تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     31-12-2018

بساطِ سیاست

ستائیس دسمبر کی شام جب پیپلزپارٹی کی قیادت بے نظیر بھٹو کی گیارہویں برسی منا رہی تھی ‘عین اسی دن حکومت نے آصف علی زرداری‘بلاول بھٹو زرداری‘مراد علی شاہ اور فریال تالپور کے نام ای سی ایل میں ڈال کے پیپلزپارٹی کی لیڈرشپ کو جو پیغام دینے کی کوشش کی وہ کارگر ثابت نہیں ہوا۔اسی پیش دستی کے بعد گڑھی خدابخش میں بے نظیر بھٹو کی برسی کی تقریب میں مسٹر زرداری اور ان کے جواں سال بیٹے بلاول بھٹو زرداری نے جس کبریائی لہجہ میں پی ٹی آئی حکومت اور اس کے پشتی بانوں کو للکارا‘ اس سے تو یہی لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی مایوس قیادت آخری لڑائی لڑنے کے لئے خود کو تیار کر چکی ہے۔بلاشبہ پی پی پی کی قیادت کے لئے قومی سیاست میں ابھرنے کا اس سے بہتر موقعہ اورکوئی نہیں ہو گا‘جب اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نیب کے ہاتھوںگرفتار ہوں‘مسلم لیگ کے قائد نواز شریف احتساب عدالت سے دوسری بار قید کی سزا پا چکے ہوں اور شہری سندھ میں ایم کیو ایم کی تقسیم کے بعد میدان صاف ہو‘ایسے میں قومی سیاست میں پیپلزپارٹی کا کردار نمایاں نہ ہوا تو ملک قبرستان کا منظر پیش کرے گا‘لیکن آصف زرادری‘جنہوں نے ہمیشہ مفاہمت کو فتح پہ ترجیح دی‘کی سیاسی روایت کو دیکھتے ہوئے شبہ گزرتا ہے‘کیا واقعی پیپلزپارٹی سیاسی آزادیوں کی جنگ لڑنے جا رہی ہے؟ یا پھر ہمیشہ کی طرح اس بار بھی زرداری سودا بازی کی پوزیشن مضبوط بنانے کی خاطر زورآزمائی میں مصروف ہیں؟ اگر ہم پلٹ کے دیکھیں تو ماضی میں پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے ہی آزادی اور مساوات کے نعروں کو قبول عام بخشا اور انہی رومان پرور نعروں کی گونج میں متوسط طبقہ سیاسی غلبہ کی طرف قدم بڑھانے لگا۔بدقسمتی سے سیاسی آزادیوں کے حصول کی مقدس جدوجہد نے ہمیں مایوسی اور سیاسی بحرانوں کے سوا کچھ نہیں دیا‘مجبوراً ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہماری سیاسی قیادت رہنمائی کی اہلیت سے عاری تھی۔ہمارا سماج ایسے کردار پیدا کرنے میں ناکام رہا جو کسی مربوط زاویۂ نگاہ کے ذریعے زندگی کی تفہیم کرتے اوراجتماعی مساعی سے قوم کو راہِ منزل کی طرف گامزن کرتے۔یہاں روسو اور والٹیئر جیسے سوشل سائنٹسٹ بھی پیدا نہ ہوئے جو ہمیں حریتِ فکر دے کر ایسی ذہنی عظمت سے روشناس کراتے جو نشاۃ ثانیہ کا وسیلہ بنتی۔آزادی کوئی سیاسی چیز نہیں ‘بلکہ ایک کیفیتِ ذہنی ہے‘جسے زنجیریں پہنائی نہیں جا سکتیں۔شاید ابھی یہ قوم ان ذہنی آزادیوں کی منزل تک پہنچ نہیں پائی‘شاید ہماری سیاسی لیڈرشپ ابھی خو د اسی تصور کے اسیر ہے‘ جس سے وہ سماج کو آزاد کرانے کی کوشش کرتی رہی۔جب بھی انہیں موقعہ ملا انہوں نے خود ہی فکری و سیاسی آزادیوں کو محدود کرنے میں عافیت تلاش کی۔ذوالفقار علی بھٹو کا سنہرا دور ایمرجنسی کی نذر ہو گیا۔1973ء کے آئین کی موجودگی کے باوجود عوام کے بنیادی حقوق معطل رہے۔اس عہد کی روشن خیال قیادت آئینہ ایام میں مستقبل کے حوادث کو دیکھ سکی ‘نہ ملت کے سفینہ کو ساحل مراد تک پہچانے میں کامیاب ہوئی۔
نوے کی دہائی میں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو پہ مشتمل ابھرتی ہوئی لیڈر شپ نے اقتدار کی خاطر مقتدرہ کے ہاتھوں استعمال ہونے میں حجاب محسوس نہ کیا۔نوے کی دہائی کے دونوں مقبول سیاستدان خود ناکام ہوئے اور جمہوریت کو بھی بے آبروکر گئے۔خود اپنے ہی ہاتھوں شکست سے دوچار ہونے کے بعد انہی اجڑے ہوئے سیاستدانوں نے مئی دوہزار چھ میں میثاقِ جمہوریت پہ دستخط کر کے سیاسی عمل کو آزاد کرانے پہ اتفاق کر لیا‘ لیکن اس میثا ق کے بعد بھی بدنصیبی نے انکا پیچھا نہ چھوڑا‘ پہلے بے نظیر بھٹو نے اپنی افتادِ طبع کے ہاتھوں مجبور ہو کے جنرل مشرف سے این آر او لے لیا جو بالآخر ان کی دردناک موت پہ اختتام پذیرہوا‘پھر میمو گیٹ سکینڈل اور یوسف رضا گیلانی کو عدالتی فیصلوں کے ذریعے وزارتِ اعظمیٰ سے ہٹانے کے ناپسندیدہ عمل کو کندھا فراہم کر کے‘میاں نواز شریف میثاق ِجمہوریت کی توہین کی قیمت پہ تیسری بار ادھورا اقتدار حاصل کر بیٹھے۔اب خیر سے آصف علی زرادری نے متنازعہ عدالتی عمل کے ذریعے نوازشریف گورنمنٹ کا تختہ الٹنے اور پی ٹی آئی کی حکومت کے قیام کی راہ ہموار کرنے کے صلہ میںسندھ کی صوبائی حکومت اور قومی اسمبلی میں چھیالیس نشستیں حاصل کر کے ایسی توانائی حاصل کی جو پی پی پی کے لئے وبال بن گئی۔ابن زیاد کی طرح ان کی ناقابل برداشت ذہانت نے سیاسی قوتوں کے باہمی اعتماد میں جو دراڑیں ڈالیں‘انہیں فوری طور پہ جوڑنا ممکن نہیں ؛چنانچہ اب ہر حال میں سیاسیدانوںکو اپنی موقعہ پرستی کی قیمت چکانا پڑے گی۔
کیا اخلاقی طور پہ شکست خوردہ قیادت ہمیں خواب کی تکمیل اور تعبیر دے پائے گی؟بہرحال!یہ تو معلوم نہیں کہ مقتدرہ پیپلزپارٹی جیسی کارآمد پارٹی کو مزاحمت کی راہ تک پہنچا کے کون سے مقاصدحاصل کرنا چاہتی ہے‘ لیکن پیپلزپارٹی کی قیادت زیر لب اسے‘اٹھارہویں ترمیم میں صوبوں کو دیئے گئے اختیارات سے دستبرداری اور کالاباغ ڈیم بنانے میں تعاون کے لئے دباؤ کے حربے کہہ کے سندھی عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش میں مشغول ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر مقتدرہ واقعی صوبوں کو ملنے والی معاشی خود مختیاری کو غلط سمجھتی تھی تو ایسی آئینی ترامیم کی اجازت کیوں دی گئی جس سے وفاق کی کمزوری کا راستہ نکلتا تھا؟دوسرا‘ریاست کے لئے کالا باغ ڈیم کی تعمیر پہ قومی اتفاق رائے حاصل کرنا بھی کوئی مشکل کام نہیں تھا‘ملک کا بڑا صوبہ پنجاب پہلے سے ڈیم کا حامی اور کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرنے والی سندھی قوم پرست تحریکیں کمزور ہو چکی ہیں‘اے این پی کی عملیت پسند لیڈر شپ قومی بقا سے جڑے معاملات میں تعاون سے کبھی گریزاں نہیں رہی‘ اگر انہیں تھوڑی سی اپنائیت اور سیاسی میدان میں کچھ گنجائش ملتی تو وہ بھی کسی نہ کسی صورت بڑے آبی ذخائرکی تخلیق میں معاون بن سکتی تھی‘تاہم اس تازہ کشمکش کے عقب میںآئینی ڈھانچہ اور سیاسی نظام میں تبدیلیوں کی بازگشت غور طلب ہے‘کیا ہم امید کر سکتے ہیں کہ یہی تغیر پذیر عمل نئے صوبوں کے قیام کا وسیلہ بنے گا؟ اگر ایسا ممکن ہوا تو اسے تبدیلی کا بہترین تحفہ سمجھا جائے گا۔
گزشتہ دس سال کے دوران پاورپالیٹکس کے کھیل میں مہارت کی دعویدار ہماری ہمہ دان اشرافیہ نے پیپلز پارٹی کو اقتدار میںحصہ دار بنائے رکھنے کے باوجود نہایت نپے تلے انداز میں زرداری خاندان کی مبینہ کرپشن کے خلاف جزوی کارروائیوں کے ذریعے‘پیپلزپارٹی کی فرسودہ سیاست کو دیمک زدہ بنانے کی کوشش کی‘ لیکن دوسری جانب 2008 ء سے 2013ء کے پانچ سال میں آصف علی زرداری نے بھی ایوانِ صدر میں بیٹھ کے پارٹی پہ گرفت مضبوط بنائی اور چانکیائی طرزِ سیاست کے ذریعے اپنے نظریاتی اصولوں پہ سمجھوتے کر کے ''عملیت پسند‘‘ ہونے کی شہرت پائی۔اسی روش کی بدولت یہ تاثر عام ہوا کہ امیرانہ اعتمادِ نفس سے لبریز آصف علی زرداری بوقت ضرورت ہر حد پھلانگ اور ہر بے اصولی کرنے کو تیار ہوسکتے ہیں۔نوازشریف اور مقتدرہ کی لڑائی کے دوران بھی آصف علی زرداری نے اپنا وزن مقتدرہ کے پلڑے میں ڈال کے اسی تصور کو تقویت پہنچائی لیکن اب ایسے وقت میں‘جب ساری سیاسی قوتیں مر چکیں‘ریاست کو کچھ بنیادی فیصلوں تک پہنچنے کے لئے ان کی سیاسی حمایت درکار ہوئی تو مفاہمت کے خوگر‘ آصف علی زرداری نے مزاحمت کا فیصلہ کر کے سب کو حیران کر دیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved