افسر کی تقرری اور تبادلے کے لیے آئی جی پر دباؤ نہیں ڈالے گی۔
ان بلندبانگ دعووں کے بعد جب تحریک انصاف بر سر اقتدار آئی تو عمران خان کی پہلی تقریر کو ہی غیرمعمولی مقبولیت نصیب ہوئی اور عوام بھی نہال ہوئے کہ اب ایک ایسا مسیحا آگیا ہے کہ جو ریاست میں سیاست برداشت نہیں کرے گا اور نہ ہی ریاست کو سیاسی مصلحتوں اور مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اب راج کرے گی خلق خدا۔لیکن عوام کی یہ خوش فہمی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔ پولیس ریفارمز کے لیے سابق آئی جی کے پی کے ناصر درانی کو ''دیوتا‘‘بنا کر لایا گیا کہ وہ جادو کی چھڑی گھمائیں گے اور پولیس کا قبلہ درست ہوجائے گا۔ لیکن حکومتی دعووں اور وعدوں کا کیا حشر نشر ہوا یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ناصر درانی کو جلد ہی سمجھ آگئی کہ گیم پلان ہی کچھ اور ہے۔ ''چیمپئنز‘‘ ایک بار پھرحکمرانوںکو اپنے نرغے میں لے چکے ہیں اور وہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ہررکاوٹ دور کرنے کی مہارت اور کمال رکھتے ہیں‘ خوا ہ وہ پولیس ریفارمز ہی کیوں نہ ہوں۔تاہم وہ بچی کچھی ''عزتِ سادات‘‘ سمیٹ کر روانہ ہوگئے۔اور پھرڈی پی او پاکپتن کے تبادلے اور خاور مانیکا سے معذرت کے مطالبے پرعثمان بزدار کوجس ندامت کا سامنا رہا وہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ سیاسی مداخلت اور بے اصولی کے اس فیصلے نے نا صرف وزیراعلیٰ پنجاب سمیت تحریک انصاف کو دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور کیا بلکہ اس وقت کے آئی جی پنجاب کلیم امام کو بھی اپنی خواہشات پر مبنی اس فیصلے کی بھینٹ چڑھا دیا۔مزے کی بات یہ کہ وزیراعلیٰ کا اس ندامت کے کنویں میں دھکیلنے والے آج بھی اہم حکومتی فیصلوں ‘ تقرریوں اور تبادلوں پر اثر انداز ہورہے ہیں۔ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال حکومت کے لیے ٹیسٹ کیس سے کم نہ تھی۔افسوس اس سے کوئی سبق حاصل کرنا تو درکنار ‘ بلنڈرز کی ایسی سیریز شروع کی گئی کہ یکے بعد دیگرے کئی آئی جی تبدیل کردیے گئے ۔ کلیم امام کوپنجاب سے ٹرانسفر کرکے آئی جی سندھ اس لیے تعینات کیا گیا کہ حکومت صوبہ پنجاب میں اپنے ویژن اور ترجیحات کے مطابق آئی جی لانا چاہتی تھی۔اور محمد طاہر کو جب آئی جی پنجاب تعینات کیا گیا تو یہ ڈھول بھی بجایا گیا کہ اب پنجاب پولیس کانا صرف قبلہ درست ہوگا بلکہ میرٹ کا بول بالا بھی ہوگا۔
آئی جی محمد طاہرابھی ٹھیک طریقے سے بیٹھ بھی نہ پائے تھے کہ ان کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے چلتا کردیا گیااور امجد جاوید سلیمی کو آئی جی پنجاب کی ذمہ داری دے دی گئی۔انھوں نے چارج سنبھالنے کے بعد پولیس لائنز میں افسران اور جوانوں سے آن کیمرہ خطاب کیا تو لگتا تھاکہ ''آ گیا وہ شاہکارجس کا تھا انتظار‘‘۔امید اور یقین کی ایسی فضا پیدا ہوگئی کہ پولیس فورس کا مورال بلندیوں پر جا پہنچا اور یہ گمان غالب آگیا کہ اب پولیس ریفامز ہوں یا نہ ہوں لیکن پولیسنگ اور سروسز میںتبدیلی ضرور آئے گی۔یہ صورتحال بھی گمان سے آگے نہ جاسکی۔وہی چیمپئنز پھر متحرک ہوگئے ۔ جوانوں اور افسران میں نئی روح پھونکنے والا اور کچھ کر گزرنے کا عزم لے کرآنے والاامجد جاوید سلیمی آج انہی چیمپئنز کا شکار ہوچکا ہے ۔بھلے وہ تما م ڈی ایچ کیو ہسپتالوں میں خدمت کاؤنٹرلگا دیں یافوری انصاف کیلئے 8787پر موصول ہونے والی شکایات پر فوری ایکشن لے لیں‘ مصالحتی کمیٹیاں بنا دیں یا تھانوں کا روزنامچہ آن لائن کردیں‘جب تک پنجاب پولیس کی چین آف کمانڈ ایک پیج پر نہیں ہوگی‘ مطلوبہ نتائج کا حصول ناممکن ہے۔
پنجاب پولیس عملاً دھڑے بندی کی وجہ سے اپنے اہداف سے دور ہوچکی ہے۔اور جرائم کی شرح میں تیس سے چالیس فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔کار چوری‘ ڈکیتی اور راہزنی تو معمول بن چکا ہے لیکن پولیس پر کما ل اطمینان اور جمو د طاری ہے۔صوبائی دارلحکومت کو ہی لے لیجئے ضلعی سربراہ کے دفتر کے سامنے تین کروڑ روپے کی ڈکیتی ہوگئی اور وہ موصوف ہل کر کمرے سے باہر نہیں آئے۔اپنے حالیہ کالم میں پہلے بھی ذکر کرچکا ہوں کہ سماجی رابطے اور موثر اطلاعی نظام کے بغیر کرائم کنٹرول کرنا ممکن نہیں۔ 9تا5سرکاری دفتر میں فائل ورک کرنے سے کرائم کیسے کنٹرول ہوسکتا ہے۔مردم بیزار پولیس کپتان جب سائلین کو ہی دستیاب نہ ہوگا تو پھر شہر کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔ماضی میں صوبائی دارلحکومت کو انتہائی قابل اور سمجھدار افسران میسر رہے ہیں‘ جن میںرانامقبول ‘طارق کھوسہ ‘ذوالفقار چیمہ ‘حاجی حبیب الرحمان‘ عامر ذوالفقار‘ چوہدری شفقات احمد‘امین وینس‘ عمرورک کا ذکر آج بھی کرائم فائٹر کے طور پر کیا جاتا ہے۔اسی طرح فیصل آباد ریجن میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے بلال صدیق کمیانہ اب شیخوپورہ ریجن میں نئے ریکارڈ بنا رہے ہیں۔گوجرانوالہ جیسے مشکل ریجن میں بہترین پولیسنگ اور کرائم فائٹنگ میں لوہا منوانے والے سابق آر پی اوراجہ رفعت اور آر پی او فیصل آباد غلام محمود ڈوگرکا ذکرنہ کرنا بھی ناانصافی ہوگی۔صوبائی دارالحکومت میں تعینات ڈی آئی جی آپریشنز وقاص نذیر کو اگر اپنے ویژن کے مطابق میرٹ پر کام کرنے کا موقع ملا اور وہ محلاتی سازشوں سے بچ گئے تو لاہو ر کے لیے وہ یقینا ایک بہترین کرائم فائٹر ثابت ہوسکتے ہیں۔اسی طرح ڈی آئی جی انویسٹی گیشن انعام وحید اور ایس ایس پی انوسٹی گیشن ذیشان اصغر بھی میرٹ اور گورننس کے ریکارڈ بنا رہے ہیں۔اگر کہیں کمی ہے تو صرف کپتان کی۔لاہور پولیس کو فیلڈ کا تجربہ کار اورسمجھدار مل جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ لاہور پولیس اپنے شاندار ماضی کی جھلک دوبارہ نہ دکھا سکے۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے تبادلوں پر پابندی لگا کر حاکمیت اور حاکمیت اعلیٰ کے تصور کا احساس دلایا ہے کہ طاقت کا سرچشمہ حکومت ہے ۔آئی جی یا چیف سیکرٹری پنجاب اپنے ویژن اور تجربہ کی بنیاد پر کوئی تبادلہ نہیں کرسکتا‘ اس کیلئے اسے وزیراعلیٰ سے باقاعدہ اجازت لینا ہوگی‘ کیونکہ اب تبادلے انتظامی نہیں‘ بلکہ سیاسی بنیادوں پر ہوں گے اور وزیراعلیٰ توپہلے ہی ان چیمپئنز کے نرغے میں ہیں‘ جو اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے انہیں ندامت اور سبکی کے گڑھے میں دھکیلنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved