ایک زمانے سے احتساب کا ڈھول پیٹا جارہا ہے۔ ڈھول پیٹنے کا جو نتیجہ برآمد ہوسکتا تھا‘ وہی برآمد ہوا ہے۔ جب محرومی بڑھ جاتی ہے‘ تو انسان ہر معاملے سے کچھ نہ کچھ کشید کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ قوموں کا بھی یہی حال ہے۔ ہم بھی اب ہر معاملے کو تفریح ِ طبع کی چوکھٹ تک لاکر قربان کر ڈالتے ہیں۔ احتساب کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی کیا گیا ہے۔
قوم کی خون پسینے کی کمائی لوٹنے والوں کا کیا حشر ہونا چاہیے‘ یہ بات سمجھنے کی ہے‘ نہ سمجھانے کی۔ قوم کا درد رکھنے والے ہر دل کی خواہش ہے کہ وہ لوگ عبرت کا نشانہ بنادیئے جانے چاہئیں‘ جو قوم کی کمائی لوٹ کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ یہ خواہش کسی بھی اعتبار سے غلط نہیں‘ مگر یہ خواہش پوری ہوتی ہے‘ نہ قوم کو اُس کا حق ملتا ہے۔ ''منی ٹریل‘‘ اور ایسی ہی دوسری بہت سی اصطلاحات کے الٹ پھیر میں بہت کچھ ہے ‘جو الجھ کر رہ جاتا ہے۔ قوم معاملات کا سِرا ہی ڈھونڈتی رہ جاتی ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو وطنِ عزیز کے تمام کے تمام سات عشرے کرپشن کی کی نذر ہوئے ہیں۔ کرپشن کی بھی اتنی شکلیں ہیں کہ انسان شناخت کرتا رہ جائے۔ ریاستی مشینری سے وابستہ افراد برائے نام کام کرکے قانونی طور پر ایسے مزے لوٹتے ہیں کہ عوام انہیں دیکھ دیکھ کر دل تھام کر رہ جاتے ہیں۔ قومی خزانے کو ہر دور میں جی بھر کے لوٹا گیا ہے۔ سرکاری زمینوں کو ڈکارنے کی عادت اب ''تابندہ روایت‘‘ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اختیارات سے تجاوز کرنا قریباً سٹیٹس سمبل کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ کرپشن اب محض ریاستی مشینری یا منتخب نمائندوں تک محدود نہیں رہی۔ یہ لعنت پورے معاشرے پر محیط ہے۔ سرکاری مشینری کی دیکھا دیکھی پوری قوم نے طے کرلیا ہے کہ نہ تو ڈھنگ سے کام کرنا ہے اور نہ ہی غیر ضروری طور پر (!) دیانت کا مظاہرہ کرنا ہے! بہت حد تک یہ ''ٹریکل ڈاؤن ایفیکٹ‘‘ کا معاملہ ہے۔ جیسے حکمران اور اُن کے ماتحت ہوتے ہیں لوگ بھی ویسے ہی ہوتے جاتے ہیں۔ یہ حقیقت افسوسناک ضرور ہے‘ حیرت انگیز نہیں۔
احتساب کے نام پر اس قدر شور برپا کیا جاتا رہا ہے کہ کبھی کبھی تو کان پڑی آواز بھی سُنائی نہ دے پائی۔ لوگ سوچتے ہی رہ گئے کہ یہ ساری ہنگامہ آرائی کس کھاتے میں ہے۔ احتساب اور اِسی نوعیت کے دیگر بہت سے معاملات وعدوں اور دعووں سے شروع ہوتے ہیں اور اسی مرحلے میں دم بھی توڑ دیتے ہیں۔
ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ کوئی بھی معاملہ غیر معمولی جوش و جذبے کے ساتھ شروع کیا گیا ہو‘ تب بھی بالآخر سیاسی اور دوسری بہت سی مصلحتوں کی نذر ہوکر رہ جاتا ہے۔ احتساب کا پورا کھیل اب تک سیاسی ثابت ہوا ہے۔ نئی تشکیل پانے والی حکومت رخصت ہونے والوں کے احتساب کے نام پر قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیتی ہے۔ یہ تماشا قوم ڈھائی تین عشروں سے دیکھ رہی ہے۔ احتساب کے نام پر کمیشن ضرور بنائے جاتے ہیں‘ مگر ہوتا کچھ بھی نہیں۔ معاملات جوں کے توں رہتے ہیں‘ جس طور گڑھے میں پھنسے ہوئے پہیے بہت گھومنے پر بھی گاڑی ایک انچ آگے نہیں بڑھتی ‘بالکل اُسی طور احتساب کا محض ڈھول پیٹنے اور راگ الاپنے سے بھی کچھ نہیں ہوتا۔ کارروائی ٹھوس بنیاد پر کی جائے‘ تو کسی کام کی ثابت ہوتی ہے‘ بصورتِ دیگر معاملات ٹس سے مس ہونے کا نام نہیں لیتے۔
پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ احتساب کا کَدّو جب کاٹا جائے گا تو سب میں بانٹا جائے گا۔ یہ بات اُنہوں نے اپوزیشن کے اس الزام کے جواب میں کہی کہ احتساب سراسر ''سلیکٹیڈ‘‘ ہے‘ یعنی اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو نشانے پر لیا گیا ہے۔ حکومتی صفوں میں شامل بہت سی سیاسی شخصیات پر بھی کرپشن کے الزامات ہیں‘ مگر اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی۔ بہت شور مچنے پر اگر کسی کے خلاف کچھ کیا بھی جاتا ہے تو محض نمائشی انداز سے اور سراسر رسمی طور پر۔ فیاض الحسن چوہان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ کسی کو نہیں بخشا جائے گا‘ یعنی احتساب کا کَدّو سبھی کو کھانا پڑے گا۔
پنجاب کے وزیر اطلاعات نے جو بات کہی ہے ‘وہ کس حد تک درست ثابت ہوگی ‘یہ تو آنے والا وقت بتائے گا اور وہ وقت زیادہ دور نہیں لگتا۔ احتساب کے نام پر کس کس کی گردن پھنسے گی اور کون کون صاف بچ نکلے گا ‘اس حوالے سے پیش گوئی مشکل نہیں۔ سیدھی سی بات ہے‘ اپوزیشن کی گاڑی میں بیٹھے ہوئے مارے جائیں گے اور جو حکومتی بس میں سوار ہیں‘ وہ صاف بچ نکلیں گے۔ یہ بات ہم محض اندازے کی بنیاد پر نہیں‘ بلکہ ڈھائی تین عشروں کے مشاہدے کی روشنی میں لکھ رہے ہیں اور ہمیں پورا یقین ہے کہ فیاض الحسن چوہان درست ثابت ہوں یا نہ ہوں‘ ہم ضرور اور بالکل درست ثابت ہوں گے! ہاں‘ اتنا ضرور ہے کہ اپنا اندازہ درست ثابت ہونے کا یقین ہمارے لیے فخر کی بات ہے‘ نہ انبساط کی۔ یہ بھی کتنی عجیب بات ہے کہ کبھی کبھی اپنے اندازے کا درست ثابت ہونا انتہائی تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔
احتساب کا کَدّو کٹے یا تربوز ... یا کوئی اور پھل‘ قوم صرف یہ دیکھنے کی منتظر ہے کہ جو کچھ کٹتا ہے‘ وہ سب میں تقسیم ہوتا ہے یا نہیں اور سب کھاتے بھی ہیں یا نہیں۔ احتساب کے معاملے میں اب تک تو استثناء کا بازار گرم رہا ہے۔ جب معاملات سلیکشن اور آپشن کی منزل میں اٹک کر رہ جائیں تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ بات جب احتساب کی تک پہنچ جائے تو سلیکشن کی گنجائش رہتی ہے ‘نہ آپشن کی۔ ایسے میں تو غیر جانبدار رہنے ہی سے بات بنتی ہے اور مقامِ افسوس ہے کہ ہم غیر جانب داری کی لاج رکھنے میں سراسر ناکام رہے ہیں۔
1984ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''شرابی‘‘ میں امیتابھ بچن نے بے مثال اداکاری سے کروڑوں پرستاروں کے دل جیت لیے تھے۔ پرکاش مہرا کی ہدایات میں بننے والی فلم میں معروف کامیڈین مُقری نے بھی ایک ایسا کردار ادا کیا تھا‘ جو بہت مقبول ہوا تھا۔ اس فلم میں وہ نتھو لعل بنے تھے اور اُن کی مونچھوں نے ملک گیر شہرت پائی تھی۔ اسی فلم میں امیتابھ بچن کا یہ جملہ بھی زباں زدِ عام ہوا تھا کہ ''مونچھیں ہوں تو نتھو لعل جیسی ہوں‘ ورنہ نہ ہوں!‘‘
آج دلِ درد مند رکھنے والا ہر پاکستانی امیتابھ بچن کے ''نقشِ زبان‘‘ پر چلتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہے کہ احتساب ہو تو بھرپور ہو اور سب کے لیے ہو‘ ورنہ نہ ہو! یہ کیا کہ کسی کی گردن ناپی جائے اور کسی کو کچھ کہے بغیر چھوڑ دیا جائے۔ بھلا اس طور بھی کہیں احتساب ہوا کرتا ہے۔ ہم نے یورپ اور امریکا سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اب ذرا ''ہر موسم کے دوست‘‘ چین سے بھی کچھ سیکھ لیں جہاں کرپشن ثابت ہونے پر کسی سے کوئی رعایت نہیں کی جاتی۔ زندہ قومیں ایسے ہی اطوار کی حامل ہوا کرتی ہیں۔ جہاں معاملہ قوم کی دولت لوٹنے کا ہو وہاں کسی کو رعایتی مارکس ملنے نہیں چاہئیں۔
فیاض الحسن چوہان ہی بتاسکتے ہیں کہ احتساب کا کَدّو کٹنے پر پورا بانٹا جائے گا یا نہیں‘ ہم تو صرف یہی کہیں گے ؎
غلط ہو آپ کا وعدہ کبھی‘ خدا نہ کرے
مگر حضور کو عادت ہے بھول جانے کی